میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
قطر کا تناظر اور جاسوسی کے دلچسپ قصے

قطر کا تناظر اور جاسوسی کے دلچسپ قصے

ویب ڈیسک
منگل, ۹ جنوری ۲۰۲۴

شیئر کریں

ڈاکٹر سلیم خان

اگنی ویر اسکیم فوج میں ٹھیکے داری کی عمدہ مثال ہے ۔ سرمایہ دارانہ استعماریت میں ہر کام کانٹریکٹ پرہوتا ہے تو ایسے میں جاسوسی کو ٹھیکے پر اٹھانے میں کیا حرج ہے ؟ اس سوال کا جواب اسرائیل کے لیے مبینہ جاسوسی کے الزام میں قطری جیل کے اندر قید ہندوستانی بحریہ کے سابق آٹھ اہلکار ہیں ۔ ان لوگوں کو پہلے موت کو سزا سنائی گئی تھی مگر اسے اپیلی قطری عدالت نے منسوخ کردیا۔ اس فیصلے کو نریندر مودی حکومت کی بہت بڑی سفارتی کامیابی بتایا جارہا ہے مگرملزمین کے اہل خانہ اس بات سے سخت ناراض ہیں کہ ان پر عائد جاسوسی کے الزامات کو ہٹایا کیوں نہیں گیا ہے ؟ہندوستانی وزارت خارجہ کے مطابق کپتان نوتیج گل اور سینیئر کمانڈز سوربھ وششٹھ، پرنیندو تیواری، امیت ناگپال، سنجیو گپتا، بریندر کمار ورما، سنگاکر پکالا اور سیلر راگیش (تمام سبکدوش) کی سزا کوکم تو کردیا گیا ہے تاہم اس کی تفصیل نہیں بتائی گئی البتہ غیر مصدقہ ذرائع سے مختلف لوگوں کو دی جانے والی سزا کی مدت دس سے تیس سال کے درمیان بتائی جارہی ہے ۔
ان ملزمین کے اہل خانہ جاسوسی کے الزامات کی برقراری سے اس لیے فکرمندہیں کیونکہ وہ انہیں بے قصور مانتے ہیں اور ان کو بے گناہ ثابت کرنے کی لڑائی جاری رکھنے کے لیے اس فیصلے کے خلاف قطر کی اعلیٰ عدالت سے رجوع کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ لواحقین کا اپنے لوگوں کا کو بے قصور سمجھنا فطری ہے اور عدالت میں انہیں چھڑانے کی کوشش کرنا بھی ان کا بنیادی حق ہے لیکن یہ سوال تو ہے کہ قطر کے اندر رہنے والے آٹھ لاکھ ہندوستانیوں میں سے صرف چند ادراد پر ایسا سنگین الزام کیوں لگایا گیا؟ ہندوستانی وزارت خارجہ نے قطری عدالت کے فیصلے پر قدرے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ گرفتار آٹھوں افراد کی قانونی ٹیم کے علاوہ ان کے اہل خانہ کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے تاکہ اگلے اقدامات کے بارے میں فیصلہ کیا جاسکے ۔سزا کی تخفیف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قطر کے شیخ تمیم بن حمادالثانی سے دوبئی میں اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی سربراہی کانفرنس کے دوران ملاقات کا نتیجہ ہے ۔
امسال مارچ میں قطری عدالت نے ضمانت کی درخواستیں مسترد کرکے مقدمہ شروع کیا تھا اور 26 اکتوبر کو موت کی سزا سنائی تھی ۔ یکم دسمبر کو وزیر اعظم مودی کی امیر قطر سے ملاقات کے بعد دوحہ میں ہندوستانی سفیر نے تین دسمبر کو جیل کے اندر جاکر آٹھوں افراد سے ملاقات کی تھی۔ 2015 ہندوستان او رقطر کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت دونوں ممالک کے سزا یافتہ شہریوں کو واپس ان کے ملک لایا جاسکتا ہے اور وہاں وہ اپنی سزائیں پوری کرسکتے ہیں لیکن موت کی سزا پریہ معاہدہ نافذ نہیں ہوتا۔اس کے علاوہ ایک اڑچن یہ ہے کہ حکومتِ ہند نے تو اس معاہدے کی توثیق کردی مگر قطر کی جانب سے یہ نہیں ہوا ۔ اس لیے وہ معاہدہ ہنوز نافذالعمل نہیں ہے ۔ ہندوستانی فوج کے سابق اہلکاروں کے ملوث ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ انتہائی حساس نوعیت کا بن گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتِ ہند انتہائی محتاط انداز میں پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے ۔ہندوستان اور قطر کے درمیان تعلقات بھی خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔ لاکھوں ہندوستانیوں کی وہاں ملازمت کے سبب سے ہر سال اربوں ڈالر غیر ملکی زرمبادلہ ہندوستان آتا ہے ۔ جون 2022 میں بی جے پی کی ترجمان نوپور شرما کے متنازعہ تبصرہ پر قطر ی حکومت نے ہندوستان سے عوامی طورپر معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے بعد اگست 2022 میں دوحہ کے اندر ان آٹھ اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنے والے سابق افسران کو جاسوسی کے الزام گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ افراد خلیجی کمپنی الضحرہ کے ملازم تھے جو ایرو اسپیس، سیکیورٹی اور دفاعی شعبوں میں فعال ہے ۔اس وقت ٹائمز آف ہندوستان نے ذرائع کے حوالے سے بتایاتھا کہ ‘ ان پر اسرائیل کے لیے جاسوسی کا الزام لگایا گیا ہے ‘۔ان میں سے ایک شخص کی بہن میتو بارگھوا نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ، میرے بھائی کی عمر تریسٹھ برس ہے ۔ وہ اسرائیل کے لیے جاسوسی کیوں کریں گے ؟ کیا وہ اس عمر میں کوئی ایسا عمل کر سکتے ہیں؟” ایک بہن کا یہ سوال فطری ہے مگر عدالت کے فیصلے ایسی منطق کی بنیاد پر نہیں بلکہ موجود شواہد کی روشنی میں کیے جاتے ہیں۔فوجیوں کے ذریعہ جاسوسی کے واقعات ہندوستان کے اندر بھی ہوتے ہیں۔ مئی 2022 میں ہندوستان کی شمالی ریاست راجستھان میں ایک فوجی کوحکام نے پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے ایک مبینہ ایجنٹ کو خفیہ معلومات فراہم کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا ۔ذرائع کے مطابق مشترکہ تفتیشی مرکز، جے پور میں مختلف ایجنسیوں کی جانب سے پوچھ گچھ کے دوران 24 سالہ پردیپ کمار نے اعتراف کرلیا کہ وہ کرشنا نگر، اتراکھنڈ کا رہائشی ہے اور تین برس قبل فوج میں بھرتی ہوا تھا۔ ٹریننگ کے بعد اس کی تعیناتی بندوقچی کے طور پر ہوئی تھی مگر بعدمیں ملزم کا جودھ پور کے انتہائی حساس ریجمنٹ میں تبادلہ ہوگیا تھا۔تقریباً چھ، سات مہینے قبل اسے ایک خاتون کا فون آیا۔ اس کے بعد وہ دونوں واٹس ایپ، وائس کال اور ویڈیو کال کے ذریعے آپس میں بات کرنے لگے ۔پولیس کے مطابق چھدم نامی خاتون نے خود کو گوالیار، مدھیہ پردیش کی رہائشی بتا کر پردیپ کمار کو اپنے دام میں پھنسالیا نیز دلی آکر شادی کرنے کا وعدہ بھی کردیا۔چھدم نے پردیپ کمار سے کہا کہ وہ بنگلور میں ایم این ایس نامی کمپنی میں زیر ملازمت ہے ۔ تفتیش کے بعد پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ آگے چل کر اس خاتون نے کئی خفیہ دستاویز اور تصاویر کا مطالبہ کیا۔ ملزم پردیپ کمار چونکہ ‘ہنی ٹریپ میں پھنس چکا تھا اس لیے وہ فوج سے متعلق خفیہ دستاویزات کی فوٹو کھینچ کر چوری چھپے اپنے موبائل سے اس خاتون کو بھیجنے لگا ۔ پردیپ کمار سے تفتیش کے دوران یہ انکشاف بھی ہوا کہ ملزم نے مذکورہ خاتون کو اپنے موبائل کی سِم اور واٹس ایپ کے لیے او ٹی پی بھی شیئر کیا جس کی مدد سے وہ ایجنٹ دیگر لوگوں اور فوجیوں کو بھی اپنا شکار بنا سکتی ہے ۔مذکورہ بالا معاملات میں تو کم ازکم یہ کہا جاسکتا ہے پردیپ کمار، ملک ارجن ریڈی یا پردیپ کورولکر نادانستہ ہنی ٹریپ میں پھنس گیا لیکن اگر قطر میں گرفتار ملزمین پر جان بوجھ کر جاسوسی کرنے کے شواہد مل جائیں تو وہ معاملہ ان سے مختلف اور پیچیدہ و سنگین ہوجائے گا۔
جولائی 2022میں ہندوستان کی ملٹری انٹیلی جنس کے تین کرنل اور ایک لیفٹیننٹ کرنل پر الزام لگا یا تھا کہ انھوں نے ایک مبینہ پاکستانی جاسوس کے واٹس ایپ گروپ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ تحقیقات کے دوران ان کے فون اور لیپ ٹاپ ضبط کرکے انہیں معطل کر
دیا گیا۔ ان لوگوں کے خلاف تحقیقات میں ہندوستانی فوج کو معلوم ہوا تھا کہ وہ مبینہ طور پر نامعلوم غیر ملکی شہریوں کے ایک واٹس ایپ گروپ میں شامل تھے اور اس میں جنسی نوعیت کا غیر اخلاقی رویہ اختیار کیا جا رہا تھا۔ اسی لیے انھیں فوج سے معطل کر دیا گیا تھا یعنی یہاں معاملہ کوئی خفیہ معلومات کی فراہمی کا نہیں بلکہ محض ایک ایک پاکستانی جاسوس کے گروپ میں شمولیت بھر کا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ اپنا مقدمہ لے کر سپریم کورٹ تک پہنچ گئے تاہم ان افسران کو عدالت نے ریلیف دینے سے انکار کردیا۔ ان چار فوجی افسران نے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ ان کے رازداری کے حق کی حفاظت یقینی بنائی جائے تاہم سپریم کورٹ نے ان کے دلائل مسترد کر دیئے تھے حالانکہ اس مقدمہ میں ان پیروی کرنے والے سابق کرنل امِت کمار تھے جواب پیشے سے وکیل ہیں ۔معطل افسران نے اپنی درخواست میں سوال کیا تھا کہ آیا انھیں ہندوستان کے آئین کے تحت باقی شہریوں کی طرح بنیادی حقوق انہیں حاصل ہیں یا نہیں؟ درخواست گزاروں کا دعویٰ تھا کہ انھیں اس گروپ میں کسی پاکستانی جاسوس کی موجودگی کا علم نہیں تھا۔ اس پر سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں لکھا تھا کہ ‘ہم معطل فوجی افسران کی درخواستیں وصول نہیں کرتے ۔ ان فوجیوں کے وکیل ایڈوکیٹ امت کمار نے سپریم کورٹ میں تحقیقات شروع ہونے سے قبل ان افسران کی معطلی کو غیر قانونی بتایا اور ان کی ذاتی گفتگوکے ذریعہ انہیں بلیک میل کرنے اور ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کرنے کا الزام لگایا تھا مگرعدالت نے کہا درخواست گزاروں کو تحقیقات مکمل ہونے سے پہلے بھی معطل کیا جاسکتا ہے اس لیے وہ کسی ریلیف کے مستحق نہیں ہیں ۔’مذکورہ بالا معاملہ قدرے کم سنگین ہے اس کے باوجود مقدمہ کے وکیل نے یہ تسلیم کیا تھا کہ ‘اگر وہ(چار فوجی) قصوروار پائے جاتے ہیں تو انھیں پھانسی دی جانی چاہیے ۔’وطن عزیز کے اندر ملزم کے وکیل کا یہ مطالبہ اگر درست ہوسکتا ہے تو باہر کیسے غلط ہوجائے گا کیونکہ دونوں مقامات پر فوجیوں پر جاسوسی کا الزام ہے لیکن جب قوم پرستی کی عینک لگا کر معاملہ کو دیکھا جائے تو منطق کے بجائے جذبات کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں