میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اسٹیٹ بینک کی موجودگی میں کرپٹو کونسل کی کیا ضرورت تھی!

اسٹیٹ بینک کی موجودگی میں کرپٹو کونسل کی کیا ضرورت تھی!

جرات ڈیسک
اتوار, ۹ مارچ ۲۰۲۵

شیئر کریں

امریکہ کے صدر ڈونلد ٹرمپ نے گزشتہ روز5 کرپٹو کرنسیوں کے ناموں کا اعلان کیا تھا ان کا کہنا تھا کہ ان کرنسیوں کو وہ ایک نئے اسٹریٹیجک ریزرو کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ بقول ان کے اس ریزرو کا مقصد امریکہ کو ‘کرپٹو کرنسی کا عالمی دارالحکومت بناناہے۔ جن کرنسیوں کو وہ امریکہ کے نئے اسٹریٹیجک ریزرو کا حصہ بنانا چاہتے ہیں ان میں بٹ کوائن، ایتھیریم، ایکس آر پی (XRP)، سولانا اور کارڈانو شامل ہیں۔

صدر ٹرمپ کے اعلان کے بعد ان کرنسیوں کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔اپنی صدارتی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے کرپٹو کی کافی حمایت کی تھی۔ جبکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے سابق امریکی صدر جو بائیڈن نے فراڈ اور منی لانڈرنگ کے خدشات کے پیشِ نظر کرپٹو کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کیا تھا اس سے قبل خود صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی کرپٹو کرنسی کو فراڈ قرار دیتے رہے تھے۔

گزشتہ روز سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انھوں نے ایک حکم نامے پر دستخط کرتے ہوئے صدارتی ورکنگ گروپ کو ایک کرپٹو ا سٹریٹیجک ریزرو پر کام شروع کرنے کی ہدایت کردی ہے۔ ان کے مطابق اس ریزرو میں ایکس آر پی، سولانا اور کارڈانو نامی کرپٹو کرنسیاں بھی شامل ہوں گی۔اس اعلان کے تقریباً ایک گھنٹے بعد انھوں اپنے ایک اور پیغام میں کہا کہ مذکورہ بالا کرنسیوں کے علاوہ اس ریزرو میں بٹ کوائن اور ایتھیریم بھی شامل ہوں گے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 5 کرپٹو کرنسیوں کو ایک نئے اسٹریٹیجک ریزرو کا حصہ بنانے کی خواہش کے اظہار کے بعدحکومت پاکستان کی جانب سے بھی کرپٹو کرنسی میں خصوصی دلچسپی کا اظہار کیاگیا ہے جس کا ثبوت حکومت کی جانب سے ملک میں کرپٹو کونسل قائم کرنے اور اس کے کاروبار کو قانونی شکل دینے کیلئے باقاعدہ ایک مشیر کا تقرر ہے۔حکومت پاکستان کی جانب سے کرپٹو کونسل بنانے کا مقصد کرپٹو کرنسی کو قانونی حیثیت دینے کے لیے تجاویز اوران پر غور وفکر کرنا بتایا گیا ہے اور اس مقصدکے لیے کرپٹو ٹریڈ کی بلاک چین ٹیکنالوجی میں کام کرنے والے ویب تھری شعبے کے مشیر اور انویسٹر بلال بن ثاقب کو پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا چیف ایڈوائزر مقرر کیا گیا ہے۔

حکومت کے ان اقدامات کے بعد گزشتہ10 دن کے دوران پاکستان میں کرپٹو کرنسی کے شعبے میں بہت تیزی سے ہونے والی پیشرفت دیکھنے میں آ رہی ہے، یہ پیش رفت جب امریکہ کے صدر نے اسے ایک اسٹریٹیجک ریزرو کا حصہ بنانے کا عندیہ ظاہر کرنے کے بعد دیکھنے میں آئی ہے ۔ جبکہ یہ ایک حقیقت ہے اور وزیر خزانہ محمد اورنگزیب بھی یہ اعتراف کرچکے ہیں پاکستان میں کرپٹو کرنسی کا کاروبار طویل عرصے سے ہو رہا ہے لیکن سرکاری سطح پر اس میں کبھی کسی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا گیایہاں تک کے اسے پاکستان میں کوئی قانونی حیثیت حاصل نہیں۔

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے نئے مقرر کردہ چیف ایڈوائزر بلال بن ثاقب نے اپنی تقرری کے بعد کہا ہے کہ پاکستان ان 10 ممالک میں شامل ہے جو تیزی سے کرپٹو کرنسی کو اپنا رہے ہیں اور پاکستان میں اس شعبے میں مزید جدت لانے کی گُنجائش باقی ہے۔انھوں نے کرپٹو کونسل کے قیام پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس کونسل کا مقصد ایک متوازن فریم ورک بنانا ہے جو اس شعبے میں پاکستان کو ترقی دے سکے۔حکومت کی جانب سے کرپٹو کونسل کے قیام کے اعلان اور اس کے مقصد کے بارے میں بلال بن ثاقب نے بتایا کہ اس کونسل کے قیام کا مقصد ایک خصوصی ایڈوائزری باڈی تشکیل دینا ہے جو پاکستان میں ڈیجیٹل اثاثوں اور بلاک چین ٹیکنالوجی کے لیے جامع پالیسی اور قواعد و ضوابط بنائے۔

انھوں نے بتایا کہ یہ کونسل پاکستان میں کرپٹو سے متعلق بے یقینی کی صورتحال کو دیکھے گی تاکہ پاکستان کے مالیاتی شعبے میں ڈیجیٹیلائزیشن، ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ اور نوجوانوں کے لیے ملازمتوں کے مواقع پیدا کیے جا سکیں۔ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس کونسل کے ذریعے پاکستان کو بین الاقوامی مارکیٹ میں ڈیجیٹیل معیشت سے جوڑا جائے گا اور اس کے ساتھ ایف اے ٹی ایف کی گائیڈ لائنز پر بھی اس کے ذریعے عمل کیا جائے گا۔

اس کونسل کے ذریعے یہ دیکھا جائے کہ کیا کرپٹو کرنسی کا کاروبار پاکستان میں قابل عمل ہے، اس پر تجاویز دی جائیں گی اور پھر قانون سازی کی جائے گی۔اس سے قبل پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے گزشتہ مہینے کراچی میں پہلے پاکستان بینکنگ سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھاکہ پاکستان میں ڈیجیٹیل بینکنگ فروغ پا رہی ہے اور کرپٹو کرنسی کا غیر رسمی مارکیٹوں میں استعمال ہو رہا ہے۔انھوں نے ا سٹیٹ بینک پر زور دیا تھا کہ وہ کرپٹو کرنسی کے شعبے کو کھلے ذہن سے دیکھے اور کرپٹو کرنسی کے لیے قانونی فریم ورک کی ضرورت پر غور کرے۔

پاکستان کے وزیر خزانہ کی تقریر کے فوراً بعد ہی وزارت خزانہ کی جانب سے کرپٹو کونسل کے قیام کی جانب کام کرنے کے لیے اعلامیہ جاری کیا گیا تھا۔حکومت کی جانب سے کرپٹو کونسل کے قیام کے اعلان کے بعد اب یہ سوال اٹھایاجارہاہے اورفطری طورپر یہ سوال اٹھایاجارہاہے کہ اس وقت جب حکومت کفایت شعاری اختیار کرنے اور مختلف اداروں او ر وزارتوں کو باہم ضم کرکے اخراجات میں کمی کی پالیسی پر گامزن پاکستان میں کرپٹو کرنسی کونسل کے قیام کی ضرورت کیا تھی اور اس کاقیام کس مقصد کے لیے کیا گیاہے اور اس سے کرپٹو کرنسی کے کاروبار پر کیا اثر پڑے گا ۔

جہاں تک کرپٹو کرنسی کا تعلق ہے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ دیگر ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی غیرقانونی کاموں خاص طور پر منی لانڈرنگ کرنے والے حلقے اس میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ گرے مارکیٹ کا بیشترکاروبار اسی کے ذریعے ہی ہو رہا ہے جیسے پیسے کی منتقلی، اسلحے اور منشیات کی خریداری اور فروخت اور دوسرے غیر قانونی کام اسی کے ذریعے ہورہے ہیں۔ مالیاتی ماہرین کے مطابق کرپٹو کرنسی کے کاروبار کاکوئی ریگولیٹری فریم ورک نہ ہونے کی وجہ سے اس شعبے کے ذریعے غیر قانونی کاموں کے لیے ادائیگی آسانی کے ساتھ کی جاتی ہے۔

کرنسی اور مالیاتی ماہرین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ اس کے لیے کرپٹو کرنسی کونسل قائم کرنے اور اس کیلئے لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے کا فنڈ ضائع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی بلکہ یہ کام اسٹیٹ بینک جسے مالیاتی ماہرین کی خدمات میسر ہیں زیادہ بہتر انداز میں کر سکتا ہے کیونکہ اسٹیٹ بینک کرنسی کے شعبے میں مہارت اور تجربے کا حامل ہے۔اس کام کے لیے علیحدہ کرپٹو کرنسی کونسل کی سرے سے ضرورت ہی نہیں تھی بلکہ اس کے قیام کا واحد مقصد چند بلیو آئیڈ لوگوں کو پرکشش ملازمتیں اور مراعات فراہم کرنااور بیوروکریٹس کیلئے غیرقانونی طوپر رقم بنانے اور اپنا بینک بیلنس بڑھانے کا راستہ پیدا کرنے کے سوا بظاہرکچھ نہیں ہے کیونکہ جو کام ا سٹیٹ بینک بہتر انداز میں کر سکتا ہے جو کرنسی کے شعبے میں مہارت اور تجربے کا حامل ہے اس کیلئے باقاعدہ علیحدہ کونسل قائم کرنے کا کیا جواز ہوسکتاہے،

یہ بات واضح ہے کہ حکومتی سطح پر کونسل کے قیام کا مطلب یہ ہے کہ اس میں بیورو کریسی کا عمل دخل ہو گا اور پاکستان میں عمومی طور پر حکومتی سطح پر کونسل اور کمیٹیوں کا قیام کام میں تاخیر کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔

دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کرپٹو کرنسی کے ذریعے اسٹریٹیجک ریزرو کے قیام کے اعلان کے باوجود سب کچھ ہوا میں معلوم ہوتاہے کیونکہ تاحال یہ واضح نہیں کہ آیا اس ا سٹریٹیجک ریزرو کے قیام کے لیے امریکی کانگریس کی منظوری کی ضرورت ہوگی یا نہیں۔ ماضی میں ڈونلڈ ٹرمپ خود بھی کرپٹو کرنسی کے ناقد رہے ہیں۔ 2021 میں انھوں نے فاکس نیوز سے بات کرتے ہوئے بٹ کوائن کو ایک ‘فراڈ’ قرار دیا تھا۔ تاہم حالیہ ہفتوں میں ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی اہلیہ نے اپنی اپنی کرپٹو کرنسی لانچ کی جس کے بعد ان پر الزام لگا کہ وہ وائٹ ہاؤس کی پالیسیوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہاں یہ بھی سوال پیداہوتاہے کہ بٹ کوائن دراصل ہے کیا حقیقت میں یہ ایک کرپٹو کرنسی ہے جسے ڈیجیٹل کرنسی کہا جا سکتا ہے۔ یہ روایتی طور پر دُنیا بھر میں استعمال ہونے والی کرنسیوں ڈالر، پاؤنڈ یا روپے وغیرہ سے مختلف اس لیے ہے کیونکہ اسے کوئی مستند مالی ادارہ کنٹرول نہیں کرتا۔شاید یہی وجہ ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ایسی کرنسی جو کسی ادارے کے کنٹرول میں نہیں انھیں مالی آزادی فراہم کرتی ہے، لیکن دوسری جانب اسی وجہ سے اس کرنسی کی قدر غیریقینی کا شکار رہتی ہے۔ریکارڈ تنزلی کے بعد فروری 2024 میں بٹ کوائن کی قیمت ایک بار پھر تیزی سے اوُپر جانا شروع ہوئی اور آج کل یہ تاریخی سطح تک پہنچی ہوئی ہے۔ اور جن لوگوں کے پاس یہ کرنسی موجود ہے ان کے لیے یہ ایک بہت اچھی خبر تھی۔لیکن یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ صرف کچھ عرصے پہلے بِٹ کوائن کی قدر تیزی سے گری تھی اور ایسا حالیہ دور میں متعدد مرتبہ پہلے بھی دیکھنے میں آیا ہے۔

دراصل کرپٹو کرنسی کو بلاک چین کے ذریعے کنٹرول کیاجاتاہے یہ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو نہ صرف ہر قسم کی کرپٹو کرنسی کی بنیاد ہے بلکہ این ایف ٹیز بھی اسی کے تحت چلائی جاتی ہیں۔عام زبان میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک سپریڈ شیٹ ہے جس پر کرپٹو کرنسی کی خرید و فروخت درج ہوتی ہے۔ یہ خرید و فروخت بلاکس کی شکل میں شیٹ پر موجود ہوتی ہے جو چینز یعنی زنجیروں کی شکل میں ایک دوسرے سے جُڑے ہوتے ہیں۔کرپٹو کرنسی کی ہر ٹرانزیکشن بلاک چین پر رضاکاروں کے ایک نیٹ ورک کی مدد سے ریکارڈ کی جاتی ہے اور یہی رضاکار کمپیوٹر پروگراموں کے تحت اس کرنسی کی خرید و فروخت کی تصدیق بھی کرتے ہیں۔

بِٹ کوائن نیٹ ورک کے رضاکاروں کا اس میں فائدہ یہ ہے کہ جو بھی اس خرید و فروخت کی پہلے تصدیق کرتا ہے اسے انعام میں بِٹ کوائن دیے جاتے ہیں۔اس قابل منافع عمل کو ‘مائننگ’ کہا جاتا ہے، مگر یہ عمل متنازع بھی ہے کیونکہ دنیا بھر میں لوگ سب سے پہلے تصدیق کی دوڑ میں رہتے ہیں اور اسی سبب برقی توانائی بھی ضائع ہوتی ہے۔دنُیا بھر میں گردش کرنے والے بٹ کوائنز کی مجموعی تعداد ایک کروڑ 90 لاکھ بتائی جاتی ہے۔ سرمایہ کار کرپٹوکرنسی کی خرید و فروخت کرپٹو ایکسچینج کے ذریعے کرتے ہیں یہ ایک ایسا ڈیجیٹل پلیٹ فارم ہوتا ہے جہاں کرپٹو کرنسیوں کی لین دین ہوتی ہے روایتی کاروباری انداز کی طرح کرپٹو ایکسچینج بھی کسی بروکریج ہاؤس کی طرح کام کرتا ہے جہاں لوگ بینکوں سے اپنی رقوم نکال کر ڈالر یا پونڈ کو بِٹ کوائن یا ایتھیریم جیسی کرپٹی کرنسیوں میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ سرمایہ کاروں کو روایتی کرنسیوں کو ڈیجیٹل کرنسیوں میں تبدیل کرنے کے لیے اکثر فیس بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر اس کی لین دین کے باوجود کرپٹو کرنسی کسی قابل اعتماد کرنسی کی حیثیت حاصل نہیں ہوسکی ہے اوراب ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بظاہر اس کی سرپرستی کے آثار کے باوجود جسے دیکھتے ہوئے پاکستان کی حکومت نے اس کیلئے باقاعدہ کونسل قائم کردی ہے، اسے ڈالر یاپونڈ کی طرح قابل اعتماد کرنسی کی حیثیت حاصل ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں