رنگ بازیاں
شیئر کریں
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا
تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر کی جاتی تھیں۔اب دنیا بدل گئی ہے، آئی ایم ایف کی شرطیں کھلے بندوں زیر بحث رہتی ہیں۔ ملکی معیشت قرضوں پر، زندگی کی سانسوں کی طرح انحصار کرنے لگی ہے۔ اگر آئی ایم ایف قرض نہ دے توایسا لگتا ہے کہ ہماری سانسیں اکھڑ جائیں گی، زندگی ہار جائیں گے۔ ناخوب کیسے خوب بن گیا۔ قومی ضمیر اچانک کیسے تبدیل ہو گیا؟
ملک میں مہنگائی کا ایک طوفان برپا ہے۔ روٹی کے بھاؤ بھی تاؤ دلانے لگے ہیں۔ ادویات بیش قیمت ہونے کے بعد بھی دستیاب نہیں۔ صنعتی ادارے بند ہونے لگے ہیں۔ بینک کسی مالیاتی نظم میں نہیں۔ اسٹیٹ بینک کے احکامات ہوا میں اڑ جاتے ہیں۔ ڈالر کے سرکاری نرخ پر بینک بھی عمل پیرا ہو نے کو تیار نہیں۔ڈالر کی قیمت میں سرکاری اور غیر سرکاری فرق ہوش ربا ہے۔ ڈالر تو کجا حکومت ایک ریڑھی والے کے پاس موجود پھلوں کے سرکاری نرخ پر عمل درآمد کرنے کی قوت سے محروم ہے۔ دودھ سے لے کر گوشت تک اور آٹے سے لے کر چینی تک اشیائے ضروریہ میں ایسی کوئی شے نہیں جس پر حکومت کی گرفت دکھائی دے۔ حکومت یوں تو پاکستانی طالبان اور دہشت گردوں کو دھمکیاں دیتی اینٹھتی رہتی ہے، مگر عملاً ریڑھی اور ڈیری والوں کے آگے بھی ڈھیر ہے۔ پاکستانی معیشت کا یہ حال اُن کلیوں سے ہی ہوا ہے، جس پر اب ہم عمل کرنے جا رہے ہیں۔ عارضی حل ڈھونڈنے اور وقتی دباؤ ٹالنے کی روش ہماری قومی پہچان ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضوں کے پروگرام بھی اسی نوع کا معمول بن چکی ہیں۔ تجربات نے متعدد بار ثابت کیا کہ عالمی امدادی ادارے تیسری دنیا اور ترقی پزیر معیشتوں کو خوب صورت مگر برباد کر دینے والے جالوں سے جکڑتے اور لوٹتے ہیں۔ مگر کاریگری یہ ہے کہ عالمی طور پر ہر نوعی امداد ان کی ضمانتوں پر انحصار کرتی ہے۔ چنانچہ عالمی امدادی اداروں پر انحصار کرنے والے ترقی پزیر ممالک خود کشی کے راستے پر گامزن رہتے ہیں۔ آئی ایم ایف پر انحصار کرتے کرتے ہچکولے کھاتی، ڈوبتی مرتی، ہلتی ڈولتی ہماری قومی معیشت کا یہ حال ہو چکا ہے کہ اسے زندہ رکھنے کے لیے تجویز کردہ نسخے بھی دراصل موت کے بند دروازے ہی ثابت ہو رہے ہیں۔ پاکستان امداد کے ایک منحوس گرداب میں گھر چکا ہے۔ جہاں مہنگائی پر قابو پانے اور کچھ معاشی سرگرمیوں کے لیے بھی امداد ضروری ہے، مگر امداد اپنی شرائط پوری کرتے ہوئے مزید مہنگائی اور معاشی سرگرمیوں کو مزید مشکل بنا دینے والی ثابت ہوتی ہے۔
آئی ایم ایف نے پاکستان کو اگلی امداد کے لیے جن شرائط کے ساتھ کسا ہے، وہ لاگو ہوئیں تو پہلے ہی مہنگائی سے دوچار عوام کو مزید مہنگائی کا ایک نیا طوفان آ لے گا۔ خطرہ یہ ہے کہ یہ عوام کو کسی بڑے احتجاج اور ردِعمل کے طوفان سے آشنا کر سکتا ہے۔ کمزور اور عوامی سندِ اعتبار سے محروم موجودہ حکومت کے لیے اس میں خطرات ہی خطرات ہیں۔ اس لیے وہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں جاتے ہوئی ڈر رہی ہے۔ دوسری طرف اگر اس پروگرام کو گلے کا طوق بنا کر نہ ڈالا گیا تو معاشی سرگرمیاں ماند پڑنے کا اندیشہ ہے۔ گویا آئی ایم ایف کی شرائظ مان لیں تو معیشت کا دھچکا ، سیاست میں لگے گا۔ یہ سیاسی حکومت کو گوارا نہیں، جو عمران خان کے چیلنج سے نمٹتے ہوئے پاگلوں کی طرح حرکتیں کرنے لگی ہے۔ اگر آئی ایم ایف کی شرائط نہیں مانی جاتیں تو ملک دیوالیہ ہونے کے حقیقی خطرے کا سامنا کرے گا۔ فارسی محاورے کے مطابق جائے ماندن نہ پائے رفتن کی صورتِ حال ہے۔ بقول شاعر
جائے ماندن ہمیں حاصل ہے نہ پائے رفتن
کچھ مصیبت سی مصیبت ہے خدا خیر کرے
پاکستان کے لیے فوری مسئلہ یہ ہے کہ اگر آئی ایم ایف کی شرائط قبول نہیں کرتے تو پاکستان پر واجب ادائیاں کسی صورت ممکن نہیں ہو سکیں گی۔ پاکستان کو فروری اور مارچ میں تقریباً سات ارب ڈالر کی ادائیاں کرنا ہیں، جبکہ ایمرٹس بینک کو 60 کروڑ اور دبئی اسلامک بینک کو 42 کروڑ ڈالر کی ادائیوں کے بعد اب قومی خزانے میں کم و بیش ساڑھے چار ارب ڈالر ہی باقی رہ گئے ہیں۔ چنانچہ آئی ایم ایف کی خطرناک شرطیں قبول کرکے ہی ہم اس قابل ہو سکیں گے کہ قرضے لے کر فروری اور مارچ میں واجب الادا قرضے اتار سکیں۔ ذرا اس امداد کی ہولناکی کا اندازا لگائیں کہ اگر یہ امداد حاصل نہیں کی جاتیں تو پھر پاکستان فروری یا مارچ میں یقینی دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دوچار ہو جائے گا۔ اگر آئی ایم ایف کی امداد قبول کی جاتی ہے تو پھر وہ شرائط ماننا پڑیں گی جو اس امداد کے ساتھ لاگو کرنا ہونگیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرتے ہوئے سب سے پہلا اثر پاکستانی روپے کی گرواٹ کی شکل میں ہوگا۔ پاکستانی روپے کی قدر میں تقریباً دس سے پندرہ فیصد کمی یقینی طور پر واقع ہو گی۔ جس کا لازمی اثر مہنگائی کے نئے طوفان کی شکل میں ظاہر ہوگا۔ عوام ابھی بھی مہنگائی کے لپیٹے میں ہیں، تب کیا ہوگا؟ ادارہ شماریات کے مطابق ابھی مہنگائی کی شرح پچیس سے تیس فیصد ہے، روپے کی قدر میں دس سے پندرہ فیصد کمی کے بعد یہ شرح لازمی طور پر چالیس سے پینتالیس فیصد تک جا پہنچے گی۔ چالیس سے پینتالیس فیصد مہنگائی کے بعد منڈی میں اشیاء کی جو حالت ہو گی، اس کا اندازا لگانا کچھ دشوار نہیں۔ گوشت، آٹا، چینی اور دیگر ضروری اشیائے صرف میں سے ہر چیز اس وقت اتنی مہنگی ہے کہ عوامی سطح پر ردِ عمل کی لہریں پیدا ہو رہی ہیں۔ امداد کے بعد جب یہ مہنگائی مزید بڑھے گی، تب حالات موجودہ کمزور حکومت کے قابو میں نہیں آ سکیں گے۔
پی ڈی ایم کی موجودہ حکومت ان حالات میں بھی بازیگری اور رنگ بازی کے سوا کچھ نہیں کر رہی۔ اس کے پاس کوئی نسخہ کیمیا نہیں۔ اسحاق ڈار کے حوالے سے جعلی بھروسے کی مصنوعی فضاء تحلیل ہو چکی ہے۔ حکومت کی حالت یہ ہے کہ آئی ایم ایف کو شرائط پر یقین دلاتے ہوئے بھی اپنی مکروہ سیاست سے باز نہیں آ رہی۔
وزیراعظم ہاؤس سے جمعہ کے روز ایک سرکاری اعلامیہ جاری ہوا۔ جس میں دعویٰ کیا گیا کہ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے شہباز شریف کو فون کیا۔ آئی ایم ایف کی مقامی نمائندہ ایستھر پیریز نے فوراً ہی وضاحت کی کہ وزیراعظم شہباز شریف کو فون خود اُن کی ہی درخواست پر کیا گیا۔ یہ ہماری حکومت کا حال ہے۔ معیشت کے نقصان میں بے عزتی کا سود بھی الگ ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ بدترین سیاسی حالات میں ہچکیاں لیتی معیشت اور دیوالیہ ہونے کے خطرے میں بھی وزیراعظم ہاؤس سیاسی رنگ بازیوں میں مصروف ہے۔ مصیبت پر مصیبت میں بھی حکومت کی سیاسی بازیگری کا جنون ختم نہیں ہورہا۔ قرضے ادا کرنے کے لیے قرضے لینے کی خجالت آمیز درخواستوں میں بھی سیاسی حرکتیں کم نہیں ہو رہیں۔ مہنگائی کے ستائے عوام کو مزید مہنگائی میں مبتلا کرنے کے باوجود بھی سیاسی اٹھکیلیوں کا شوق ختم نہیں ہو رہا۔ کسی کی سمجھ میں یہ نہیں آ رہا کہ پہلے معاشی گرداب سے نکلیں یا پھر سیاسی گھمن گھیریوں اور حکومتی عتاب سے باہر آئیں۔
٭٭٭٭