میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نوشکی ،پنجگور واقعات ،ایران جاتے قدموں کے نشان

نوشکی ،پنجگور واقعات ،ایران جاتے قدموں کے نشان

ویب ڈیسک
بدھ, ۹ فروری ۲۰۲۲

شیئر کریں

بدھ2فروری2022ء کو بلوچستان کے دار الحکومت کوئٹہ کے جنوب میں افغانستان کی سرحد کے قریب پاکستان کے شہر نوشکی اورکوئٹہ سے تقریباً 500کلومیٹر دور ضلع پنجگور کے ضلعی صدر مقام میں فرنٹیئر کور کے کیمپوں پر بلوچ کالعدم عسکریت پسند گروہ کے حملوں نے بلا شبہ تشویش کی شدید لہر دوڑا دی۔ دونوں اضلاع کے اندر فرنٹیئر کور کیمپ شہر میں موجود ہیں جہاں ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر، اعلیٰ پولیس حکام کے دفاتر، ضلعی سرکاری ہسپتال اور دوسرے سرکاری دفاتر بھی موجود ہیں ۔ نوشکی شہر افغان سرحد سے غالباً 25کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ افغان سرحدی علاقہ ’’سرلٹھ‘‘ نوشکی سے متصل ہے جو ماضی کی شورشوں میں بھی خصوصی اہمیت کا حامل علاقہ رہا ہے۔ پنجگور ایران سرحد سے متصل ہے تقریباً 50کلومیٹر دوری پر ہے ۔ایران کے ساتھ پنجگور کی200کلومیٹر سے زائد سرحد ملتی ہے ۔ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے سربراہ بالاچ مری سرلٹھ منتقل ہوئے تھے اور افغانستان ہی میں انتقال کر گئے ۔ پاکستان بننے کے بعد مزاحمت کی پہلی کوشش خان آف قلات میر احمد یار خان کے بھائی نے کی تھی۔ آغا عبدالکریم ساتھیوں کے ہمراہ ’’سرلٹھ‘‘ منتقل ہوئے تھے۔ افغان حکومت سے حمایت و پذیرائی نہ ملنے پر آغا عبدالکریم واپس لوٹے۔ بعد کی تین مزاحمتوں کو تب کی افغان حکومتوں کی سرپرستی و مدد حاصل رہی۔ ان میں ستر کی دہائی کی بلوچ و پشتون سیاسی و مزاحمتی تحریکات کی پشت پر افغانستان میں سردار دائود اور روسی حمایت یافتہ کمیونسٹ افغان حکومتوں کی پوری سرپرستی حاصل رہی۔ بڑے بڑے بلوچ پشتون رہنماء اور جنگی کمانڈر افغانستان میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ چناں چہ موجودہ مزاحمت کی ابتدا2000ء کی دہائی کے اوائل میں ہوئی۔افغانستان پر امریکی قبضے اور وہاں بھارت کے سیاسی اور جاسوسی کے نیٹ ورک کے قیام کے بعد ان گروہوں کی بڑی سطح پر پشت پناہی ہوئی۔ رفتہ رفتہ کئی گروہ قائم ہوئے اور عسکریت پسندوں کی ایک بڑی تعداد افغانستان منتقل ہو ئی ۔امریکی چھتری کے نیچے بننے والی کابل کی تمام حکومتیںبھارتی پالیسیوں پر عمل پیرا رہیں۔
29فروری2020ء کے دوحا میں امریکا کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں15اگست2021ء تک امریکی و نیٹو انخلاء کے بعد منظر نامہ تبدیل ہوا۔ یقینا بلوچ مزاحمت سے مختلف حوالوں سے وابستہ افراد اب بھی موجود ہیں مگر انہیں سرکاری سرپرستی حاصل نہیں ہے۔ نہ پاکستان سے تعلق رکھنے والی مذہبی شدت پسندوں کو کابل کی سرپرستی حاصل ہے۔ نئی افغان حکومت طالبان ٹی ٹی پی اور بلوچ شدت پسندوں کے ساتھ بھی کسی تنازع میں پڑنا نہیں چاہتی ۔انہیں افغانستان میں رہنے کی اجازت تو دینا چاہتے ہیں لیکن انہیں اپنی سرزمین استعمال کرنے یاعسکری سرگرمیوں کی اجازت نہیں دیتی۔یقینا افغانستان کی سرزمین سے مذہبی گروہوں کے حملے اب بھی ہورہے ہیں۔ نقل و حمل کا تدارک نہ ہوسکا ہے۔ جس کی ایک وجہ افغان حکومت کی معاشی مشکلات بھی ہیں۔ نیز پاک سرحدی علاقوں کی ساخت ایسی ہے کہ مسلح گروہ اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔سو نئی کابل حکومت جتنی مستحکم ہوگی یوں ان کی عملداری ملک کے طول و عرض میں یقینی بن جائے گی ۔ کابل کی حکومت دوحا معاہدے کے تحت اپنی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ کرنے کی پابند ہے۔ افغان حکومت نے شمال کے صوبے بشمول پنجشیر کامل طور پر اپنے قلمرو میں شامل کرکے دراصل نئی دہلی اور ایران کے دیر ینہ نیٹ ورکس کا خاتمہ بھی کردیا ہے۔ روسی افواج کے نکلنے کے بعد ایران کو افغانستان کے شمالی علاقوں میں گہرا اثر و نفوذ حاصل ہوا ۔ ایرانی جاسوسی ادارے نے وسیع جال پھیلا یا ، جنرل سلیمانی بھی افغانستان میں کام کرچکے تھے۔ افغانستان پر امریکی حملے کے اور ملا عمر کی حکومت کے سقوط کے بعد بھارت کے ساتھ ایران بھی اہم کھلاڑی بنا۔ عراق پر امریکی فوجی تصرف کے بعد ایران کا دائرہ عراق تک پھیل گیا۔ پھر امریکی و ایرانی مفادات کے خلاف عراق کے اندر اٹھنے والی مزاحمت کے تناظر میں ایران نے افغان باشندوں پر مشتمل ملیشیا ئیں قائم کرلیں۔جو عراق اور شام میں حکومت مخالف گروہ کے خلاف استعمال ہوتی رہیں ۔ پاکستان کے مختلف علاقوں سے بھی نوجوان ان ملیشیائوں کا حصہ بنے۔ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد حیرت انگیز طور پر القاعدہ کے ارکان بھی ایران منتقل ہوگئے تھے۔ غرض کہ افغانستان پر امریکی تسلط کے دوران تقریباً ایک ہزار بلو جنگجو ایران میں موجود تھے۔
چناںچہ 15اگست2021ء کو امریکی و نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد بھی700کے قریب مزید جنگجو ایران منتقل ہوئے۔ حتیٰ کہ کراچی کے لیاری گینگ سے وابستہ 100کے قریب لوگ بھی ایران میں پناہ لے ہوئے ہیں ۔ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے سربراہ سمیت کئی بلوچ کمانڈروں کی ایران آمدروفت رہتی ہے۔ ایران کے جاسوسی کے ادارے ان بلوچ عسکریت پسندوں کو شناختی اسناد کی فراہمی ، علاج و معالجہ، مالی امداد اور رہائش ، نقل و حرکت اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات دیتے ہیں نیز پاکستان کے اندر کارروائیوں کی ہدایات دی جاتی ہیں۔ بھارت کے ساتھ اشتراک بھی موجود ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ ایران کے اندر بھی ان جنگجوئوں کو امداد و تعاون دے رہی ہے۔ انہیں رقوم دی جاتی ہیں۔ سہولت کاروں کے توسط سے ہر طرح کا تعاون کررہی ہے۔بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی ایرانی سرحد پر گرفتاری بڑی مثال ہے۔ گویا حالیہ چند بڑے واقعات کے تانے بانے اورقدموں کے نشان ایران جاتے پائے گئے ہیں۔ اگرچہ بلوچستان کے پہاڑی سلسلوں میں بلوچ عسکریت پسندوں کے کئی کیمپ موجود ہیں۔ ان کیمپوں کی طنابیں اگر افغانستان سے ملتی تھیں تو وہیں تہران سے بھی جڑی پائی جاتی ہیں۔یہاں یہ امر بھی مد نظر رہے کہ ایران بلوچ عسکریت پسند وں کو اپنی ’بسیج ‘ملیشیا کے ذریعے تعاون فراہم کرتا ہے ۔پاسداران انقلاب کے ماتحت یہ ملیشیا پور ے ایران میں پھیلی ہوئی ہے۔ اس فورس سے داخلی سیکورٹی ،بچوں کی ذہن سازی اور ان کی عسکری تربیت ، انقلاب مخالف عناصر کی نگرانی اور ان سے نمٹنے جیسے کام لیے جاتے ہیں ۔ پاکستان سے ملحقہ ایرانی صوبے ’’سیستان بلوچستان ‘‘میں یہ بارڈر سیکورٹی فورس کے ہمراہ مل کرسرحدوں پر کام کرتی ہے۔ ان سرحدی علاقوں میں اس ملیشیا کے اہلکار مقامی ایرانی بلوچ ہیں جو عسکریت پسندوں کی معاونت کرتے ہیں ۔ایران و بلوچستان کے سرحدی عوام کی زبان و قومیت ایک ہے ۔ ان کے درمیان رشتے قائم ہیں۔معاشی و تجارتی تعلق رکھتے ہیں۔آبادیاں بھی جگہ جگہ منسلک ہیں۔اکتوبر 2018ء میں امریکی حکومت نے’’ بسیج‘‘ فورس پر پابندی بھی عائد کی۔ 25جنوری2022ء کو کیچ میں فورسز پر حملہ جس میں دس فوجی جوان جاں بحق ہوئے کے بعد ،نوشکی و پنجگور کے سنگین حملوں کو بھی اس تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ کالعدم بی ایل اے کے اسلم اچھو دھڑے کے سربراہ بشیر زیب ،کالعدم بلوچ لبریشن فرنٹ، بلوچ ری پبلکن آرمی اور باقی تنظیموں کے سربراہان بھی ایران آتے جاتے بتائے گئے ہیں۔ یہ گروہ ایران کی حدود سے آکر حملے کرچکے ہیںاور پناہ کے لیے واپس چلے جاتے ہیں ۔ پاکستان نے دسمبر2018ء میں کیچ میں ہونے والے ایک حملے کے بعد باقاعدہ اسلام آباد میں متعین ایرانی سفیر مہدی ہنر منددوست کودفتر خارجہ طلب کرکے ایرانی سرزمین کے پاکستان کے خلاف استعمال پر احتجاج ریکارڈ کرایا ۔ جانے کیوںپاکستان کا رویہ دھیمہ اور مصلحت پوشی پر مبنی ہے ۔جبکہ ایران پاکستان کے خلاف بارہاشدید رد عمل دے چکا ہے۔ ایرانی فورسز پاکستان کی حدود میں بارہا داخل ہوئی ہیں ، لوگوں کو اٹھا کر لے جاچکی ہیں، میزائل حملے کرچکی ہیں، آبادیوں کو مارٹر گولوں سے نشانہ بناچکی ہیں۔چند سال پہلے تک پاکستان کی حدود میں ڈرون کی پروازیں معمول تھیں ۔
پاکستانی فضائیہ نے جون2017میں ایران کا ڈرون مار گرایا تو یہ سلسلہ رکا۔ حتیٰ کہ ایرانی فوجی حکام میڈیا کے ذریعے پاکستان کی حدود کے اندر کارروائیوں کے لیے سنگین نوعیت کی دھمکیاں بھی دے چکے ہیں۔ پاکستان کا رویہ تعاون کا رہا ہے جس کی ایک مثال جون2008ء میں جنداللہ کے سربراہ عبدالمالک ریکی کے بھائی عبدالحمید ریکی کی ایران کو حوالگی کی ہے۔ جسے بعد ازاں ایران نے پھانسی دے دی۔پاکستان نے انہی مشکلات کے پیش نظر افغان سرحد کے بعد 2019ء میں ایران کے ساتھ909کلومیٹر طویل سرحد پربھی باڑ لگانے کام شروع کیا۔ مجموعی طور پر 1080کلومیٹر طویل آہنی اور خاردار تاروں پر مشتمل باڑ لگانے کا خطیر مالیت کا منصوبہ ہے ،جس پر اب تک 67فیصد کام مکمل ہوچکا ہے۔نوشکی پنجگور حملے اس گروہ کے مجید بریگیڈ کے فدائین یونٹ نے کیے،یہ خودکش کارروائیاں تھیں۔ 2018ء میں چاغی میں چینی انجینئرز،کراچی میں چینی قونصل خانے،2019ء میں گوادر میں پی سی ہوٹل اور2020ء میں کراچی اسٹاک ایکسچینج پر حملوں کے برعکس نوشکی و پنجگور حملے بھیانک تھے۔ ان حملوں نے انٹیلی جنس اور حفاظتی حصار و نظام کو مات دے دی ہے۔ نوشکی آپریشن 3فروری کی صبح تک مکمل ہوا ۔جبکہ پنجگور میں ایف سی کیمپ اگلے تین دنوں تک کلیئر نہ ہوسکا۔ دونوں شہروں میں کرفیو کی کیفیت تھی۔ ان شہروں کا ملک کے دیگر علاقوں سے مواصلاتی سمیت ہر قسم کا رابطہ منقطع رہا۔ نوشکی میں9اور پنجگور میں7عسکریت پسند مارے گئے۔ جن کی گروہ نے خود نام و تصاویر جاری کرکے تصدیق بھی کرلی۔ مقابلے میں سیکورٹی فورسز کے9اہلکار جاں بحق ہوئے جن میں دو افسران بھی شامل تھے۔ آئی ایس پی آر نے پنجگور میں5اور نوشکی میں چار اہلکاروں کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی۔ چناں چہ بات چیت کی ضرورت ثابت ہوتی ہے ۔خصوصاً بلوچستان کے اندر حقیقی سیاسی جماعتوں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ البتہ سیاسی لوگ بھی دو رنگی اور فساد کا قلادہ اتاردیں۔ یقینی طورپر مصنوعی قیادت مسلط کرنے اور بالادستی کی سوچ و طرز عمل آئینی حقوق کا غضب ہونا بلوچستان کے امن کی خرابی کی وجوہات ہیں۔ مصنوعی سیاسی جماعت اور ان پر مشتمل صوبائی حکومت کہ جس کی خواتین پارلیمنٹرین تک بد عنوانی میں لت پت ہیں، مسلط ہوں تو عوام کے جذبات اور رائے قطعی مثبت نہیں رہے گی ؟۔لہٰذابلوچ معاشرے کے اندر رائے عامہ موافق بنانے کی ضرورت ہے، جو مستقل وبامعنی آئینی ،سیاسی اور معاشی اقدامات کے بغیر ممکن نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں