میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
برائے فروخت

برائے فروخت

ویب ڈیسک
بدھ, ۹ اگست ۲۰۲۳

شیئر کریں

میری بات/روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے پاکستان کو مقروض ملک بنانے کے ساتھ برائے فروخت بھی بنا دیا ہے، تمام سرکاری ادارے خسارے میں ہیں جنہیںبیچ کر ہم ان سے جان چھڑوا رہے ہیں جبکہ اسکے مقابلے میں پرائیویٹ ادارے دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں۔ ہم دنیا کا شاندار ہوٹل روزویلٹ اس لیے بیچ رہے ہیں کہ وہ خسارے میں ہے اور دوسرے طرف گھر سے بے گھر ہوکر ٹرک ہوٹلوں میں برتن صاف کرنے والا صدر الدین ہاشوانی پرل کانٹیننٹل ،میریٹ اور ہوٹل ون سمیت نہ جانے کتنے ہی کاروبار کا مالک بن بیٹھا اور ہم دنیا کی مہنگی ترین جگہ پر اپنا ہوٹل نہیں چلا سکے۔ ہماری اسٹیل مل سب سے بڑی مل ہونے کے باوجود نہ چل سکی کیونکہ اسکی سرپرستی سرکار کے پاس تھی اور اسکے مقابلہ میں ہاتھ سے اوزار بنانے والوں نے سب سے بڑی فائونڈری بنا لی۔ دنیا کو ہوا بازی کا درس دینے والی پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن (پی آئی اے)سرکار کی سرپرستی میں رہتے ہوئے برائے فروخت ہوگئی اور ہمارے نظام حکومت کے سیاسی اور غیر سیاسی ٹھیکیداروں نے قرض کھا کھا کر پاکستان کو ڈیفالٹ کے قریب پہنچا دیا۔ ابھی تو قرض ملنے پر ڈھول بجانے والے رخصت ہونے کے قریب ہیں جب اس قرض کی واپسی ہوگی تب کیا حشر ہوگا ؟آئی ایم ایف کے کہنے پر غریب عوام کا خون نچوڑنے والوں نے سوائے نفرت اور پکڑ دھکڑ کی سیاست کے کچھ نہیں کیا۔ ایک طویل عرصہ تک اقتدار میں رہنے والی پارٹیاں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ہی آج بھی اقتدار میں ہے اور انہی کے وفاقی وزیر ریلوے و ہوا بازی خواجہ سعد رفیق فرما رہے ہیں کہ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں۔
پاکستان کے فیصلہ ساز پاکستان کے پالیسی میکر زاور حکمران طبقات قوم کو انصاف نہیں دے سکے ۔ ہم اپنے سے سو گنا چھوٹے ممالک کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں، جب پیسے مانگنے کے لیے دوسرے ملکوں کے پاس جاتے ہیں تو دل کرتا ہے۔ زمین پھٹ جائے اور ہم اس میں چلے جائیں، بھیک مانگیں گے تو کیا گرین پاسپورٹ کی عزت ہو گی یہ ہمارا قومی تضاد ہے جسے دور کرنا ہے۔ اس کو دور کرنا پہلے سیاستدانوں کا کام ہے پھر ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے ۔پاکستان آج نہایت مشکل اور ہم بہت بڑے بحرانی دور سے گز ررہے ہیں۔ یہ میک اینڈ بریک کا دور ہے خدا نہ کرے ہم دوبارہ ٹوٹ جائیں۔ ہمیں دوبارہ ٹوٹنا نہیںہے ہم 24کروڑ ہو گئے ہیں، چھ سال میں 4کروڑ بڑھ گئے ہیں ۔ہمارے بے پناہ مسائل ہیں ۔ہم تمام تر کوشش کے باوجود لوگوں کو پینے کا صاف پانی نہیں دے سکے ۔ہماری بستیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ۔طالبان کل آئے ہیں۔ ان کے طرز حکمرانی سے سو اختلاف ہوسکتے ہیں لیکن انہوں نے بھی ترقی کرنا شروع کر دی ہے ۔ایتھوپیا ایک مثال ہے۔ اس کا ریفرنس غربت بھوک اور قحط تھا لیکن انہوںنے 25سالوں میں اپنے ملک کو ٹرن ارائونڈ کر دیا ۔بھارت کو تو چھوڑ ہی دیں وہ تو بہت آگے نکل گیا ہے ۔بنگلہ دیش کہتے ہوتے ہوئے زبان لڑکھڑاتی ہے 71میں ہم الگ ہوئے لیکن وہ آج کہاں سے کہاں سے جا پہنچے ہیںاور ہم کہاں ہیں؟ ہماری آپس کی لڑائی نے ہمیںکہیں کا نہیں چھوڑا۔ انتقال اقتدار کی لڑائی مارشل لاء جو بار بار کبھی اعلانیہ اور کبھی نقاب پوش آتے رہے انہوں نے ملک کانقصان کیا۔ مارشل لائوں کے نتیجے میں آنے والی سیاسی قیادت جسے سمجھتے ہوئے دس پندرہ سال لگ جاتے ہیں اس میں وقت کا بہت ضیاع ہوتا ہے۔ سچ یہی ہے خواجہ صاحب کی یہ باتیںایک تلخ حقیقت ہیںلیکن وہ بھی باتوں کے شعبدہ باز ہیں کیونکہ روز ویلیٹ ہوٹل اور پی آئی اے کی نیلامی کا سہرا انہی کے سر ہے۔ خواجہ صاحب کے بارے میںانکے ساتھی بہت بہتر جانتے ہیںجو ایم ایس ایف کے دور میں بھی انکے ساتھ تھے سید فقیر حسین بخاری اورچوہدری اعجاز زندہ مثالیں ہیں جو انکے ایک ایک کام سے واقف ہیں۔ آج ہر سیاسی لیڈ پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے پر فخر محسوس کرتا ہے اور جس نے یہ تحفہ دیا انکا حشر پوری قوم نے دیکھ لیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا اور ایٹم بم کے خالق محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو مرتے دم تک گھر میں نظر بند رکھا۔ وہ اپنی مرضی سے کہیں آ جا نہیںسکتے تھے ۔مجھے تو بہت زیادہ ان کا قرب حاصل رہا ۔ انکی پارٹی تحریک تحفظ پاکستان کا سیکریٹری اطلاعات اور پھر جب انہوں نے پارٹی ختم کی تو اس کے بعد انکا ترجمان رہا۔ شام ڈھلے جب ان کے گھر کے برآمدے میںبیٹھ کر ڈھیروں باتیں ہوتی تو وہ اپنے ساتھ حکومتی رویے سے بہت پریشان ہوتے تھے۔ آج ہم انہی کے بنائے ہوئے ایٹم بم پرفخر کرتے ہیں اور اپنے آپ کو دنیائے اسلام کا پہلا ایٹمی ملک بھی سمجھتے ہیں ۔مجھے یاد ہے کہ پاکپتن کے کسی رہائشی نے خود سے جہاز بنا کر اڑا دیا اور پھر پولیس نے اسے پکڑ کر حوالات میںبند کردیا ،بجائے اس کے کہ اسے حکومتی سرپرستی میںلیکر اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی الٹا اسے تشدد کا نشانہ بنا کر عبرت کا نشان بنا ڈالا کہ کسی اور کو اس طرح کی حرکت کرنے کی جرات نہ ہو۔ شاید اسی لیے تو ہماری یونیورسٹیوں کے پروفیسر کسی بھی ایسی ایجادات سے دور رہتے ہیں تاکہ وہ بھی کسی مشکل میں نہ پڑ جائیں۔ ہماری سیاست پر بھی غنڈوں کا راج ہے جو کل کے غنڈے ، بدمعاش اور رسہ گیر ہوتے تھے وہی آج ہماری سیاست پر قابض ہیں۔ اسلحہ کے زور پر امتحانات دینے والوں کی قابلیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے دور میں ہی ملک ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ہوتا ہے۔ ان ہی کے دور میں ائیر پورٹ آؤٹ سورس ہوتے ہیں۔ ان ہی کے دور میں روز ویلیٹ ہوٹل اور پی آئی اے پر برائے فروخت کا بورڈ لگتا ہے۔ حالانکہ پاکستان دنیا کا خوبصورت ترین ملک ہے جہاں ہمارے پاس چار موسم ہیں ۔ سربلخ پہاڑ ہیں دنیا کی پانچ بلند ترین چوٹیاں ہیں ۔محنت کش لوگ ہیں،لہلہاتے کھیت ہیں ، ریگستان،معدنیات سے مالا مال پہاڑ ہیں ، دریا ہیں ،آبشاریں ہیں اور سمندر ہے لیکن اس کے باجود ہم فقیر ہیں۔ ہر وقت کشکول ہاتھ میںپکڑے للچائی ہوئی نظروں سے دوسروں کو دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ کہیں سے خیرات مل جائے۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں