قومی اداروں کو نشانا بنانے کی مکروہ روایت سے صحافتی آبرو خطرے میں
شیئر کریں
(تجزیہ:باسط علی)پاکستان میں صحافت کے پراسرار ماحول میں گزشتہ روز ایک بار پھر قومی ادارے کو نشانا بنایا گیا۔ پاکستان کے حساس ادارے آئی ایس آئی میں ہونے والی حالیہ تقرری کو ایک بار پھر متنازع بنانے کی کوشش کی گئی۔ گزشتہ دنوں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو کورکمانڈر پشاور تعینات کیا گیا تھا، جبکہ اُن کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کا کورکمانڈر کراچی سے ملک کے سب سے طاقت ور ادارے آئی ایس آئی میں تبادلہ کیا گیا تھا۔ معمول کے ان تبادلوں کے ساتھ کچھ اور بھی فوجی تبادلے ہوئے تھے، ان تبادلوں میں ایسا کچھ بھی انوکھا نہیں تھا جو زیرِ بحث آتا۔مگر پاکستان کے موجودہ سیاسی وصحافتی اُفق پر چھائے جانبداری اور بدترین طرف داری کے کالے بادلوں میں مذکورہ دونوں تبادلوں کو خاص طور پر ہدف بنایا گیا۔ پاکستان میں لکیر کے دونوں اطراف پائے جانے والے مخصوص صحافیوں اور صحافی نما چند کرداروں میں ایک مخصوص نوعیت کی تال میل پائی جاتی ہے۔ مخصوص موضوعات کی لفظیات بھی یکساں نوعیت کی ہوتی ہیں۔ چنانچہ اچانک ایک ”مجہول“ خاتون صحافی کے ذریعے ٹوئٹر سے ایک خاص بحث کا آغاز کیا گیا کہ کیا نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کی سمری پر وزیراعظم نے دستخط نہیں کیے؟ مذکورہ ٹوئٹ میں مختلف من گھڑت باتوں کو ”کیا“ کے سوال کے ساتھ خبروں کی منڈی میں اچھال دیا گیا۔ یوں لگتا ہے یہ کچھ ٹوئٹر ہینڈلرز اس بحث کے آغاز کا انتظار کررہے تھے۔اچھے بھلے صحافی بھی جانبدارانہ کردار یا نامعلوم مفادات کے باعث اس نوع کی بحث میں اپنا دامن داغدار کرنے سے باز نہیں رہ پاتے۔ چنانچہ میدانِ صحافت کے کچھ شہوار بھی اس بحث میں کودے۔ مگر یہ تمام کے تمام مجہول اور معلوم کردار گزشتہ تین برسوں میں ایک خاص سیاست میں لکیر کی دوسری طرف کھڑے لوگ ہیں۔ جن کے بارے میں ایک تاثر عام ہے کہ یہ طبقہ دراصل نواز لیگ کے بھی مریم نواز حلقے کا ”فیض یافتہ“ ہے۔ دوسری طرف کچھ ایسے لوگ ہیں جن کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اُنہیں ”خلائی حمایت“ میسر ہے۔ اس کھیل میں سب سے زیادہ بے آبرو صحافت ہوئی ہے،جو ان دنوں ایک جائز سنجیدہ اختلافی کردار ادا کرتے ہوئے ان جانبدارفریقوں کی دھینگا مشتی سے خود کو دور رکھنے میں کامیاب نہیں ہو پارہی اور صحافت وسیاست میں عسکری کردار کے مخالف فہمیدہ وسنجیدہ حلقے بھی اس طوفان بدتمیزی کے باعث اپنی آراء میں خود کو محتاط رکھنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اس معاملے میں سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ مباحث اپنے وقت اور نوعیت کے اعتبار سے قومی مفادات کی عکاسی نہیں کرتے۔ دنیا کے کسی جمہوری ملک میں بھی اس نوع کے مباحث میں کچھ ساختہ آداب کا لحاظ رکھا جاتا ہے، مگر یہاں ہر چیز کو جنسِ بازار بنانے کے ساتھ اس پر ”آزادیئ صحافت“ کی مہر لگانے کا بدترین چلن پیدا ہوچکا ہے۔ ٹوئٹر پر جاری اس خیالی جنگ میں چیف آف آرمی اسٹاف اور وزیراعظم کے درمیان ایک ایسے وقت میں اختلافات کی درفنطنی چھوڑی گئی جب امریکا کی نائب وزیرخارجہ وینڈی شرمن پاکستان پہنچی تھی۔ اگر وینڈی شرمن کی پاکستان آمد اور ٹوئٹر ہینڈلز کو حرکت دینے کے وقت پر دھیان دیا جائے تو اس کھیل کے پیچھے موجود ”شرانگیزی“ بالکل واضح ہو جاتی ہے۔ یہ پہلو تب زیادہ قابل توجہ لگتا ہے جب غور کیا جائے تو خود فوجی تبادلوں سے ذرا پہلے نواز لیگ کی رہنما مریم نواز نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو ہدفِ تنقید بنایا تھا۔جبکہ اس معمول کے تبادلہ جاتی عمل کو ایک روز قبل انڈیا ٹوڈے میں مخصوص رنگ دینے کی ناپاک کوشش ہوچکی تھی۔ ٹھیک اُسی روز کورکمانڈر کانفرنس میں بھارتی پروپیگنڈے پر باقاعدہ گفتگو کی گئی تھی۔ مگر اس کے باوجود مریم نواز کا ردِ دمل انتہائی غیر محتاط تھا۔ اس تناظر میں حالیہ بحث کا پورا تناظر ہرگز بے ساختہ محسوس نہیں ہوتا۔ اس کے پیچھے ایک منظم کھیل کھیلنے کی معلوم روایت کے باعث یہ بحث بھی مخصوص عزائم کی غمازی کررہی ہے۔ یاد کیجیے! موجودہ فوجی سربراہ کی تقرری سے قبل سابق وزیراعظم نوازشریف نے ان پر ایک خاص طرح کا الزام مرکزی جمعیت اہلحدیث کے سربراہ پروفیسر ساجد میر کے ذریعے لگوایا تھا، جس کا واضح مقصد یہ تھا کہ ان کی تقرری سے قبل ہی انہیں ایک کمزور پوزیشن پر دھکیل دیا جائے۔ اس طرح موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری میں بھی یہی ذہنیت محرک کے طور پر کام کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس طرح کے کھیل میں مخصوص صحافیوں کے ایک آلہئ کار کے کردار نے سنجیدہ تنقیدی صحافت کے لیے بھی ایک گھٹن پیدا کردی ہے۔