میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ہندوستان میں اسلامی ورثہ خطرے میں

ہندوستان میں اسلامی ورثہ خطرے میں

ویب ڈیسک
هفته, ۹ مارچ ۲۰۲۴

شیئر کریں

ریاض احمدچودھری

انتہا پسند ہندوؤں نے بابری مسجد شہید کرنے کے 30 سال بعد اپنے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے تاریخی تاج محل کو میلی نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا ہے جس سے بھارت میں اسلامی ورثہ کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔وہ جھوٹے دعوے کر رہے ہیں کہ تاج محل کی ابتداء ہندو دور میں ہوئی،نریندر مودی کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک رہنما کی طرف سے دائر کی گئی حالیہ رٹ پٹیشن میں تاج محل کی ”حقیقی تاریخ کا مطالعہ” کرنے کے لیے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کا مطالبہ کیا گیا ہے جس کا مقصد یونیسکو کے ثقافتی ورثے کی جگہ تاج محل کو ہندوؤں کا ورثہ قرار دینا ہے۔
ایودھیا میں بی جے پی کے میڈیا سربراہ رجنیش سنگھ نے اپنی درخواست میں یہ عذر پیش کیا ہے کہ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ”سائنسی ثبوت” نہیں ہے کہ مغل بادشاہ شاہ جہاں نے تاج محل تعمیر کیا تھا۔ باوجود اس کے کہ بھارتی عدالت نے ان کی اس کوشش کو ناکام بنایا تھا تاہم بی جے پی کے رہنما کئی سالوں سے غیر تاریخی دعوے دہراتے اور بڑھاتے رہے ہیں کہ تاج محل درحقیقت ایک ہندو مندر ہے، جو مغل بادشاہ شاہ جہاں کے دور سے بہت پہلے بنایا گیا۔ہندوتوا کے ساتھ آر ایس ایس پورے بھارت میں مسلم حکمرانوں کی تعمیر کردہ تاریخی یادگاروں کے خلاف بیانیہ پیش کر رہی ہے۔بی جے پی کے دور حکومت میں آر ایس ایس کے دائیں بازو کے ہندو شہروں کے نام تبدیل کرنے اور بھارت بھر میں 36,000 سے زیادہ مساجد کو مندر کی جگہ پر تعمیر کرنے کے دعویٰ کی مہم چلارہے ہیں ان شہروں میں علی گڑھ، دیوبند، فرخ آباد، بدایوں، سلطان پور، فیروز آباد اور شاہجہاں پور شامل ہیں۔ یوپی حکومت پہلے ہی فیض آباد کا نام ایودھیا اور الہ آباد کا نام بدل کر پریاگ راج کر چکی ہے۔مودی کے قریبی معاون اور یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ مسلم پس منظراضلاع اور علاقوں کے نام بدل کر مسلم شناخت کو مٹانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
اِن دنوں، بھارتی حکمراں جماعت ‘بھارتیہ جنتا پارٹی’ ان مختلف شہروں کے نام بدلنے کی مہم پر کاربند ہے جو کسی مسلم شخصیت کے نام سے منسوب ہیں۔اس سلسلے میں، اتر پردیش کے علاقے ‘فیض آباد’ کا نام بدل کر ضلع ‘ایودھیا’ رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ فیض آباد ضلع ہے اور ایودھیا اس کی حدود میں واقع ہے۔ ایودھیا اور فیض آباد کو جڑواں شہر کہا جاتا ہے۔یہ بھی اعلان کیا کہ ایودھیا میں ایک ایئرپورٹ تعمیر کیا جائے گا جو شری رام کے نام پر ہوگا، جبکہ ایک میڈیکل کالج بنایا جائے گا جو رام کے والد راجہ دشرتھ کے نام سے منسوب ہوگا۔ الہ آباد کا نام بدل کر ‘پریاگ راج’ کرنے کا اعلان کیا تھا، جس پر زبردست تنازع چھڑا ہوا ہے۔ خود الہ آباد کے غیر مسلم اسکالر اس تبدیلی کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پریاگ راج تو پہلے سے ہی تھا۔ اکبر بادشاہ نے الہ آباد شہر بسایا تھا۔ لیکن، انھوں نے پریاگ راج کا نام نہیں بدلا تھا۔ پریاگ راج الہ آباد کے نزدیک پہلے سے موجود ہے۔ انھوں نے نیا شہر بسا کر اس کا نام الہ آباد رکھا تھا۔الہ آباد اور فیض آباد کے نام بدلنے کے بعد گجرات میں احمد آباد کا نام بدل کر کرناوتی رکھنے کی بھی مہم شروع ہو گئی ہے۔ پہلے بی جے پی کے ایک رہنما نے اس کی تجویز پیش کی اور اور اب ریاست کے وزیر اعلیٰ وجے روپانی کہتے ہیں کہ ہم احمد آباد کا نام بدل کر کرناوتی کریں گے۔ احمد آباد میں واقع بی جے پی کے دفتر پر جو بورڈ آویزاں ہے اس پر احمد آباد کے بجائے کرناوتی ہی لکھا ہے۔ بی جے پی کی تمام دفتری کارروائیوں میں کرناوتی ہی لکھا جاتا ہے۔
ادھر، ‘شیو سینا’ نے مہاراشٹر کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اورنگ آباد اور عثمان آباد کے نام بدلے۔ اس کا کہنا ہے کہ اورنگ آباد کو شمبھا جی نگر اور عثمان آباد کو دھارا شیو کیا جانا چاہیے۔ اسکا کہنا ہے کہ یہ ہمارا بہت پرانا مطالبہ ہے۔ بی جے پی کا کہنا ہے کہ سابقہ کانگریسی حکومتوں نے مسلمانوں کو خوش رکھنے کے لیے ہمارا مطالبہ تسلیم نہیں کیا تھا۔ اب جبکہ ریاست میں بی جے پی شیو سینا کی حکومت ہے تو ان دونوں شہروں کے نام بدل دیے جانے چاہئیں۔ہماچل پردیش کی بی جے پی حکومت نے گزشتہ ماہ تجویز پیش کی تھی کہ شملہ کا نام شیاملہ کیا جانا چاہیے۔ لیکن شہریوں کی مخالفت کی وجہ سے یہ تجویز واپس لے لی گئی۔اسی دوران، بعض طبقات کی جانب سے پٹنہ کا نام بدل کر پاٹلی پترا اور آگرہ کا نام اگروال کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ جنتا دل یو کے پون ورما کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار پٹنہ کا نام بدلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔خیال رہے کہ اس سے قبل حکومت نے نئی دہلی کے اورنگ زیب روڈ کا نام بدل کر ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام روڈ کر دیا ہے۔
غیر جانبدار سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ناموں کی تبدیلی سے سیاسی مفاد پرستی کی بو آتی ہے۔ پون ورما کہتے ہیں کہ ہماری ثقافت اپنی جگہ پر لیکن اس طرح ہزاروں سال کی تاریخ کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ناموں کی تبدیلی کی اس مہم پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں توازن برقرار رکھنا بھی ضروری ہے۔متعدد تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ناموں کی تبدیلی سے ہندووں کے ایک طبقے میں اپنی تہذیب و ثقافت کے نام پر ایک غیر ضروری اور خطرناک احساس پیدا کیا جا رہا ہے جو ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بقائے باہم کے نظریے کے خلاف ہے۔ ناموں کی تبدیلی کی حمایت کرنے والے دلیل دیتے ہیں کہ جب مدراس کا نام بدل کر چنئی، کلکتہ کا کولکاتا، اڑیسہ کا اڈیشہ، بنگلور کا بنگلورو اور بامبے کا ممبئی رکھا گیا تو لوگوں نے مخالفت نہیں کی تھی۔ لیکن اب جبکہ ہندو وقار کی خاطر نام بدلے جا رہے ہیں تو اس کی مخالفت کیوں کی جا رہی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں