میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر وزارت قانون کو غور کرنا چاہئے ،قبلہ ایاز

اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر وزارت قانون کو غور کرنا چاہئے ،قبلہ ایاز

ویب ڈیسک
اتوار, ۹ فروری ۲۰۲۰

شیئر کریں

چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا ہے کہ جرم کے خاتمہ کا مقصد کس طریقہ سے حاصل کیا جاسکتا ہے تواس میں اسلامی نظریاتی کونسل کی جو حالیہ سفارشا ت ہیں میں سمجھتا ہوں کہ اس پر وزارت قانون کو غور کرنا چاہئے اور اس کے نفاذ کی کوئی کوشش ہونی چاہئے ۔ جب قصور میں زینب امین کا قتل ہوا تو اس وقت بھی اسلامی نظریاتی کونسل نے اس پر تفصیل سے بات کی تھی اور ہم نے یہی سفارش کی قرآن پاک میں سزا کے لئے جو طریقہ ہے اسی کے مطابق عمل کیا جائے اور طریقہ یہ ہے کہ سزا کے نفاذ کے وقت ایک طائفہ یعنی ایک جماعت اور گروہ موجودہ ہو اور فقہاء کی تفسیر کے مطابق وہ متعدد افراد ہو سکتے ہیں 15،20،25یا 30اور اس کی اگر تشہیر ہو جائے تو عبرت کا مقصد حاصل ہو سکتا ہے ۔ جبکہ وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ سرعام پھانسی اسلام کے مطابق نہیں ہے ۔ یہ بڑا قبیح جرم ہے اور اس پر سخت سزا ہونی چاہئے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ قیادت کا کام یہ نہیں ہوتا کہ جذبات کی رو میں بہہ کر فیصلے کرے ۔ قیادت نے تمام مضمرات کو دیکھ کر فیصلے کرنا ہوتے ہیں۔ دنیا میں تحقیقات ہوئیں اور اس کے اوپر لمبی چوڑی کتابیں لکھی گئیں ہیں اور ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں اس سے الٹا معاشرے کو نقصا ن ہوتا ہے اور شدت پسندی کی بے حسی پروان چڑھ جاتی ہے ۔ طالبان جو افغانستان میں کرتے تھے یا سعودی عرب میں ہم نے دیکھا جو سرعام سزائیں ہوئیں ان کا کوئی اثر جرم کے اوپر نہیں پڑا۔ بچوں سے زیادتی کے ملزمان کو سرعام پھانسی دینے کے حوالہ سے قومی اسمبلی کی جانب سے جمعہ کے روز پاس کردہ قرارداد پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر قبلہ ایاز کہنا تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے اس حوالہ سے مختلف اجلاسوں میں سفار شات مرتب کی ہیں ، جب قصور میں زینب امین کا قتل ہوا تو اس وقت بھی اسلامی نظریاتی کونسل نے اس پر تفصیل سے بات کی تھی اور ہم نے یہی سفارش کی قرآن پاک میں سزا کے لئے جو طریقہ ہے اسی کے مطابق عمل کیا جائے اور طریقہ یہ ہے کہ سزا کے نفاذ کے وقت ایک طائفہ یعنی ایک جماعت اور گروہ موجودہ ہو اور فقہاء کی تفسیر کے مطابق وہ متعدد افراد ہو سکتے ہیں 15،20،25یا 30اور اس کی اگر تشہیر ہو جائے تو عبرت کا مقصد حاصل ہو سکتا ہے ۔ سات ، آٹھ جنوری2020کے اجلاس میں اس موضوع پر ایک بار پھر ہم نے لمبی بحث کی اور ہم نے دو مزیدسفارشات پیش کیں ، ایک تو یہ کہ ابتدائی طور پر تھانوں کے اندر یا باہر اس گھنائونے اور قبیح اور خطرناک جرائم کے لئے خصوصی سیلز قائم کرنا ضروری ہیں اور پولیس کی بھی تربیت ہو تاکہ تفتیش کے مرحلہ میں ملزم کو گنجائش نہ ملے کہ وہ اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرے ۔ دوسری خصوصی سفارش جو ہم نے مرتب کی ہے وہ یہ ہے کہ اس مقصد کے لئے خصوصی عدالتیں قائم ہوں تاکہ جلد ازجلد سماعت ہو ۔ اس وقت جو صورتحال ہے کہ تین ، چار سال بعد فیصلہ ہو جاتا ہے اس کی وجہ سے یہ جرائم معاشرے سے کم نہیں ہو رہے بلکہ اس میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والے کو جنسی طور پر مفلوج کرنے کے حوالہ سے ہماری کوئی سفارش موجود نہیں ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ قتل کی سزا قتل یعنی قصاص ہی ہونی چاہئے ۔ا نہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کی قرارداد کے حوالہ سے اگر ہم یہ دیکھیں کہ جرم کے خاتمہ کا مقصد کس طریقہ سے حاصل کیا جاسکتا ہے تواس میں اسلامی نظریاتی کونسل کی جو حالیہ سفارشا ت ہیں میں سمجھتا ہوں کہ اس پر وزارت قانون کو غور کرنا چاہئے اور اس کے نفاذ کی کوئی کوشش ہونی چاہئے ۔ جبکہ نجی ٹی وی سے انٹرویو میں وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ سرعام پھانسی اسلام کے مطابق نہیں ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ سرعام پھانسی دیں میں ان کے جذبات کو سمجھ سکتا ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بڑا قبیح جرم ہے اور اس پر سخت سزا ہونی چاہئے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ قیادت کا کام یہ نہیں ہوتا کہ جذبات کی رو میں بہہ کر فیصلے کرے ۔ ا نہوں نے کہا کہ قیادت نے تمام مضمرات کو دیکھ کر فیصلے کرنا ہوتے ہیں، دنیا میں تحقیقات ہوئیں اور اس کے اوپر لمبی چوڑی کتابیں لکھی گئیں ہیں اور ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں اس سے الٹا معاشرے کو نقصا ن ہوتا ہے اور شدت پسندی کی بے حسی پروان چڑھ جاتی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان جو افغانستان میں کرتے تھے یا سعودی عرب میں ہم نے دیکھا جو سرعام سزائیں ہوئیں ان کا کوئی اثر جرم کے اوپر نہیں پڑا۔ انہوں نے کہا کہ سب سے بڑی سوچنے کی بات یہ ہے کہ بچائو کیسے کیا جائے ، اس حوالہ سے ہم کیوں بات نہیں کررہے ۔ بچائو کے حوالہ سے ہم اس لئے بات نہیں کر رہے کہ ہمارے کچھ طاقتور مذہبی اورباقی لوگ اس پر نہیں آتے ۔ میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر ہم سرعام سزا دیں گے تو اس کا فائدہ اس طرح سے نہیں ہو گا جو ہم سوچتے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں