ترکی و شام کے زلزلہ متاثرین ہمارے منتظر ہیں
شیئر کریں
کرہ ارض پر آنے والے زلزلے کتنے ہول ناک ہوتے ہیں اور یہ اپنے پیچھے تباہی و بربادی کتنی دردناک داستانیں چھوڑجاتے ہیں ۔یہ بات دنیا میں ہم پاکستانیوں سے بہتر کون جانتاہوگا؟۔ کیونکہ 2005 میں خیبر پختونخواہ اور آزاد کشمیر میں آنے والے زلزلے کی ہول ناکیاں ابھی تک اکثر پاکستانیوں کے ذہنوں میں کسی ڈراؤنے خواب کی طرح محفوظ ہیں ۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ 6 فروری کی علی الصبح 4 بج کر 17 منٹ ترکی کے جنوب اور شام کے شمال مغربی سرحدی علاقوں میں آنے والے حالیہ صدی کے قیامت خیز زلزلے نے ہر پاکستانی کے دل کو شدید اضطراب اور صدمہ میں مبتلا کردیاہے ۔یا درہے کہ ترکی اور شام صرف دو اسلامی مملکتیں ہی نہیں ہیں بلکہ ریاستِ پاکستان کے ساتھ اُخوت ،محبت اور تعاون کے مضبوط رشتے میں بھی بندھے ہوئے، ہمارے انتہائی قریبی دوست ممالک بھی ہیں ۔ جیسا کہ عام طور پر کہا جاتاہے جو اپنے دوست کے جتنا قریب ہوتا ہے تو اُسے اپنے دوست کی تکلیف اور پریشانی پر صدمہ بھی اُسی شدت کے ساتھ جھیلنا پڑتاہے۔ لہٰذا، ترکی و شام میں زلزلہ متاثرین کی حالتِ زار پر من حیث القوم ہر پاکستانی کی آنکھیں اَشک بار ہیں ۔
ترکی و شام میں جب اکثر لوگ دنیا ومافیا سے بے خبر سکون کی نیند محو خرام تھے تو ریکٹر اسکیل پر 7.8 ریکارڈ کی گئی شدت کے زلزلے نے اُنہیں اچانک دبوچ لیا۔ ابتدائی اعدادوشمار کے مطابق 7000 افراد جاں بحق ہونے کی تصدیق کردی گئی ہے۔ مگر ہزاروں لوگ تباہ ہونے والی 3ہزار سے زائد عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔نیز زلزلے کے بعد آنے والے شدید آفٹر شاکس کا سلسلہ بھی تواتر کے ساتھ جاری ہے۔ جس سے ماہرین کو اندیشہ ہے کہ ایک اندا زے کے مطابق مرنے والوں کی تعداد کم سے کم 8 سے 10 گنا تک بھی ہوسکتی ہے ۔جبکہ امریکی جیالوجیکل سروے نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ تعداد ایک لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ دراصل زلزلہ کے بعد انفراسٹرکچر کی تباہی تو پھر بھی کسی حدتک زمین کے اُوپر مشاہدہ کی جاسکتی ہے ،لیکن جانی نقصانات کا درست اندازہ اُس وقت نہیں بالکل بھی نہیں لگایا جاسکتا۔جب تک کہ تباہ و برباد عمارتوں کے بکھرے ہوئے ملبے کو علاقے سے مکمل طور پر صاف نہیں کرلیا جاتا ۔ بظاہر ترکی کی حکومت ،ترک رضاکاروں اور اہلکاروں کے علاوہ 65 ملکوں کی امدادی ٹیموں کے ساتھ مل کر ملنے کے نیچے دبے ہوئے ہزاروں لوگوں کو نکالنے وسیع پیماے پر امدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے ۔ مگرحالیہ ایام میں ترکی میں پڑنے والی شدید سردی ، طوفانی بارش اور زلزلہ کے آفٹر شاکش کی وجہ سے امدادی کاموں میں شامل کارکنان اور رضاکاروں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔اس وقت کا سب سے بڑا چیلنج زلزلہ متاثر علاقوں میں بلا تعطل اور بغیر کسی انقطاع کے امدادی سرگرمیوںکو بحال رکھنا ہے۔
واضح رہے کہ حالیہ زلزلے میں ترکی کے دس شہر بری طرح سے متاثر ہوئے ہیں اور 1939کے بعد یہ سب سے بڑی آفت ہے ،جس کا ترکی کو سامنا کرنا پڑا ہے۔ ترکی کے کئی علاقوں کا تو صفحہ ہستی سے نام و نشان بھی مٹ گیا ہے۔ ترکی کے صدر طیب اردوان نے ملک ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کرکے ایک ہفتے تک کے لیے سرکاری سوگ منانے کا اعلان کیا ہے جبکہ قومی پرچم کو بھی سرنگوں کردیاگیا ہے۔نیزپاکستان، امریکا، روس اور عرب امارات سمیت 45 ملکوں نے اب تک زلزلہ زدگان کے لیے ترکی اور شام کو امداد کی پیشکش کی ہے۔ جبکہ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے ترک عوام کے ساتھ مشکل کے اِس گھڑی میں یکجہتی اور ہمدردی کے اظہار کے لیے ترک صدر سے ٹیلیفون پر بات کی۔علاوہ ازیں پاکستان کے قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے بھی امدادی سامان پاکستان کے عوام کی جانب سے ترکی بھیج دی ہے اورپاکستانی فضائیہ کے سی-130 ہرکولیس نامی دو طیارے سرچ اینڈ ریسکیو ٹیم کے ارکان کے ہمراہ اَب تک ترکی میں زلزلہ متاثرین کے لیے پر بڑی تعداد میں کمبل ، ٹینٹ اور دیگر سامان ترکی پہنچ چکے ہیں ۔ جبکہ پاکستانی افواج کے کئی دستے پہلے ہی متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں ۔
دوسری جانب شام میں زلزلہ کے بعد کی حالت ترکی سے بھی زیادہ خوف ناک ہے ۔کیونکہ بین الاقومی سیاسی چپقلس کے باعث بہت سے ممالک کی امدادی ٹیموں کو نہ تو شام سے زلزلہ متاثرین کے متعلق درست معلومات دستیاب ہوپارہی ہے اور نہیں اُنہیں شام میں امدادی سرگرمیوں کے لیئے داخلے کے لیئے محفوظ راستے مل پارہے ہیں ۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق شام میں اس لحاظ سے تباہی کے اُوپر تباہی ہوئی ہے کہ کچھ عرصہ پہلے سے ہی اکثر شامی علاقے شدید وبائی امراض کی لپیٹ میں تھے اور ابھی شام میں لوگوں کی اکثریت وبائی امراض کے چنگل سے جان خلاصی حاصل نہ کرپائی تھی کہ رواں ہفتے ایک ہولناک زلزلہ کی اُفتاد اُن کے سروں پر آپڑی ۔ یعنی المیہ ملاحظہ ہوکہ زمین بوس ہونے والی عمارتوں کے ملبے میں دبے اکثر شامی لوگ شدید بیمار ہیں اور خدشہ ظاہر کیا جارہاہے کہ اگر شام میں وسیع پیمانے پر امدادی کارروائیاں شروع نہیں کی جاتیں اور لوگ زیادہ عرصے تک زخمی حالت میں ملبے تلے دبے رہتے ہیں تو ان کے گردے ناکارہ ہونے کا خدشہ ہے۔ جبکہ شامی حکومت کے پاس اپنے طور پر امدادی سرگرمیاں شروع کرنے کے لیے بھاری مشینری اور وسائل بھی سرے سے موجود نہیں ہیں ۔ علاوہ ازیں وہاں زلزلہ متاثرین کا پیٹ پھرنے کے لیے خوراک اور سخت موسم سے بچنے کے لیے عارضی رہائش کے لیے درکار سازو سامان کی بھی شدید قلت ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف بھی بہت جلد سرکاری دورہ پر انقرہ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ ترک صدر، طیب اردوان سے اظہار تعزیت کے علاوہ امدادی سرگرمیوں کے لیے پاکستان کے کردار کا تعین کرسکیں۔لیکن یہاں ہم وزیراعظم پاکستان سے یہ بھی گزارش کرنا چاہیں گے کہ وہ ترکی کے ساتھ ساتھ شام کا بھی سرکاری دورہ ضرور کریں ۔تاکہ دنیا بھر کو یہ پیغام جائے کہ مشکل کی اِس گھڑی میں دونوں برادر اسلامی ملک کی عوام ہمارے لیئے یکساں اہمیت اور حیثیت رکھتی ہے۔ خاص طو رپر جن مسائل کی وجہ سے ابھی تک شام میں بین الاقوامی امدادی اداروں کی سرگرمیاں شروع نہیں ہوسکی ہیں ۔ وزیراعظم شہباز سریف اپنے ذاتی اثر و رسوخ اور برادرانہ سفارتی تعلقات کو بروئے کار لاکر اُن اسباب کا تدارک جلد ازجلد کرنے کے لیے شامی حکومت کو قائل کرنے کی کوشش کریں ۔
بلاشبہ ریاستِ پاکستان خود اِس وقت ہر طرف سے مختلف النوع معاشی مسائل کے گرداب میں گھرا ہواہے اور ملک کے اکثر علاقے چند ماہ پہلے آنے والے سیلاب کے بعد ہول ناک تباہی کے مناظر پیش کررہے ہیں ۔ مگر جس طرح کی مصیبت اِس وقت ترکی اور شام کی عوام کو سامنا اگر اِسے ہم اپنی مصیبت سے زیادہ بڑی مصیبت اور پریشانی نہ بھی قرار دیں۔ تب بھی کم ازکم یہ تو ماننا ہی پڑے گا یہ تباہی و بربادی بھی اتنی ہول ناک تو ضرور ہے ۔جس کا سامنا گزشتہ برس ہمارے ملک کو کرنا پڑا تھا۔لہٰذا، جس طرح ترکی نے ہمارے مشکل وقت میں اپنا دوستانہ کردار بخوبی انداز میں نبھایا تھا ۔ اَب پاکستانی عوام کو بھی اپنی لاکھ مشکلات کے باوجود ترکی و شام کے زلزلہ متاثرین کی کچھ نہ کچھ امداد تو لازمی کرنا ہی چاہیئے۔
٭٭٭٭٭٭٭