سفر یاد۔۔۔قسط 7
شیئر کریں
شاہد اے خان
ہم بطحہ سے ہوٹل واپس پہنچے تو اپارٹمنٹ میں دو اجنبی موجود تھے۔ سلام دعا کے بعد تعارف کا مرحلہ آیا۔ ایک کا نام عضام اور دوسرے کا سمیر تھا، دونوں کا تعلق مصر سے تھا۔ ہم سب نے بھی اپنے نام بتائے اور بتایا کہ ہمارا تعلق پاکستان سے ہے۔ تعارف کا یہ مرحلہ توآسانی کے ساتھ طے ہو گیا، باقی کی گفتگو مشکل سے مشکل تر ہوتی گئی۔ ان دونوں کی انگریزی بہت ہی کمزو ر تھی اور ہماری عربی کی حالت بھی کچھ اچھی نہیں تھی۔ کچھ اشاروں کچھ انگریزی اور کچھ عربی الفاظ کے ساتھ گفتگو شروع ہوئی، معلوم ہوا دونوں ہماری طرح کمپنی میں ملازمت کے لیے آئے ہیں۔ انہیں بھی ایئرپورٹ سے محمد نے پک کیا اور پھر اس، شگا صالحیہ ، یعنی الصالحیہ ہوٹل اپارٹمنٹ چھوڑ گیا۔ یعنی عضام اور سمیر بھی اسی کشتی کے سوار تھے جس میں ہم تھے۔ عضام چپ چاپ سا تھا شائد اسے گھر اور گھر والوں کی یاد آرہی تھی۔ سمیر کافی باتونی لگتا تھا لیکن ایک دوسرے کی زبان سمجھ میں نہ آنے کی وجہ سے بات چیت میں مشکل ہو رہی تھی، زیادہ تر بولنے کا کام سمیر ہی سر انجام دے رہا تھا ،ہم کچھ سمجھ میں آئے یا نہ آئے بس سر ہلا کر اس کو جواب دے رہے تھے۔ سمیر زور زورسے ہاتھ ہلا کر بات کر رہا تھا خدا جانے کیا کہہ رہا تھا۔ سعودی عرب میں مصری باشندے خاصی بڑی تعداد میں موجود ہیں، عربی بولنے اور خود کو عرب سمجھنے کی وجہ سے یہ لوگ خود کو کوئی برتر مخلوق سمجھتے ہیں ویسے سعودیو ں کو اپنے علاوہ کوئی عرب نظر نہیں آتا، ان کے نزدیک سعودی عرب میں کھانے کمانے کے لیے آنے والے تمام لوگ اجنبی ہیں، چاہے وہ عربی بولنے والے مصری ہی کیوں نہ ہوں۔ رفیق، صَدیق، علی عوض، ابو صرہ، ابو فسییہ۔ یہ وہ الفاظ ہیں جن سے عرب ملکوں میں عموما اور سعودی عرب میں خصوصیت کے ساتھ اجنبی یا غیر ملکی لوگوں کو پکارا جاتا ہے۔ یہ ا±ن لوگوں کے نام نہیں ہیں بلکہ ان لوگوں کی توہین کے لیے ا±ن کو بلانے کے طریقے ہیں۔ ہاں اس توہین کے بھی درجے ہیں ،پاکستانی یا بنگلا دیشی کو رفیک (رفیق) کہہ کر پکارا جاتا ہے، فلپائنی ،یورپی یا گورے کو سدیک(صدیق) کہہ کے بلاتے ہیں۔ عرب ملکوں میں ویسے تو ہر غیر ملکی کو فرداً فرداً اجنبی اور مجموعی طور پر اجانب کہہ کر بلایا جاتا ہے چاہے یہ اجنبی کسی بھی حیثیت کا ہو اور ہر مقامی شہری کو مواطن کہا جاتا ہے چاہے وہ کسی درجے اور کسی حیثیت کا ہی کیوں نا ہواور یہی مواطن اصل میں اس خطے میں پایا جانے والا حقیقی انسان ہوتا ہے باقی لوگوں کو انسان سمجھا ہی نہیں جاتا۔ اس حقیقت کو وہ تمام لوگ اچھی طرح جانتے اور محسوس کرسکتے ہیں جنہوں نے سعودی عرب یا دیگر خلیجی ملکوں میں ملازمت کی ہے۔ رفیق اور صدیق اعلی اور نفیس درجے کے الفاظ ہیں مگر اس خطے میں یہ الفاظ اس لہجے میں نہیں سموئے جا سکتے جس نظریے کے تحت بولے جاتے ہیں۔
کوئی ڈاکٹر ہے، انجینئر ہے، استاد ہے، بڑا ہے، چھوٹا ہے یہاں بد زبانی سے کوئی بھی محفوظ نہیں محض اس لیے کہ وہ اجنبی ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی مواطن ہے تو چاہے کسی بڑی سے بڑی زیادتی کا مرتکب ہو جائے، اکثر حالات میں اس کا بال بھی بیکا نہیں کیا جا سکتا۔ خیر بات عضام اور سمیر کی ہو رہی تھی ، ہمارے ساتھی ایک ایک کر کے کمرے سے کھسک لیے، ہم جو مروت میں سر ہلا رہے تھے سمیر اور عضام کے درمیان پھنس چکے تھے۔عضام نے اپنے بٹوے سے ایک تصویر نکالی اور اس کو چومنے لگا ،اس کی آنکھوں میں آنسو تیر گئے، ماحول یک دم جذباتی سا ہوگیا۔ سمیر بھی خاموش ہوگیا پھر اس نے اپنی زبان میں عضام کی دلجوئی شروع کردی، سمیر نے نہ جانے کیا کہا کہ عضام مسکرانے لگا پھر اس نے تصویر ہماری طرف بڑھادی۔ تصویر ایک گول مٹول خوبصورت بچی کی تھی، عضام نے تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دو بار کہا ، ماہا ماہا۔ یعنی بچی کا نام ماہا تھا اور وہ عضام کی شائد سب سے چھوٹی بیٹی تھی۔ سمیر نے ماحول میں بڑھتی یاسیت کو محسوس کرلیا، اس نے اپنے بیگ سے شطرنج نکالی اور مہرے جمانے لگا۔ ہم نے کہا شطرنج ماشا اللہ۔ سمیر خوش ہوگیا ،بولا انت معلوم شطرنج، یعنی تم کو شطرنج کا پتہ ہے۔ ہم نے گردن ہلادی لیکن اس سے پہلے کہ ہم کھیلنے بیٹھیں، عضام اپنا دکھ درد بھول کر سمیر کے سامنے بیٹھ گیا، دونوں نے کھیلنا شروع کردیا، سمیر زور زور سے بو ل رہا تھا جبکہ عضام مسکرا مسکرا کر چالیں چل رہا تھا۔ ہم کچھ دیر تک ان کا کھیل دیکھتے رہے دونوں شطرنج میں محو ہو چکے تھے۔ہمیں نیند آرہی تھی اس لیے ہم تو سونے کے لیے لیٹ گئے۔ عضام اور سمیر کی شطرنج کی بازیاں کب تک چلیں معلوم نہیں۔ ہم صبح اٹھے تو سمیر اورعضام سوئے ہوئے تھے۔۔۔ جاری ہے