ٹرمپ کی جیت سے عا لمی تبد یلیاں
شیئر کریں
رفیق پٹیل
امریکی صد ارتی انتخابات کی گونج اور اس پر بڑے پیمانے پر تبصرے پاکستان میں بھی کیے جارہے ہیں ۔ یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ ٹرمپ کے امریکی صد ارتی انتخابات میں کامیا ب ہونے کے بعد دنیا میں بڑی تبدیلیا ں آئیں گی۔ پاکستان میں اس وجہ سے شور و غوغا زیادہ ہے ۔وجہ یہ ہے کہ کچھ پاکستانی سیاستدانوں نے ٹرمپ کی نہ صرف مخالفت کی تھی بلکہ جو بیانات دیے تھے وہ ہر طرح سے نامناسب تھے۔ ا نتخابات کے بعد اب وہ تما م رہنما جھک کر سلامی پیش کر رہے ہیں۔ ان پر خوف سوار ہے کہ ٹرمپ کے آنے کے بعد عمران خان کی واپسی کا راستہ ہموار نہ ہو جائے ۔یہ خوف ایک حد تک درست بھی ہو سکتا ہے لیکن امریکی صد ر کے سامنے سب سے پہلی ترجیح امریکی معیشت ہے ۔غیر قانونی مقیم باشندوں کے انخلاء اور مقامی صنعت کو فروغ دے کر چین کی اشیاء کے مارکیٹ میں پھیلاؤ کو روکنا بھی ہے۔ امریکی مفا دات کے مطابق عالمی تنازعات کا خاتمہ اور چین کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو روکنا بھی ان کی ترجیحات میں شامل ہے ۔امریکی عوام کی خوشحالی ان کے حقوق کو تحفّظ دینا بھی امریکی نو منتخب صدر کی ترجیح ہوگی جس میں مہنگائی کا خاتمہ شامل ہوگا۔ وہ یوکرین کی جنگ سے نکلنے کی کوشش کریں گے ۔مشرق وسطیٰ کے بارے میں وہ ایک نئی امن پالیسی لا سکتے ہیں ۔ہوسکتا ہے ٹرمپ پاکستان کے سلسلے میں کوئی موقف اختیار کریں لیکن یہ کب ہوگا اس کا اند ازہ آنے والے وقت میں ہوگا۔
پاکستان کے اندرونی مسا ئل کا حل پاکستان کے عوام اور سیاسی جماعتوں اور برسراقتدار حلقوں کو طے کرنا ہے۔ اس وقت پاکستان اداروں کے زوال اور غیر فعّال ہونے کے بحران میں مبتلا ہے ۔یہ سلسلہ قیام پاکستان سے آہستہ آہستہ بتدریج چلا آرہا ہے لیکن گزشتہ تین سالوں میں اس میں بہت تیز ی آئی ہے ۔ملک کی مقنّنہ، اوربرسراقتد ار سیاسی جماعتیں عوامی حما یت سے محروم ہیں ۔عد لیہ آزاد نہیں رہی، انتظامیہ جانب دارہے ، ا حتساب سے عاری اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے بھی محروم ہے۔ ملک کے اہم ادارے اور عوام کے درمیان بہت زیادہ دوریاں پید ا ہو چکی ہیں۔ اداروں کو مستحکم بنانے والے ملک ترقّی کرتے ہیں۔ اداروں کی کمزوری ملک کو کمزور کردیتی ہے ۔جاپان پر ایٹمی حملہ ہوا بڑی تباہی پھیلی لیکن اس نے ادارں کوبچایا۔ انہیں بدعنوانی سے پاک رکھا ۔عدلیہ کومزید آزاد اور مضبوط کیا۔ انتخابی عمل کو شفّاف بنایا ۔سیاسی جماعتوں کومضبوط کیا ۔ایما ند اری اور میرٹ کو پروان چڑھا کر اس نے حیرت انگیز ترقّی کی۔ اپریل 2022 کے بعد سے جو بحران شروع ہوا ،اس کی گہرائی کی طرف توجّہ نہیں دی گئی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بحران اچانک نہیں پید ا ہوا۔ اس کی ابتد ا پاکستان کے قیا م کے کچھ عرصہ بعد ہی شروع ہو گئی تھی۔ شدید سیاسی مسائل سامنے آگئے تھے ۔ایک خرابی اس وقت شروع ہوئی تھی جب 1947 کے بعد سے 1956 تک آئین صرف اس لیے نہیں بننے دیا گیا کہ مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی ،یعنی آبادی کے لحاظ سے وہ54 فیصد اور مغربی پاکستان 46فیصد لہٰذ ا وسائل میں ان کو آبادی کے تناسب سے حصّہ دینے سے روکنا تھا۔ اس مقصد کے لیے پیریٹی کے قانون کو آئین کا حصہ بنایا گیا ،یعنی مغربی اور مشرقی پاکستان برابرکے حصّہ دار ہونگے ۔مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے مقبول رہنما حسین شہید سہروردی نے عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس پیریٹی کو اس لیے قبول کرلیا کہ کسی طرح آئین بن جا ئے ۔اس طرح 1956میں آئین بن گیا حسین شہید سہروردی وزیر اعظم بن گئے جو شہریوں کے حقوق کے علمبردار بھی تھے ۔سرمایہ دار ،بڑے تاجر اور جاگیردار اس صورتحال سے پریشان ہوگئے اور انہوں نے صدر اسکندر مرزا پر دباؤ ڈال کر وزیر اعظم حسین شہید سہر وردی کو برطرف کرا دیا۔ یہ پاکستان کے لیے پہلی بڑی تبا ہی تھی مغربی اور مشرقی پاکستاں میں ایسی خلیج پیدا ہوگئی کہ اس کا کوئی ازالہ نہ ہو سکا ۔ایک اور تباہی اس وقت ہوئی جب جنرل ایوب خان کی پشت پناہی پر صدر اسکندر مرزا نے 1956ء کے آئین کو 7اکتوبر 1958ء کو ختم کرکے اسمبلیاں توڑ د یں ۔وزیر اعظم فیروز خان نون اور کابینہ کو برطرف کرکے مارشل لاء لگادیا۔27اکتوبر کو جنرل ایوب خان نے اقتدار سنبھال لیااس طرح جمہوریت بھی چلی گئی اور آمریت کا دور شروع ہوا۔ 1962ایوب خان اپنا ایک نیا آئین لے آئے۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں کا غصہ بڑھتا چلا گیا۔ مغربی پاکستان میں بھی طالب علموں ،مزدوروں اور کسانوں نے تحریک چلائی ،نتیجے میں ایوب خان نے اقتدار چھوڑ دیا۔ اقتدار جنرل یحییٰ خان کو دے دیا ۔یحییٰ خان نے پاکستان میں عام انتخابات کرادیے۔ عوامی لیگ نے واضح اکثریت حاصل کرلی لیکن اسے اقتدار دینے کے بجائے مشرقی پاکستان میں فوج کشی کردی ۔عوامی لیگ کو بھارتی فوج کی مدد مل گئی اور پاکستان دولخت ہوگیا جو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ تھا۔اگر مذاکرات کے ذریعے عوامی لیگ کو بنگلہ دیش کا اختیار دے دیاجاتا اور فوج کشی نہ ہوتی تو پاکستان ایک سانحے سے بچ جاتا۔ جیسا کہ سویت یونین نے کیا تھا۔ سویت یونین کے بھی ٹکڑے ہوگئے تھے لیکن کوئی خون خرابہ نہ ہوا۔ پولٹ بیورو کے اجلا س میں طے ہوا کہ تمام ریاستوں کو آزاد کردیا جائے۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد اب صرف مغربی پاکستان بچ گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے وزات عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد 1973میں ایک متفقہ آئین منظور کرالیا بعد میں اس میں ترامیم بھی ہوئیں۔ 1977دائیں بازو کی جماعتوں پر مشتمل پاکستان قومی اتّحادنے بھٹو پر دھاند لی کا الزام لگا کر ملک بھر میں پر تشدّد تحریک چلائی ، نتیجے میں جنرل ضیاء الحق نے اقتدا ر پر قبضہ کرلیا اور ذوالفقار علی بھٹوکی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خوفزدہ ہوکر ایک قتل کے مقدمے میںعدالت کے ذریعے پھانسی دے دی گئی۔ یہ ایک اور بڑا سانحہ تھا ۔ضیاء الحق کے دور میں کلاشنکوف اور منشیات کے کلچر کو فروغ حاصل ہواایک اور بڑی خرابی 1985 میں نواز شریف کے وزیر اعلیٰ بننے سے ہوئی جو ضیاء الحق کی سرپرستی میں آگے بڑھ رہے تھے ۔انہوں نے سیاست میں جوڑ توڑ کے لیے دولت کا بھرپور استعمال کیا۔ اس کے نتیجے میں سیاست آلودہ ہوگئی اور بدعنوانی کو فروغ حاصل ہوا ۔اس کے اثرات سے پیپلز پارٹی بھی محفوظ نہ رہ سکی اور آصف زرداری کے میدان میں آنے کے بعد سیاست نے کاروبار کی شکل اختیار کرلی ۔لین دین عام ہوگیا پس پردہ ملک کی مقتدر قوت کا سیاست میں عمل دخل بڑھ چکاتھا اور ایک مرتبہ پھر ملک جنرل مشّرف کے مارشل لاء کی زد میں آگیا ۔تقریباً 9 سال وہ بر سراقتدا ر رہے بے نظیر بھٹو نے آصف زرداری کو پیچھے کرنے کی پوری کوشش کی اور اپنی زندگی میں آصف زرداری کے لیے حدود متعیّن کی لیکن دسمبر 2007میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پی پی کے تمام اختیارا ت آصف زرداری کو حاصل ہو گئے۔ 2018 تک مسلم لیگ اور ن لیگ تین تین مرتبہ حکومت کر چکے تھے۔ کسی بھی حکومت نے شفاف انتخابات ،ادارو ں کو مضبو ط بنانے ، انتظامیہ کی سیاسی معاملات سے علیحدگی ، بدعنوانی کے خاتمے اورعوام کی خوشحالی پر بھر پور توجّہ نہیں دی بلکہ ساری توجّہ اقتدار کو طول دینے پر دی۔ نتیجے میں بدترین سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا سامنا ہے ۔لوگوں کا انتخابی عمل اور جمہوریت سے مکمل اعتبار ختم ہوگیا تو انتہا پسند تنظیمیں تیز رفتا ربھرتی کے ذریعے اپنی قوت میں بے تحاشہ اضافہ کر سکتی ہیں۔ اس مسئلے کومقامی سطح پر حل کرنا ہوگا ۔باہر کی کوئی قوت ہمارے اداروں کو بہتر نہیں کر سکتی ہیں ۔ٹرمپ کی کامیابی کے دنیا پر گہرے اثرات ہونگے لیکن ایمانداری کا رویّہ ہماری بہتری کی پہلی شرط ہے۔