اسلامی انقلاب کی فکر
شیئر کریں
احمد اعوان
شہرسے باہرایک فارم ہاﺅس پر 4 دوست جمع ہیں،ان کی عمریں35سے 55سال کے درمیان ہیں۔ان چاروں دوستوں میں ایک فلسفی ہے اورباقی تین کاروباری شخصیات ہیں،چاروںدوست کافی عرصہ بعدایک ساتھ جمع ہوئے ہیں۔ان میں سے ایک دوست حال ہی میںامریکا سے واپس آیاہے اوراب اس کی فرمائش پر دیگردوست فارم ہاﺅس پرجمع ہوئے ہیں۔رات کے اس پہرمکمل سکون ہے۔کمرے میںصرف گھڑی کاشورہے ، چاروںدوستوںکے ہاتھ میں چائے کے کپ ہیں، وہ ابھی ابھی خاموش ہوئے ہیں، وہ ملک کی داخلی صورتحال پر کافی دیرسے گفتگوکررہے تھے۔ ان دوستوںمیں ایک سینیٹربھی شامل ہے جوکسی سیاسی پارٹی سے تعلق نہیںرکھتامگرصنعت کارہونے کی وجہ سے سینیٹربن گیاہے جس کی وجہ سے اس کی سیاسی معلومات پردیگردوست کوئی خاص اعتراض نہیںکرتے ۔کافی دیرخاموش رہنے کے بعد ایک دوست کہنے لگایارامریکا میں مسلمانوںکے حالات ماضی کے مقابلے میںبہت خطرناک صورتحال کاشکار ہوچکے ہیں،اب امریکا مسلمانوںکے لیے ایک محفوظ جگہ نہیںہے۔بوڑھے فلسفی نے پہلی بارآنکھیںکھول کراس دوست کی طرف دیکھا ۔ بوڑھا فلسفی کافی دیرسے خاموش تھا، وہ کم ہی گفتگومیں حصہ لیتاتھا، وہ بس سنتاہے اورپھرکافی دیربعدکوئی ایک سوال کرتاہے ۔مگراس کے سوال میں کافی سوالوںکے جواب مل جاتے ہیں۔
دوسرے دوست نے کہا مغرب میں چند لوگوں نے اسلام کاغلط چہرہ پیش کیا ہے، اسلام محبت کادرس دیتاہے۔ تیسرے نے کہامسلمانوںکواگریورپ اورامریکامیںرہناہے، توان کو وہاںکے قوانین کااحترام کرناچاہیے ۔ بوڑھافلسفی اب تک خاموش ہے مگراب وہ خاموش رہ کرمحفل کوغورسے سننے لگاہے۔
پہلادوست چائے کاکپ رکھتے ہوئے: اسلام کوانتہاءپسندی نے بہت نقصان پہنچایاہے ۔
دوسرادوست :اسلام میں مساوات ہے، اسلام آزادی دیتاہے ۔
تیسرے دوست نے کہا:اسلام کوآج کے دورسے ہم آہنگ کیے بغیرترقی کرنامسلمانوںکے لیے چیلنج سے کم نہیںہوگا۔
بوڑھافلسفی اب بھی خاموش ہے۔
دوسرے دوست نے بوڑھے فلسفی کومخاطب کرتے ہوئے کہا تمہارے خیال میں اسلام آج 2016ءمیںنافذ ہوسکتا ہے؟
بوڑھے فلسفی نے اپنی موٹی اورچمکتی آنکھوں کو کھول کراس کی طرف دیکھااورکہنے لگا۔
دیکھوتم تینوںاسلام کے لیے کیوں فکر مند ہو؟ تمہارا اسلام سے کیاتعلق ہے؟
تینوںدوست ایک ساتھ بولے کیامطلب ؟
ہم مسلمان ہیںبھائی ہمارادل دکھتاہے اسلام کی یہ حالت دیکھ کر۔
بوڑھافلسفی زیرلب مسکرایااوربولاکہ اچھا تو تمہیں فکر ہے اسلام کے زوال کی ۔۔۔
اچھا۔۔! میں تم تینوںسے ایک سوال پوچھتا ہوں اس کاجواب دو۔
تینوںنے کہاپوچھو۔
بوڑھے فلسفی نے ان تینوںسے پوچھاکہ یہ بتاﺅں تم لوگوںنے اپنی شادیوںپرکتنے روپے خرچ کیے تھے اورکتنے دنوںمیںخرچ کیے تھے؟
پہلادوست؟میں نے اپنی شادی پر تقریباً 7 لاکھ خرچ کیے تھے اور17دنوںمیںخرچ کیے تھے ۔
دوسرا دوست: میںنے تقریبا12لاکھ کوئی مہینے بھرمیںخرچ کیے ۔
تیسرادوست :میں نے تقریبا9لاکھ خرچ کیے تھے اورکوئی بیس بائیس دنوںمیں خرچ ہوئے ہونگے۔
بوڑھے فلسفی نے تینوںسے پوچھاکہ تم میں سے کسی نے کبھی اتنی رقم اتنے دنوںمیں اسلام کے نام پرخرچ کی ؟
تینوںنے کچھ دیرسوچااورکہنے لگے نہیں، ہمیں یاد نہیںپڑتاکہ کبھی ہم نے اتنی رقم اسلام کے نام پراتنے دنوںمیں خرچ کی۔
بوڑھے فلسفی نے کہا تمہیںشرم نہیںآتی کہ تم لوگ اسلام کانام لیتے ہو، اسلام کے لیے فکرمندی ظاہرکرتے ہو؟تم لوگ دنیاکے لیے لاکھوںروپے چندروزمیںخرچ کرسکتے ہومگراللہ کے دین کے لیے کبھی توفیق نہیںہوئی کہ لاکھوںروپے خرچ کرو تمہیںکوئی حق نہیں پہنچتاکہ تم اسلام اوراسلامی انقلاب کی باتیں کرواوراس کے لیے اپنی فکرمندی ظاہرکرو۔جب تک تم جیسے کردارہیںتو اسلامی انقلاب کیسے آئے گا؟
ایک دوست نے کہاشادی توسنت ہے اس پرروپیہ خرچ کرناکیاگناہ ہے؟
بوڑھے فلسفی نے کہا اوبے شرم انسان رسول ﷺ کی سنت کی غلط تشریح مت کر، رسول ﷺنے اپنی یااپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین کی کون سی شادی پراتناپیسہ خرچ کیاتھا، وہ رسول ﷺجن کے کپڑوںمیں پیوندلگے ہوتے تھے اورجن کے گھرکی چھت اتنی اونچی تھی کہ حضورﷺکاسرمبارک اس سے ٹکراتاتھااورگھرمیںآسائش نام کی کسی شے کاوجودنہ تھا، وہ رسول ﷺجنہوںنے اپنی بیٹی فاطمةالزہرہ رضی اللہ عنہ کوچندضرورت زندگی کی اشیاءدے کررخصت کیا، جب حضورﷺکویہ اختیار حاصل تھاکہ چاہتے تودنیاکاعالی شان محل تعمیرکرکے رہ سکتے تھے تب بھی انہوںنے اپنی جھونپڑی مبارک نہ چھوڑی ، تم بے شرم اپنی عیاشی ، دولت کی نموونمائش کورسول ﷺکی سنت کے پیچھے چھپاناچاہتے ہو۔تمہیںکچھ حیاءنہیںآتی کہ تمہارے ملک میںایک عورت اپنے 4بچوںکے ساتھ راوی کے پل سے کودجاتی ہے کیونکہ اس کے پاس بھوک مٹانے کوکوئی مال واسباب نہ تھا، تم اس معاشرے میںجی کرکہتے ہویہ سنت ہے؟؟؟تم یہ جواپنی دولت کے اظہارکوسنت کانام دے کرشادی پرخرچ کرتے ہومیرابس چلے توتمام محروموں اور غریبوں کے خون کاپرچہ 302کے تحت تم امیروں پر کٹواﺅں۔۔۔
بات کرتے ہیںانقلاب کیوں نہیں آتا۔۔۔ (بوڑھا فلسفی بڑبڑاتے ہوئے)
تینوںدوست ندامت کی تصویربنے سرجھکائے بوڑھے فلسفی کی باتیںسنتے رہے کہ اتنے میں فجرکی اذان ہوئی،بوڑھافلسفی اپنی جگہ سے کھڑاہوا اور بڑبڑاتا ہوامسجد کے لیے چل پڑا۔
تینوں دوستوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور افسوس کی وادی میں کھوگئے ۔