میگزین

Magazine
تازہ ترین : عمران خان کی حکومت ہٹانے سے متعلق سائفر امریکی میڈیا میں ہی افشا ہو گیا پارٹی رہنماؤں، فیملی ممبرز اور وکیلوں میں سے کوئی بھی عمران خان سے ملاقات کیلئے اڈیالہ جیل نہ آیا, شیخ وقاص اکرم ملٹری کورٹ اور اے ٹی سی کیسز کی تفریق کیسے ہوئی؟ آئینی بینچ اسلام آباد ہائیکورٹ: لطیف کھوسہ کو بیرون ملک جانے کی اجازت 200سے زائد پی ٹی آئی کارکنوں کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ حج درخواستوں کی وصولی آئندہ ہفتے شروع کی جائے گی عمر ایوب، رزتاج گل سمیت دیگر کی عبوری ضمانت میں توسیع آئی ایم ایف سے بات کر رہے ہیں، بجلی 10 سے 12 روپے فی یونٹ سستی کر سکتے ہیں،اویس لغاری 9مئی کیس میں بھی شاہ محمود سمیت دیگر پر فرد جرم عائد حسان نیازی ماموں پر چلے گئے ہیں ، عظمی بخاری اسلام آباد: جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) نے پی بی 45 میں ری پولنگ میں نتائج تبدیل کرنے کے خلاف الیکشن کمیشن سے رجوع کرلیا۔ جے یو آئی کے امیدوار میر عثمان پرکانی نے سینئیر قانون دان سینیٹر کامران مرتضی کے ذریعے کمیشن میں کیس دائر کیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے پی بی 45 کے 15 پولنگ اسٹیشنز میں دھاندلی سے متعلق کیس کل سماعت کے لیے مقرر کر دیا۔ واضح رہے کہ 5 جنوری کو ہونے والی ری پولنگ کے غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج کے مطابق پیپلزپارٹی کے امیدوار امداد علی جتک کامیاب قرار پائے تھے۔ پختونخوا میپ کے امیدوارنصراللہ زیرے دوسرے نمبر پر رہے تھے۔جمعیت علما اسلام کے امیدوار عثمان پرکانی نے الیکشن ٹریبونل میں علی مدد جتک کی کامیابی کو چیلنج کیا تھا۔

ای پیج

e-Paper
ملٹری ٹرائل اے پی ایس جیسے مجرموں کے لیے تھا،سپریم کورٹ

ملٹری ٹرائل اے پی ایس جیسے مجرموں کے لیے تھا،سپریم کورٹ

ویب ڈیسک
جمعرات, ۹ جنوری ۲۰۲۵

شیئر کریں

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلئنز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت ہوئی جس کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے ہیں کہ سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل اے پی ایس جیسے مجرمان کے خلاف ٹرائل کے لیے تھا، کیا تمام سویلین کے ساتھ وہی برتائو کیا جاسکتا ہے جیسے اے پی ایس سانحہ میں کیا گیا۔سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ سماعت کر رہا ہے۔وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کر دیا اور موقف اپنایا کہ عدالتی فیصلے کی بنیاد آرٹیکل 8(5) اور 8(3) ہے، دونوں ذیلی آرٹیکلز یکسر مختلف ہیں، انہیں یکجا نہیں کیا جا سکتا۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ کا یہ نکتہ کل سمجھ آ چکا، اب آگے چلیں اور بقیہ دلائل مکمل کریں۔خواجہ حارث نے سویلین کا ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دینے والا فیصلہ پڑھا اور کہا کہ ایف بی علی کیس میں طے پا چکا تھا سویلین کا بھی فوجی عدالت میں ٹرائل ہو سکتا ہے، اکثریتی فیصلے میں آرٹیکل آٹھ تین اور آٹھ پانچ کی غلط تشریح کی گئی۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ دیکھتے ہیں اس پر ہم آپ سے اتفاق کریں یا نہ کریں، خواجہ حارث نے کہا کہ غلط تشریح کی بنیاد پر کہہ دیا گیا ایف بی علی کیس الگ نوعیت کا تھا، ایف بی علی پر ریٹائرمنٹ کے بعد ٹرائل چلایا گیا تھا جب وہ سویلین تھے۔خواجہ حارث نے موقف اپنایا کہ فیصلے میں کہا گیا جرم سرزد ہوتے وقت ریٹائر نہیں تھے اس لئے ان کا کیس الگ ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ موجودہ کیس میں 9 مئی والے ملزمان تو آرمڈ فورسز سے تعلق نہیں رکھتے، آج کل ایک اصطلاح ایکس سروس مین کی ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل اے پی ایس جیسے مجرمان کے خلاف ٹرائل کیلئے تھا، کیا تمام سویلین کے ساتھ وہی برتا کیا جاسکتا ہے جیسے اے پی ایس سانحہ میں کیا کیاگیا، پاکستان کا آئین معطل نہیں ہے۔وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ بنیادی حقوق رہتے ہیں، اس بارے میں عدالتی فیصلے موجود ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ہمیں بتائیں ملٹری کورٹس سے متعلق بین الاقوامی پریکٹس کیا ہے، وکیل وزارت دفاع نے موقف اپنایا کہ بین الاقوامی سطح پر میں مثالیں پیش کرونگا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر ہمارے فوجی جوان شہید ہو رہے ہیں، ہمیں شہدا کا احساس ہے، سوال یہ ہے کہ ان شہدا کے مقدمات فوجی عدالتوں میں کیوں نہیں چلتے، اگر کوئی محض سوچ رکھتا ہو کیا اس کے خلاف بھی ملٹری کورٹس میں کیس چلے گا، جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ہم روزانہ کی بنیاد پر اس معاملے کو دیکھیں گے، اگر جیل میں کسی کو بھجوانا پڑا تو بھجوائیں گے۔حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ وکلا کیساتھ ملاقات کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی، صرف ماں، باپ اور بیوی سے ملاقات کرائی جا رہی ہے۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ میں جب پشاور ہائیکورٹ میں چیف جسٹس تھی تو باقاعدگی سے جیلوں کا دورہ کرتی تھی، عام طور پر ملٹری کورٹس سے سزا یافتہ ملزمان کے قریب نہیں جانے دیا جاتا، میں جب ان ملزمان کے قریب ہائی سیکورٹی حصار میں گئی۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ قید تنہائی میں رکھنا بہت بڑی سزا ہے، اگر دو دن کسی کمرے میں بند کر دیا جائے تو انسان نہیں رہ سکتا، جیلوں میں دہشت گردوں اور قتل کے ملزمان کو آزاد گھومنے پھرنے کی اجازت ہے، ان ملزمان نے کونسا اتنا بڑا جرم کر دیا ہے؟عدالت عظمی نے ملزمان کو قید تنہائی میں رکھنے اور وکلا سے ملاقات نہ کروانے سے متعلق جواب طلب کر لیا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں