میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کراچی کے شہری اور ایم کیو ایم ( دوسرا حصہ )

کراچی کے شہری اور ایم کیو ایم ( دوسرا حصہ )

ویب ڈیسک
جمعرات, ۹ فروری ۲۰۱۷

شیئر کریں

محرومیوں کو گروہوں یا قوموں کی طاقت بنا دینے والی قیادت بیک وقت دو طرح کی صلاحیت رکھتی ہے ایک طرف وہ گہرا علمی رسوخ اور فکری صلاحیت کی حامل ہوتی ہے اور ساتھ ہی بہترین انتظامی صلاحیت بھی رکھتی ہے ۔ سندھ کے شہری علاقوں اور بالخصوص کراچی والوں کو ایم کیو ایم کی صورت میں جو قیادت میسر آئی بدقسمتی سے اس میں فکری صلاحیت کا زبردست فقدان تھا ‘البتہ انتظامی صلاحیت میں اسکا کوئی ثانی نہیں تھا ۔ اسی لئے ایم کیو ایم پاکستان کی تاریخ کی سب سے منظم جماعت قرار دی جا سکتی ہے لیکن یاد رہے مثالی نظم و ضبط کی حامل تنظیم بنانا ایک الگ بات ہے اور قو م کو منظم کرنا ایک علیحدہ بات ہے یعنی تنظیم کی تعمیر صرف انتظامی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ہو سکتی ہے لیکن قوم کی تعمیر کے لئے قیادت میں گہری علمی اور فکری صلاحیتوں کا ہونا بھی ضروری ہے ۔
ایم کیو ایم جیسی منظم سیاسی جماعت کے ہوتے ہوئے جسے کراچی کے شہریوں نے اپنا سیاسی مینڈیٹ تقریباً تین عشروں سے دے رکھا ہے اور اس دوران کراچی پر ایم کیو ایم کا ایسا غلبہ بھی رہا کہ یہاں کسی دوسری جماعت کو سیاست کے لئے کوئی اسپیس نہ ملا تقریباً ایم کیو ایم کی اجارہ داری قائم رہی‘ لیکن اتنی زبردست عوامی حمایت کے باوجود عین اسی عرصے میں کراچی شہر اپنی مثبت شناختیں کھو بیٹھا اور منفی شناختیں اس کی پہچان بن گئیں ۔ منظم تنظیم‘ منظم سماج تشکیل دینے میں بری طرح ناکام رہی بلکہ کراچی کے شہریوں کو منظم بد معاشی کا سامنا کرنا پڑا نہ وہ اپنی مرضی سے زکوٰة فطرہ دینے میں آزاد رہے اور نہ اپنے قربانی کے جانوروں کی کھالیں اپنی مرضی سے دینے کی جازت انہیں ملی ۔ منظم تنظیم کے کارندے گلی محلوں میں گردنیں اکڑائے عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح سمجھتے رہے ۔ ایم کیو ایم جس جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کے دعوے کے ساتھ کھڑی ہوئی تھی اس نے اپنے زیر اثر علاقوں میں روایتی جاگیرداری سے بھی بد ترین جاگیرداری مسلط کردی ۔ کراچی کے اُردو بولنے والے شہری جو اپنی شرافت ، صلح جوئی ، شائستگی اور تعلیم و تربیت کے اعتبار سے پورے پاکستان میں ممتاز مقام رکھتے تھے ۔ ایسے خاندانی گھرانوں کی اولادوں کو جاگیردارانہ ضرورت کے تحت لڑاکا ، بد معاش اور بد تہذیب بنادیا گیا جن خاندانوں نے کبھی تھانے کی دہلیز پر قدم نہیں رکھا تھا وہ جیل اور عدالتوں کے چکر کاٹنے پر مجبور ہوئے ۔
علمی رسوخ اور فکری صلاحیتیں رکھنے والی قیادت کی پہلی ترجیح تعلیم ہوتی ہے۔اورجاگیردارانہ ذہنیت کا پہلا نشانہ بھی تعلیم ہی ہوتی ہے ۔ تعلیم نے مہاجروں کو ہزار تعصبات کے باوجود بھی پاکستان کی حکومت ، اداروں ، محکموں اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں نمایاں مقام دلا رکھا تھا ۔ پی ٹی وی کے سنجیدہ اور کامیڈی ڈراموں سے لے کر ریڈیو پاکستان کے مقبول پرگراموں تک کراچی چھایا ہوا تھا ۔ بیوروکریسی میں مہاجر افسران کی تعداد ان کی آبادی کے مقابلے میں کم نہیں تھی۔ جامعہ کراچی ، انٹر میڈیٹ اور میٹرک بورڈ کراچی کی سندوں کو خاص اعتبار اور مقام حاصل تھا‘ اس دور کے سرکاری پیلے اسکولوں کے پڑھے ہوئے آج بھی دنیا میں اپنا نام کما رہے ہیں ۔ سرکاری اسکول اتنے منظم اور ذمہ دار ہوا کرتے تھے جن کا آج تصور نہیں کیا جا سکتا اور اس وقت کی تعلیم اس معیار کی تھی کہ آج پرائیویٹ اسکول تعلیم کا وہ معیار پیش کرنے میں ناکام ہیں ۔ ٹیوشن سینٹرز ، کوچنگ اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا اتنا رواج نہیں تھا ۔کراچی کے شہریوں کی بھاری اکثریت اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں بھیج کر مطمئن تھی ۔
پھر کیا ہوا ؟ پہلے پہل اساتذہ کا احترام ختم ہوا طلباءبدمعاشی پر اتر آئے ، نقل کا کلچر عام ہوا ، سرکاری تعلیمی ادارے ان کے منتظمین اور ان کے اساتذہ نئی نسل کی بدمعاشی سے سمجھوتہ کرتے ہوئے غیر مو¿ثر ہوتے چلے گئے ، تعلیمی بورڈ ز اور اداروں میں سیاسی بھرتیاں اور سیاسی مداخلت کا سلسلہ چل نکلا ۔پھر معیاری تعلیم ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ میٹرک سے لے کر ماسٹرز تک کی جعلی ڈگریوں کا کاروبار بھی شروع ہوگیا ۔
اب کراچی کے شہریوں کی حالت یہ ہے کہ وہ روکھی سوکھی کھا کر اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرتے ہیں اگر ان کے بچوں کو اس صورت میں معیاری تعلیم مل رہی ہوتی تو غنیمت تھا لیکن افسوس کہ گلی محلے میں کھلے ہوئے پرائیویٹ اسکولز جو فیسیں بھی پوری لے رہے ہیں ‘نہ وہ تعلیم کے لئے مناسب ماحول فراہم کر رہے ہیں اور نہ ہی تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ اساتذہ مہیا کر رہے ہیں ۔ سرکاری اسکولوں میں الو بول رہے ہیں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ اسکول میں طلبہ کم ہیں‘ اساتذہ زیادہ ۔ عام آدمی کا ان سرکاری اسکولوں پر اعتماد بالکل ختم کردیا گیا ۔ متعصبانہ اور سطحی سوچ قوموں کے لئے کس قدر تباہ کُن ہوتی ہے اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب چند سال پہلے ایم کیو ایم کے ایک ذمہ دار سے میں نے سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت زار کا رونا رویا اور اس حوالے سے ملامت کی کہ آپ لوگ حکومت کا حصہ ہیں اور سرکاری تعلیمی اداروں کی اصلاح کے لئے کوئی کاوش نہیں کر رہے تو موصوف نے فرمایا کہ ” سرکاری تعلیمی اسکولوں میں زیادہ تر پنجابی اور پٹھانوں کے بچے پڑھتے ہیں مہاجروں کے بچے تو زیادہ تر پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھتے ہیں اس لئے ہم سرکاری اسکولوں پر توجہ نہیں کرتے“ گویا ایم کیو ایم کی پالیسی کا حصہ تھا کہ سرکاری اسکولوں کو غیر مو¿ثر رکھا جائے اور یہ پالیسی جن ذ ہنوں کی اختراع ہوگی ان ذہنوں کو کیسے قرار دیا جا سکتا ہے کہ وہ علمی رسوخ اور فکری صلاحیتیں رکھنے والے ذہن تھے ۔ یہ سطحی سوچ کی علامت ہے اور کراچی کے شہریوں کی بدقسمتی کہ ان پر تین عشروں سے سطحی سوچ رکھنے والی قیادت مسلط رہی جس نے ان کی نسلوں کو سنگین مسائل سے دو چار کردیا ۔ ( جاری ہے )
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں