میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ڈونلڈ ٹرمپ کو مس فائر کااحساس ہونے لگا،مصالحت کی کوششیں شروع

ڈونلڈ ٹرمپ کو مس فائر کااحساس ہونے لگا،مصالحت کی کوششیں شروع

منتظم
منگل, ۹ جنوری ۲۰۱۸

شیئر کریں

منگل21ربیع الثانی1439ھ 09 جنوری 2018ء

امریکا کی طرف سے انتباہ اور امداد کی معطلی سے متعلق بیانات کے تناظر میں پاکستانی وزیرخارجہ خواجہ آصف نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکا کے ساتھ ان کے ملک کا کوئی اتحاد نہیں ہے۔موقر امریکی اخبار ‘وال اسٹریٹ جرنل’ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے پاکستان کی امداد کی معطلی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اتحادیوں کے ساتھ یہ رویہ نہیں ہوتا جو ان کے بقول امریکا نے اپنایا۔۔خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ 2001 میں افغانستان میں امریکی فوجی مہم کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر کے پاکستان نے بڑی غلطی کی تھی جس کا نتیجہ ان کے بقول پاکستان میں دہشت گرد حملوں کی صورت میں سامنے آیا۔
امریکا کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی نہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے پاکستان کے لیے امداد معطل کرنے کے اعلان پر بجا طورپر پاکستان کی طرف سے شدید ناپسندیدگی کا اظہار سامنے آ چکا ہے، ڈونلڈٹرمپ کے الزامات کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے اپنے ہاں دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائیاں کیں لیکن اسلام آباد افغان جنگ کو اپنی سرزمین پر لڑنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔وزیرخارجہ کا یہ استدلال اپنی جگہ درست ہے کہ اس وقت پاکستان میں امن ہے لیکن یہ بات واضح ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ کی منطق کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان اگر افغان عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں شروع کرتا ہے تو یہ جنگ دوبارہ پاکستان کی سرزمین ہی پر لڑی جائے گی۔پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت متعدد بار یہ واضح کر چکی ہے کہ اس کی سرزمین پر دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود نہیں ہیںاور تمام دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائیاں کر کے سیکورٹی فورسز نے عسکریت پسندوں کے منظم ٹھکانوں اور نیٹ ورکس کو تباہ کر دیا ہے۔دوسری جانب امریکا کا اصرار ہے کہ پاکستان اپنے ہاں موجود ان عسکریت پسندوں خصوصاً حقانی نیٹ ورک کے خلاف فیصلہ کن کارروائی نہیں کر رہا جو افغانستان میں تباہ کن حملوں میں ملوث ہیں۔یہ بات واضح ہے کہ امریکی رہنمائوں کے حالیہ بیانات کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہو چلے ہیں اور دونوں جانب کے آزاد خیال حلقے تناؤ میں کمی کے لیے رابطوں کے فروغ کے ساتھ بات چیت سے معاملات کو حل کرنے پر زور دے رہے ہیں ۔اسی اثنا میں امریکی وزیردفاع جم میٹس کا یہ بیان بھی سامنے آیا ہے کہ پاکستان کے عسکری امداد کی معطلی کے باوجود پینٹاگان پاکستان کی فوجی قیادت سے رابطے بحال رکھنے پر کام کر رہا ہے پینٹاگان میں صحافیوں سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ امریکا پاکستان کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے اور جب وہ دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی دیکھے گا تو یہ امداد بحال بھی کر دی جائے گی ۔ امریکی وزیردفاع جم میٹس کے اس بیان سے ظاہرہوتاہے کہ خود امریکا پاکستان کے ساتھ تعلقات قطعی منقطع نہیں کرنا چاہتا بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان مخالف بیان کامطلب پاکستان کو دھمکا کر ڈومور پر آمادہ کرنا تھا ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے معاونین کو غالباً پاکستان کی جانب سے اتنے شدید ردعمل کا اندازہ نہیں تھا ،لیکن پاکستان کی حکومت اور عسکری قیادت کے ساتھ ہی حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی یہاں تک کہ امریکا کے لیے نرم گوشہ رکھنے کے حوالے سے مشہور سیاسی جماعتوں اور رہنمائوں کی جانب سے سامنے آنے والے بیانات نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھوں کے طوطے اڑادیئے اور انھیں محسوس ہوگیاکہ انھوں نے مس فائر کیاہے جو الٹا ان ہی پر آگرا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اب ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیردفاع جم میٹس جیسے وزرا کو صلح صفائی کرانے اور معاملے کی شدت کم کرانے کی ذمہ داری سونپی ہے اور جم میٹس کا متذکرہ بیان اسی منصوبے کی ایک کڑی کے طورپر دیکھا جانا چاہئے، پاکستان کے حوالے سے امریکی صدر کایہ یوٹرن لینے کارویہ نیا نہیں ہے ، حال ہی میں وہ شمالی کوریا کے حوالے سے بھی اسی طرح کے رویے کا اظہار کر چکے ہیں پہلے انھوں نے تند وتیز بیانات کے ذریعے شمالی کوریا کے رہنمائوں کومغلوب کرنے کی کوشش کی لیکن جب وہ اپنی جگہ سے ہلنے کوتیار نہیں ہوئے تو ان سے ملاقات اور بات چیت تک پر آمادگی ظاہر کردیا ، اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ امریکا کی طرف سے پاکستان سے متعلق سخت بیانات اور امداد معطل کرنے کے بیانات پر پاکستان کے جوابی بیانات کا سلسلہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں مزید بڑھتے ہوئے تناؤ کی عکاسی کرتا ہے۔ایک امریکی عہدیدار کی طرف سے پاکستان کے لیے امداد کی مد میں تقریباً دو ارب ڈالر روکنے پر غور کیے جانے کے بیان پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بجاطورپر صاف صاف کہہ دیا کہ ان کے نزدیک ایسے بیانات مبہم ہیں۔برطانوی اخبار ‘دی گارڈین’ کو دیے گئے تازہ انٹرویو میں وزیراعظم نے کھلے لفظوں میں کہاکہ دو ارب ڈالر کے برعکس پاکستان کو اس رقم کا محض بہت کم حصہ ہی ملا ہے ۔انھوں نے وضاحت کرکے بتایا کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران ہر برس ایک کروڑ ڈالر سے بھی کم امداد ملی جو کہ ان کے بقول بہت ہی معمولی ہے، لہذا جب وہ 20 کروڑ، پچاس کروڑ اور 90 کروڑ امداد کی کٹوتی کی خبریں پڑھتے ہیں تو انھیں نہیں معلوم کہ یہ کون سی امداد کی باتیں ہو رہی ہیں۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے اس بیان کی تصدیق ا مریکا کے ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی کے اعدادوشمار سے بھی ہوتی ہے جس کے مطابق 2016میں پاکستان کو 77 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کی معاونت فراہم کی گئی جس کا 35 فیصد عسکری اعانت پر مبنی تھا۔ٹرمپ انتظامیہ بھارت کے اکسانے پر ا ب اس بات پر اصرار کررہی ہے کہ پاکستان خاص طور پر دہشت گرد گروپ حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرے جو افغانستان میںتباہ کن حملوں میں ملوث ہے۔ جبکہ پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت بہت پہلے یہ کہہ چکی ہے کہ ملک میں دہشت گردوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائیاں کرتے ہوئے عسکریت پسندوں کے تمام ٹھکانوں کو تباہ کر دیا گیا ہے اور اگر امریکا کے پاس کوئی معلومات ہیں تو اس کا پاکستان کے ساتھ تبادلہ کیا جائے، پاکستانی فورسز ایسی اطلاعات پر فوری کارروائی کریں گی۔ وزیر خارجہ خواجہ آصفنے گزشتہ روز بھی یہ واضح کیاتھا کہ پاکستان میں حقانی نیٹ ورک سمیت کسی بھی دہشت گرد گروپ کی کوئی منظم موجودگی نہیں ہے ہم نے ان کی تمام منظم پناہ گاہیںاور ان کے زیر قبضہ تمام علاقوں میں ان کا مکمل خاتمہ کردیاہے، انھوں نے امریکی حکام کو یہ دعوت بھی تھی کہ وہ آئیں اور دیکھیںوہ خود تسلیم کرلیں گے کہ پاکستان میں اب کسی دہشت گرد روپ کا منظم وجود نہیں ہے ۔جہاں تک امریکا کی جانب سے پاکستان کی امداد روکنے کی دھمکی کاتعلق ہے تو پاکستان کی فوج نے گزشتہ روزیہ وعدہ کیا ہے کہ امریکی امداد بند ہونے سے سیکورٹی کے باہمی تعاون اور علاقائی امن کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔ تاہم، اس سے پاکستان کے انسداد دہشت گردی کے عزم پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔میجر جنرل آصف غفور نے ’وائس آف امریکا‘ کو بتایا کہ ’’پاکستان پیسوں کی خاطر نہیں، بلکہ امن کے لیے لڑ رہا ہے‘‘۔میجر جنرل غفور نے اس کے ساتھ ہی یہ بھی واضح کردیا کہ امریکا کی جانب سے’’سکیورٹی اعانت کی بندش سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا پاکستان کا عزم ہرگز متاثر نہیں ہوگا۔ فوج کے ترجمان نے کہا کہ ’’ہماری نیت پر شک کرنا دیرپہ امن اور استحکام کی جانب یکساں مقاصد کے حصول کے لیے اچھا نہیں ہے۔ پاکستان اپنے اور امن کے بہترین مفاد میں اپنی مخلصانہ کوششیں جاری رکھے گا‘‘۔
اس صورت حال کاتقاضہ ہے کہ پاکستان کی حکومت اورحزب اختلاف دونوں کو اب اس حوالے سے غیر ضروری بیان بازی سے گریز کرنا چاہئے،اور اس حوالے سے اٹھنے والی گرد میں مزید اضافہ کرنے کے بجائے گرد بیٹھنے کا انتظار کیا جائے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں