اوڑی سیکٹرکے فاتح .... کیپٹن راجہ محمد سرور شہیدؒ
شیئر کریں
مفتی محمد وقاص رفیع
”سنگوری“ ضلع راولپنڈی کی مشہور تحصیل گوجر خان کا ایک مشہور علاقہ ہے ، جو بارشوں کی کمی کے باعث زیادہ تر بنجر اور غیر آباد رہا ہے ، اور لوگوں کو چونکہ ا س بنجر اور غیر آباد زمین میں کچھ اگانے کا موقع نہیں آتا ، اس لیے اس علاقہ کے اکثر و بیشتر لوگ فوج میں ملازمت کرتے ہیں ۔
سب سے پہلا نشانِ حیدر پانے والے مشہور کیپٹن راجہ محمد سرور شہید کا تعلق بھی اسی علاقہ سے ہے ۔ وہ 10 نومبر 1910 ءکو ایک مذہبی اور دین دار راجپوت گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد جناب محمد حیات خان فوج میں حوالدار تھے ۔ اخلاص و للہیت، خدا ترسی و خدا شناسی اور سخاوت و فیاضی ان کی پہچان تھی ۔ پہلی جنگ عظیم 28 جولائی 1914 ءتا 11 نومبر1918 ءمیں شجاعت و بہادری کے بے مثال و باکمال کار ہائے نمایاں انجام دینے کے انعام میں انگریز حکومت نے انہیں ضلع لائل پور ( حالیہ ضلع فیصل آباد) کی مشہور تحصیل سمندری چک نمبر 229 گ ، ب میں 3 مربع زمین الاٹ کی تھی۔ چنانچہ ایک سچے پکے اور انصاف پسند نمبر دار زمیندار ہونے کے حوالے سے محمد حیات خان کا نام آج بھی اس علاقے میں بڑے فخر سے لیا جاتا ہے ۔
راجہ محمد سرور شہید کا تقریباً سارا گھرانہ ہی مذہبی اور دین دار تھا ، اس لیے جب وہ اپنے سن شعور کو پہنچے تو ان کے والد نے انہیں ابتدائی دینی تعلیم دلوانے گاو¿ں کی مسجد میں داخل کروا دیا جہاں رہ کرکچھ عرصہ میں انہوں نے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کی ۔ پھر جب وہ 6 برس کے ہوئے تو ان کے والد نے انہیں ضلع لائل پور ( حالیہ ضلع فیصل آباد) کے چک نمبر 229 گ ، ب میں واقع ایک مقامی اسکول میں داخل کروادیا، جہاں رہ کر انہوں نے پانچ جماعتیں پڑھیں اور پرائمری انتہائی امتیازی نمبروں میں پاس کی ۔اس کے بعد 1925 ءمیں” تاندلیہ نوالہ“ مڈل اسکول سے مڈل ( آٹھویں جماعت) پاس کی اور 1927 ءمیں دسویں جماعت میں اوّل پوزیشن حاصل کر کے میٹرک پاس کیا ۔ اس وقت ان کی عمر 17 برس تھی۔
کیپٹن سرور شہید جس زمانہ میں عنفوانِ شباب کو پہنچے تو بدقسمتی سے وہ زمانہ انگریزوں کی حکومت کا تھا۔ مسلمان معاشی و معاشرتی دونوں حالتوں میں انگریز کی خون خوار چکی میں بری طرح سے پس جا رہے تھے ۔ انگریزوں اور ہندوو¿ں کی اس وقت کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ اوّل تو مسلمانوں میں تعلیم عام نہ ہونے دی جائے اور اگر کوئی مسلمان تعلیم حاصل کربھی لے تو اسے کسی اونچی پوسٹ پر براجمان کرنے کے بجائے کلرک یا چپڑاسی کی پوسٹ پر بٹھایا جائے۔ان گوناگوں نامساعد حالات میں کیپٹن سرور شہید نے اپنے دل میں اس بات کا عزم مصمم کرلیا کہ وہ اب کلرک یا چپڑاسی بننے کے بجائے ایک نڈر فوجی اور ایک بہادر سپاہی کی حیثیت سے ہی اپنی زندگی گزاریں گے ۔ بالآخر وہ دن بھی آن پہنچا جب ان کی یہ سچی خواہش برآئی اور وہ 1929 ءمیں بلوچ رجمنٹ میں ایک سپاہی کی حیثیت سے فوج میں بھرتی ہوگئے اور اپنا پہلا فوجی کورس کرنے اولڈ بلوچ سنٹر کراچی روانہ ہوگئے ۔ جہاں رہ کر وہ 2 سال تک مغربی سرحدی صوبے میں اپنی سپاہیانہ خدمات سر انجام دیتے رہے۔1941 ءمیں وہ حوال دار بن چکے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ڈرائیونگ کا کورس بھی مکمل کرلیا تھا ۔
1941 ءمیں کیپٹن سرور شہید ”رائل انڈین آرمی“ میں جونئیر کمشنر آفیسر منتخب ہوئے اور V.C.O اسکول آف رائل انڈین سروس کور میں انسٹرکٹر کی خدمات سرانجام دینے لگے ۔ 1942ءمیں ہنگامی کمیشن کے لیے ان کا چناو¿ کیا گیا ۔ ٹریننگ کورس کے بعد ”انڈین ملٹری اکیڈمی ڈیرہ دون“ سے مو¿رخہ 19 مارچ 1944 ءکو سیکنڈ لیفٹیننٹ ہوکر نکلے ۔ اور مو¿رخہ 27 اپریل 1944 ءکو لیفٹیننٹ بنادیے گئے ۔ 1945ءمیں جب دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا تو 1946 ءتک کیپٹن سرور شہید پنجاب رجمنٹ میں متعین رہے اور پھر 1946 ءمیں ان کو پنجاب رجمنٹ ( سیکنڈ) میں بھیج دیا گیا۔اور اس کے بعد یکم فروری 1947 ءکو انہیں فل کیپٹن کا عہدہ سونپ دیا گیا۔
برصغیر سے انگریز چلا تو گیا لیکن وہ اپنے پیچھے جو نفرتوں اور خانہ جنگیوںکے جال بُن گیا ¾برصغیر کے باسی عموماً اور مسلمانان قوم خصوصاً شاید اس کے اس جال سے صدیوں نہ نکل سکیں ۔ چنانچہ ہندوو¿ں کے ساتھ ملی بھگت کرکے انگریزوں کا مقبوضہ جموں و کشمیر کو پاکستان اور ہندوستان کے درمیان متنازع بنادینا تاریخ انسانیت کا وہ سیاہ کارنامہ ہے کہ جس کے رستے زخموں کااب قیامت تک مندمل ہونا شاید ناممکن ہو۔
1948 ءمیں چند چھوٹی چھوٹی جھڑپوں کے بعدجولائی 1948 ءمیں دشمن نے کشمیر میں ایک اہم چوکی پر قبضہ کرلیا اور قبضہ کرنے کے بعد پیش قدمی کا منصوبہ بھی بنالیا ۔ سیکنڈ پنجاب رجمنٹ کو جوابی کار روائی کے لیے کشمیر جانے کا آرڈر دیا گیا ۔ کیپٹن سرور شہید اس وقت اپنی ٹریننگ میں مصروف تھے اور ٹریننگ ختم ہونے سے پہلے انہیں رجمنٹ کے ساتھ کشمیر جانے کی اجازت نہ دی جاسکتی تھی ، مگر ان کے کمانڈنگ آفیسر نے جب ان کی جوشیلی اور ولولہ انگیز گفتگو سنی تو انہیں محاذ پر جانے کی اجازت دے دی۔
کیپٹن سرور شہید کشمیر میں جب محاذ پر پہنچے تو ”اوڑی“ کے مقام پر ایک پہاڑی پر دشمن قبضہ کیے بیٹھا تھا ۔ پہاڑی اس قدر اہم مقام پر تھی کہ دشمن پاک فوج کی تمام نقل و حرکت سے پوری طرح باخبر تھا اور کوئی بھی پیش قدمی اس کی نگاہوں سے اوجھل نہیں تھی ۔ اس لیے ضروری تھا کہ دشمن کے پنجے سے اس پہاڑی کو آزاد کرایاجائے اور دشمن کو وہاں سے ہٹادیا جائے ۔ چنانچہ کیپٹن سرور شہید نے اوڑی سیکٹر میں واقع دشمن کی اس اہم ترین فوجی پوزیشن پر حملہ کیا اورجب وہ دشمن سے صرف 30 گز کے فاصلے پر پہنچے تو دشمن نے ان پر بھاری مشین گن ، دستی بم اور مارٹر گنوں سے فائرنگ شروع کردی ۔ اس حملے میں پاک فوج کے مجاہدین کی ایک بڑی تعداد زخمی بھی ہوئی اور شہید بھی ہوگئی ۔ تاہم جوں جوں پاک فوج کے مجاہدین کی تعداد میں کمی آتی گئی توں توں ان کا جوش اور ولولہ مزید بڑھتا گیا ۔ اس کے بعد کیپٹن سرور شہید نے توپ کی گن خود سنبھالی اور دشمن پر گولیوں کی اندھا دھند پوچھاڑ شروع کردی اور بہت دور تک آگے کی طرف نکل گئے ، یہاں تک کہ اب دشمن کا مورچہ محض 20 گز کے فاصلے پر رہ گیا ۔ اس موقع پر اچانک انکشاف ہوا کہ دشمن نے اپنے مورچے کو خار دار تاروں سے چاروں طرف سے محفوظ کرلیا ہے ، لیکن اس غیر متوقع صورت حال کی کیپٹن سرور شہید نے ایک ذراپروانہیں کی اور کسی طرح اس سے ہراساں نہ ہوئے بلکہ مسلسل دشمنوں پر اندھا دھند فائرنگ جاری رکھی ۔ اس دوران انہوں نے اپنے ہاتھ سے ایک دستی بم ایسا ٹھیک نشانے پر پھینکا کہ جس کی وجہ سے دشمن کی ایک میڈیم مشین گن کے پرزے ہوا میں اڑنے لگے، تاہم اس حملے میں ان کا دایاں بازو شدید زخمی ہوگیا مگر انہوں نے اپنے زخموں کی پروا کیے بغیر 6 ساتھیوں کی مدد سے ان خار دار تاروں کو عبور کرکے دشمن کے مورچے پر آخری حملہ کیا ۔ دشمن نے اس اچانک حملے کے بعد اپنی توپوں کا رخ کیپٹن سرور شہید کی طرف پھیر دیا ، جہاں سے نکل کر ایک گولی کیپٹن سرور شہید کے سینے میں جالگی اور انہوں نے وہیں مو¿رخہ 27 جولائی 1948 کو جام شہادت نوش کرلیا ۔ مگر پاک فوج کے جانباز مجاہدین نے جب اس طرح انہیں شہید ہوتے دیکھا تو انہوں نے یکبارگی دشمن پر ایسا حملہ کیا کہ جس کی وجہ سے وہ اپنے مورچے چھوڑ کر بھاگ نکلے ۔ اور یوں جنرل اسکندر مرزا کے دور میں مو¿رخہ 23 مارچ 1957 ءکے یوم جمہوریہ کے موقع پر کیپٹن راجہ محمد سرور شہید کوان کی اس بہادرانہ شہادت کے انعام میں پاکستان کا پہلا نشانِ حیدر ملا۔
یہ عجیب حسن اتفاق دیکھئے کہ کیپٹن سرور شہید جس دن پیدا ہوئے تھے وہ عید کا دن تھا اورجس دن انہوں نے جام شہادت نوش کیا وہ عید کا دوسرا دن تھا۔ گویا عید کے ایک دو دن گزارنے بطورِ مہمان وہ اس دنیا میں تشریف لائے تھے۔