میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عائشہ ملک/ عائشہ گلالئی

عائشہ ملک/ عائشہ گلالئی

ویب ڈیسک
بدھ, ۹ اگست ۲۰۱۷

شیئر کریں

نام انسان کی شناخت ہوتے ہیں۔ ہر شخص کو کسی نہ کسی نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس طرح کچھ نام ایسے ہوتے ہیں جو مخصوص خاندانوں کے لیے خوش بختی کی علامت بن جاتے ہیں اور کچھ پریشانیوں کا باعث اگر مذکورہ خاندان کا تعلق اقتدار اختیارات سے ہو تو خوش بختی یا مسائل میں اضافہ ہو جاتا ہے کہ اقتدار واختیارات صرف آسائش کا نام نہیں آزمائش کا مقام بھی ہوتا ہے۔
میاں محمد شریف مرحوم کا خاندان ایک طویل عرصہ سے کاروبار کر رہا ہے 1972 میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے منشور پر عمل کرتے ہوئے صنعتی اور تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لیا تو ان میں اتفاق فاونڈری بھی شامل تھی لیکن اس وقت اتفاق فاونڈری کوئی صنعتی سلطنت کا درجہ نہیں رکھتی تھی قومیائے جانے کے اس عمل میں بینک بھی سرکاری تحویل میں لیے گئے تھے اور حبیب گروپ ،آدم جی گروپ اور سہگل خاندان کو ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
1977 میں جب جنرل ضیاء الحق نے زمام کار سنبھالی تو ذوالفقار علی بھٹو کی پالیسیاں بھی ترک کر دی گئیں مشنری اسکولوں کی پالیسی کا عمل شروع ہوا اور اس ہی دوران ضیاء الحق نے صنعتی اداروں کی واپسی کا عمل بھی شروع کیا جن میں اتفاق فاونڈری بھی شامل تھی میاں محمد شریف کو نہ صرف اتفاق فاونڈری واپس کی گئی بلکہ رزتلافی بھی دیا گیا اس وقت پنجاب میں جنرل ملک غلام جیلانی کا سکہ چلتا تھا اور جنرل ضیاء الحق کو انتخابات سے فرار کے بعد عوامی حمایت کی ضرورت تھی جنرل ملک غلام جیلانی میاں محمد شریف پر خاص مہربان تھے، یوں میاں محمد نوازشریف کی لاٹری کھل گئی۔ وہ مارشل لاء کے زیر سایہ پنجاب کے وزیرخزانہ بنائے گئے اس طرح ان کی پانچوں انگلیاںگھی میں اور سر کڑاہی میں والا معاملہ ہو گیا میاں محمد نوازشریف نے سمجھا کہ ضیاء کا نام بڑا سود مند ہے اور ہر ضیا ء ان کے لیے ضیاء الحق ہی ثابت ہو گا یوں1999 میں ایک جانب جنرل پرویز مشرف کو کارگل تنازع کے بعد ملازمت میںتوسیع دیکر رام کرنے کی کوشش کی گئی تو دوسری جانب میاں صاحب ضیاء کے طلسم سے باہر نہ آسکے اور اس وقت جب جنرل پرویز مشرف سرکاری دورے پر بیرون ملک تھے انہیں برطرف کر کے اچانک جنرل ضیاء الدین بٹ کو طلب کیا اور وزیراعظم ہاؤس میں ایک تقریب کاانعقاد کر کے انہیں آرمی چیف مقرر کر دیا ۔
میاں محمد نوازشریف کو اس وقت پارلیمنٹ میں 2/3 سے زائد اکثریت حاصل تھی اور ان کے خواب وخیال میں بھی نہ تھا کہ ان کا تختہ بھی الٹا جا سکتا ہے جس وقت جنرل ضیاء الدین بٹ کو وزیراعظم ہاؤس میں اسٹار لگائے جا رہے تھے اس وقت پرویز مشرف کا جہاز فضاء میںتھا انہیں ان کے اسٹاف آفیسر نے صورتحال سے آگاہ کیا یوں12 اکتوبر1999 کو میاں محمد نوازشریف ضیاء الدین بٹ کی وجہ سے جنرل پرویز مشرف کا شکار بن گئے۔وقت گزرتا رہا 2013 میں قسمت کی دیوی ایک مرتبہ پھر میاں محمد نوازشریف پر مہربان ہوئی اور میاں محمد نواز شریف اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ گئے امید تھی کہ 1999 کے تلخ تجربہ کے بعد میاں صاحب بدل چکے ہوں گے لیکن وقت نے ثابت کر دیا کہ نوازشریف کا تبدیل ہونا ممکن نہیں عمران خان نے قومی اسمبلی کے صرف 4 حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن میاں صاحب نہ مانے یوں عمران خان کو میدان میں رہنے اور اپنا موقف بار بار عوام کے سامنے پیش کرنے کا موقع مل گیا عمران خان کا عوام سے رابطہ برقرار رہا اور پھر پاناما کا سونامی آگیا اب بھی وقت تھا کہ میاں صاحب ہواؤں کا رخ دیکھ کر فیصلہ کرتے لیکن اسمبلی میں اکثریت کا احساس زمین پر پاؤں نہیں رکھنے دے رہا تھا معاملہ سپریم کورٹ سے ہوتا ہوا جے آئی ٹی تک پہنچا یہاں اور بھی ضیاء ان کے لیے موجود تھے جنرل ضیاء کے طفیل عروج حاصل ہوا تھا جنرل ضیاء الدین بٹ کی وجہ سے وقتی مسائل پیدا ہوئے تھے لیکن جے آئی ٹی کے ضیاء نے وہ لنکا ڈھائی ہے کہ تاحیات نااہلی مقدرقرار پائی ہے اور داستان بھی نہ رہی داستانوں میں والا معاملہ ہوا ہے۔
تین ضیاء کی طرح شریف خاندان کو تین ہم نام عورتوں سے بھی واسطہ پڑا ،عائشہ ملک ،عائشہ گلالئی اور عائشہ احد ۔معاف کیجئے گا ناموں کی ترتیب بدل گئی عائشہ احد،عائشہ ملک اور عائشہ گلالئی۔تین ضیائوں سے اول ضیاء تو شریف خاندان کے لیے خوش بخت ثابت ہوئے تھے کہ ان کے دامن سے وابستہ ہو کر ایک معمولی اتفاق فاؤنڈری کو وسیع صنعتی سلطنت میں تبدیل کرنے کا موقعہ ملا تھا لیکن کوئی بھی عائشہ آشاپر پوری نہ اتر سکی ۔عائشہ احد حمزہ شہباز کے گلے کی ہڈی بن گئی ہیں ،عائشہ ملک جو ایک معروف مزاحیہ فنکار کی کہنے کی حد تک ہی نہیں عملاً دختر نیک اختر ہیں نے قوم کے لیے بڑی قربانی دی ہے جس عمر میں وہ گریڈ19 کی ڈائریکٹر بنی ہیں ان کے لیے گریڈ 22 تک پہنچنا اور سیکریڑی بن جانا نا ممکن نہ تھا لیکن انہوں نے فرض کو ذات پر ترجیح دی اور قوم کومضرصحت ہی نہیں جان لیوا اشیاء بنانے اور فروخت کرنے والوں سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کیا اور تیسری عائشہ ،عائشہ گلالئی جس کو بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ عمران خان کے خلاف ترپ کا یکہ بنا کر تاش کی بازی سجائی اور بڑا جوا کھیلا گیا تھا نے پہلی چال ہی میں بازی الٹ دی ہے عائشہ گلالئی جو عمران خان پرسنگین الزام عائد کررہی تھی اسپیکر کی جانب سے پارلیمانی کمیٹی بنائے جانے اور عمران خان کی جانب سے اپنے زیراستعمال سمیت عائشہ گلالئی اور اس کے والد کے موبائل فون کے فرانزک آڈٹ کے مطالبہ کے بعد سمندری جھاگ کی طرح بیٹھ گئی ہے اور پورس کے ہاتھیوں کی طرح اپنی ہی صفوں پر چڑھ دوڑی ہے اور عدالت نہ جانے کا اعلان کر کے اپنی سازش کو تسلیم کر لیا ہے اگر عائشہ گلالئی کے پریس کانفرنس میں لگائے گئے الزامات درست ہیں تو پھر عائشہ گلالئی کو اپنی عزت کے لیے عدالت میں جانے اور عمران خان کے” شر” سے خواتین کو بچانا چاہیے لیکن فرانزک آڈٹ تو سچ اور فریب واضح کر دے گا جو عائشہ گلالئی کی اپنی گردن کے لیے پھندا ثابت ہو سکتا ہے اورعائشہ گلالئی کا تعلق قبائلی علاقہ سے جہاں اسلامی شریعت کو اولیت حاصل ہے اور اسلامی شریعت کے مطابق الزام عائد کرنے والاآ کر اپنا الزام ثابت نا کر سکے تو قذاف (جھوٹا) قرار پاتا ہے اور حدقذف وہ ہے جو الزام ثابت ہونے پر مجرم پر جاری ہوتی ہے اب عمران خان کو عائشہ گلالئی کے الزامات کے خلاف عدالت میں جانا چاہیے عائشہ گلالئی کے اس اقدام سے شریف خاندان کو دوہرا نقصان اُٹھانا پڑا ہے اول تو عائشہ گلالئی کے پسپائی اختیارکرنے سے نااہلی کی ذلت کو عمران خان کے خلاف الزامات کی دھول میں چھپانا ممکن نہیں رہا ہے دوم عائشہ گلالئی کے اس اقدام سے عائشہ احد کو بھی حوصلہ ہوا ہے وہ کھل کر سامنے آئی ہے پھر عائشہ احد کا تعلق اس حلقہ سے ہے جس سے منتخب ہو کر نوازشریف اسمبلی اور وزیراعظم ہاؤس تک پہنچے تھے اور نااہلی کے بعداس حلقہ میں 40 دن بعد انتخابی معرکہ درپیش ہے اور بھتیجے کے اس کارنامہ نے عمران خان کے بلے کا اسڑوک اور بڑھا دیا ہے اور شریف خاندان کو لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔
٭٭…٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں