مشکوک مذہبی رہنماﺅں سے متعلق پولیس کے لیے نیا ضابطہ اخلاق
شیئر کریں
٭سیکرٹری داخلہ شکیل احمد منگینجو سابقہ پالیسی سے غیر مطمئن، پولیس سے فورتھ شیڈول میں شامل 580 افراد کا ریکارڈ طلب کرلیا٭2کمیٹیاں بنا کر
فہرست میں شامل ہر فرد کے کیس کا انفرادی جائزہ لینے کی ہدایات ، نئی فہرست میں نام شامل کرنے کے لیے پولیس کو باریکی سے چھان بین کرنی ہوگی،ذرائع
عقیل احمد راجپوت
ملک میں امن و امان کی بحالی کے لیے کچھ قوانین وفاقی اور کچھ قوانین صوبائی ہوتے ہیں۔ مقصد اس کا یہ ہوتاہے کہ ان قوانین کے ذریعہ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہ ہو اور اگر کوئی قانون ہاتھ میں لے تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے ۔ ملک میںرائج مختلف قوانین میں صوبوں کو ”فورتھ شیڈول“ کا بھی اختیار حاصل ہے جس کے تحت وہ لوگ جن کا تعلق مذہبی جماعتوں سے ہے لیکن ان کی سرگرمیاں مشکوک ہیںیاوہ تشدد میں ملوث ہیں یا تشدد پسند افراد کے حامی یا سرپرست ہیں تو ان کے نام اس فورتھ شیڈول میں شامل کیے جاتے ہےں۔ اس فہرست میں شامل افراد ایک لحاظ سے آزاد ہوتے ہوئے بھی آدھے قیدی ہوتے ہیں۔ان کو روزانہ اپنے تھانے میں شام کو حاضر ہونا پڑتا ہے اگر وہ دوسرے شہر جانا چاہتے ہیں تو پہلے اپنے علاقہ کے تھانے کو اطلاع دیں اور پھر جب کسی شہر میں جائیں تو اس شہر کے تھانے کو اطلاع دیں کہ وہ کس کام سے آئے ہیں؟ کس کے پاس ٹھہرے ہیں؟ اور جب واپس اپنے علاقے میں جائیں تو اپنے علاقے کے تھانہ کو آگاہ کریں کہ وہ اتنے دن کہاں اور کس مقصد کے لیے گئے تھے؟ اور یہ کارروائی غیر معینہ مدت تک کے لیے چلتی رہتی ہے۔
فورتھ شیڈول میں شامل ہر شخص کی زندگی عذاب سے کم نہیں ہوتی مگر سالہا سال سے یہ پریکٹس چلی آرہی ہے کوئی اس میں تبدیلی پر سوچ ہی نہیں رہا تھا۔ سندھ کے موجودہ سیکریٹری داخلہ شکیل احمد منگینجو اچھی شہرت رکھتے ہیں، کم از کم اپنا دامن مالی بے قاعدگیوں اور اختیارات کے ناجائز استعمال سے پاک رکھا ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق جب شکیل منگینجو نے اپنے عہدے کا چارج سنبھالا تو دیگر ایشوز کی طرح ان کو یہ ایشو بھی بتایا گیا تو وہ سکتے میں آگئے کہ کئی برسوں سے لوگوں کو فورتھ شیڈول میں رکھا گیا ہے۔ انہوں نے جب طریقہ کار دریافت کیا تو مزید تشویش میں مبتلا ہوگئے ۔ ان کو بتایا گیا کہ کوئی بھی ایس ایس پی ایک خط محکمہ داخلہ کو لکھ کر بھیجتا ہے اور اس کا نام فورتھ شیڈول میں ڈال دیا جاتا ہے اور پھر کئی برسوں تک فورتھ شیڈول میں شامل لوگ تھانوں کے چکر کاٹنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ انہوں نے جب تمام ایس ایس پیز سے ان افراد کا کرمنل ریکارڈ مانگا ‘ حالیہ کردار کی رپورٹ مانگی‘ حتیٰ کہ ان کے شناختی کارڈ نمبر مانگے تو ان کو اطمینان بخش جواب نہ مل سکا اور بتایا گیا کہ ان کے پاس ان افراد کا کوئی بھی ریکارڈ نہیں ہے‘ سیکریٹری داخلہ مخمصے کا شکار ہوئے بالآخر انہوں نے ہمت کی اور سندھ پولیس کو خط لکھ دیا کہ فورتھ شیڈول میں شامل 580 افراد کے شناختی کارڈ‘ کرمنل ریکارڈ اور تازہ ترین سرگرمیوں کی رپورٹ محکمہ داخلہ کو بھیجی جائے۔ اس پر بھی ان کو کوئی جواب نہ ملا تو وہ مزید پریشان ہوگئے اور پھر انہوں نے اعلیٰ حکام سے منظوری لینے کے بعد دو الگ الگ کمیٹیاں بنادیں۔ ایک کمیٹی ہر ضلع میں بنائی گئی ہے جس کے سربراہ ایس ایس پی ہوں گے اور دوسری کمیٹی صوبائی سطح کی بنائی گئی ہے جس کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی کاﺅنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ ہوں گے۔ دونوں کمیٹیوں کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ اب ہر ایک کیس کا انفرادی جائزہ لے اور جن کا نام فورتھ شیڈول میں شامل ہے ان کو بھی صفائی کے لیے طلب کرے ۔ان کا پورا ریکارڈ بنائے اور ضلعی کمیٹی اپنی رپورٹ صوبائی کمیٹی کو ارسال کرے اور ضلعی کمیٹی یا پھر صوبائی کمیٹی کسی کا نام خارج بھی کرسکتی ہے اور نئے نام بھی شامل کرسکتی ہے لیکن اس کے لیے باقاعدہ جواز بتانا ضروری ہوگا کیونکہ اس طرح تو کئی بے گناہ افراد پولیس کی اندھی رپورٹ پر عذاب کا شکار ہیں‘ اس اقدام سے سینکڑوں افراد کی جان میں جان آئی ہے کیونکہ ان کی فریاد کوئی بھی نہیں سن رہا تھا، ہرکسی نے پولیس کی بھیجی گئی فہرست پر خاموشی اختیار کی ہوئی تھی مگر سندھ کے سیکریٹری داخلہ شکیل احمد منگینجو نے خوفخدا دل میں رکھ کر ایک دلیرانہ قدم اٹھالیا۔ان کا موقف ہے کہ اگر کوئی جرم میں ملوث ہے تو اس کے خلاف باقاعدہ مقدمہ درج کرکے کارروائی کی جائے اور عدالتوں کو فیصلہ کرنے دیا جائے کہ وہ ان کو کیا سزا دیتی ہیںمگر یہ پولیس یا محکمہ داخلہ کو حق حاصل نہیں کہ کسی کو برسوں تک ذہنی عذاب میں مبتلا رکھا جائے۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اس نئی پالیسی کے بعد پولیس کے لیے ایک رکاوٹ کھڑی ہوگئی ہے، اب پولیس کا کوئی بھی افسر کسی کا نام فورتھ شیڈول میں شامل کرنے کی درخواست دے گا تو اس کو پہلے متعلقہ شخص کا کرمنل ریکارڈ دینا ہوگا ، پھر حالیہ دنوں میں ان کی سرگرمیوں کا ذکر کرنا ہوگا اور ان کا شناختی کارڈ بھی دینا ہوگا تاکہ اس کو مشکوک سرگرمیوں کے باعث بیرون ممالک جانے سے روکا جائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ فورتھ شیڈول کی اب کچھ عرصے بعد ایک نئی فہرست بنے گی ، اس بار جو فہرست تیار ہوگی اس میں پورا ریکارڈ ہوگا اور پولیس کے لیے اب ممکن نہیں رہے گا کہ کسی بے گناہ کو اس میں شامل کرسکے۔