میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پنو اور نجر پر 'ہنگامہ ہے کیوں برپا'؟

پنو اور نجر پر 'ہنگامہ ہے کیوں برپا'؟

ویب ڈیسک
جمعه, ۸ دسمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

ڈاکٹر سلیم خان

قومی و صوبائی انتخابات کا بھوت جب اعصاب پر سوار ہوجاتا ہے تو عالمی مسائل نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں ۔ بلڈوزر اور انکاونٹر پر فخر کرنے والے ہندوستانی عوام حیران ہیں کہ گرُپتونت کا تو بال بھی بیکا نہیں ہوا پھر بھی امریکی انتظامیہ اس قدرپریشان کیوں ہے ؟ کچھ لوگ الٹا امریکہ پر الزام بھی لگاتے نظر آرہے ہیں کہ آخر اس نے ایسے دہشت گردوں کو پناہ کیوں دے رکھی ہے ؟ امریکی انتظامیہ ان کو شدت پسند کہنے کے بجائے دہشت گرد قرار دے کر کیفرِ کردار تک کیوں نہیں پہنچاتا؟ مودی جی کے ان بھگتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے چہیتے پردھان سیوک سے یہ سوالات کر کے ان سے مطالبہ کریں کہ اس معاملے میں لیپا پوتی کرنے کے بجائے لال آنکھیں دِکھا کرصاف کہہ دیں ‘جو ہماری جانب آنکھ اٹھا کر دیکھے گا ہم اس کی آنکھ پھوڑ دیں گے ‘۔ گر پتونت کے خلاف سازش پر ہونے والے مباحثوں میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ اگر امریکہ شام کی سرزمین پر ایرانی جنرل کو ہلاک کرسکتاہے ہو تو ہندوستان امریکہ میں کیوں نہیں کر سکتا ؟
اس طرح کا سوال کرنے والے ایسا سمجھتے ہیں ہندوستان کو بھی وہ حق حاصل ہے کہ جہاں چاہے ، جس کو چاہے موت کے گھاٹ اتار دیں۔ ہم وشو گرو ہیں اور ہمارے یہاں ایک یُگ پوروش سنگھاسن پر براجمان ہے اس لیے ہم جو چاہے کرسکتے ہیں ۔ اس دلیل کو اگر تسلیم کرلیا جائے تو پھریہ سوال جنم لے گا کہ ہندوستان کی سرزمین پر کیا امریکہ یا چین جیسے کسی ملک کو بھی اس کے مخالف یا ناقد کو دہشت گرد قرار دے کر قتل کرنے کا حق دے دیاجائے گا ؟ اس طرح کے احمقانہ دلائل دینے والوں کو سوچنا چاہیے کہ دوسروں کی غلطیوں کو جواز بناکر دنیا بھر میں ماورائے قانون قتل و غارتگری کا بازار گرم کرنا درست ہے یا اس کی روک تھام ہونی چاہیے ؟ یہ اس سال کی دوسری بڑی واردات ہے ۔ اس سے قبل 18 جون 2023 کوکینیڈا کے برٹش کولمبیا میں گرودوارہ نانک صاحب کی پارکنگ میں دو نامعلوم نقاب پوش افراد نے گرودوارے کے صدر ہردیپ سنگھ نِجرپر گولیاں برسا کر انہیں قتل کردیا تھا۔ کینیڈا کی سکھ برادری نے اسے ‘سیاسی قتل’ قرار دے کر ٹورنٹو اور وینکوور سمیت متعدد شہروں میں اس کے خلاف مظاہرے کیے تھے ۔جولائی کے اوائل میں لندن، میلبورن اور سین فرانسسکو میں بھی اس قتل کے خلاف زبردست احتجاج دیکھنے میں آیا ۔
ہر دیپ سنگھ نِجر کی ہلاکت کے تین ماہ بعد کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے اس قتل میں ہندوستان کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کرکے ہندوستانی سفارتکار کو رخصت کر دیا تو یہ معاملہ بین الاقوامی حیثیت اختیار کر گیا۔ اس وقت جسٹن ٹروڈو نے کہا تھا کہ ‘کینیڈا کی سرزمین پر کینیڈین شہری کے قتل میں غیر ملکی حکومت کا ملوث ہونا ناقابل قبول اور ہماری خودمختاری کی خلاف ورزی ہے ۔ یہ ان بنیادی اصولوں کے منافی ہے جن کے ذریعے آزاد، کھلے اور جمہوری معاشرے اپنے آپ کو چلاتے ہیں۔’حکومتِ ہند نے ہردیپ سنگھ نجر کو2020 میں خالصتان کی تحریک چلانے کے الزام میں ‘دہشت گرد’ قرار دے کر اس کی گرفتاری کے لیے دس لاکھ روپے کا انعام رقم رکھا تھا۔اس نے ان الزامات کو مسترد کرکے کہا تھا کہ وہ اپنی روزی روٹی کمانے کے لیے کینیڈا میں پلمبنگ کا کام کرتاہے لیکن لوگ انھیں مذہبی رہنما مانتے ہیں۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے امریکہ میں اقوام متحدہ کے ا ندر بھی کہا تھا کہ ان کے پاس اس بات پر یقین کرنے کی ‘قابل اعتماد وجوہات’ ہیں کہ کینیڈین سرزمین پر سکھ علیحدگی پسند شہری کے قتل میں ہندوستانی جاسوس ملوث ہے ۔اس معاملے میں سفارتی تناؤ بڑھا تو ہندوستان نے کینیڈا سے ‘دہشتگردوں’ اور خالصتان تحریک میں شامل رہنماؤں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کردیا جبکہ کینیڈا میں انڈین سفارتخانے نے کینیڈین شہریوں کو ہندوستان کے لیے ویزوں کے اجرا کا عمل معطل کر دیا تھا۔ہندوستانی دفتر خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے اس وقت کہا تھا کہ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے جی 20 اجلاس کے دوران جب وزیر اعظم نریندر مودی سے اس معاملے پر بات کی تو ان کے مطالبات کو مسترد کر دیاگیا۔ باغچی نے الزام لگایا تھا کہ ‘انھیں(خالصتانیوں) کو کینیڈا میں محفوظ پناہ گاہ حاصل ہے ۔ جن پر دہشتگردی کے الزامات ہیں انھیں محفوظ پناہ نہیں ملنی چاہیے ۔’ باغچی نے کینیڈا سے مطالبہ کیا تھا خالصتان کے حامیوں کو مقدمہ چلانے کے لیے واپس ہندوستان بھیجا جائے یا وہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے ‘۔ ہندوستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے یہ بھی کہا تھا کہ کینیڈا نے تاحال نجر کے قتل سے متعلق کوئی تفصیلات شیئر نہیں کی ہیں۔
امریکہ کو پتہ تھا کہ اگر اس نے گرپتونت سنگھ پنوں پر بھی مکمل تیاری سے قبل کوئی الزام لگادیا تو اس کا بھی کینیڈا جیسا حشر ہوگااس لیے وہ شواہد جمع کرتا رہا اور عدالت میں فرد جرم کے طور معاملے کو اس طرح پیش کیا کہ انکار کی گنجائش ہی ختم ہوگئی۔ ویسے کینیڈا کی طرح امریکہ بہادر کے ساتھ بدسلوکی حکومتِ ہند کومہنگی پڑ سکتی ہے ۔ امریکی محکمہ انصاف کی طرف سے عدالت میں جو فردِ جرم داخل کی گئی ہے اس میں ہندوستانی اہلکار کا نام تو نہیں بتایا گیا مگر قتل کا بندوبست کرنے کے لیے استعمال کیے جانے ہندوستانی شہری نکھل گپتا کو گرفتارکرنے کا انتظام کرلیا گیا ہے ۔وفاقی استغاثہ نے الزام لگایا کہ ہندوستانی اہلکارنے گپتا کو قتل کے معاوضے ایک لاکھ ڈالر میں سے 15 ہزار ڈالر، پیشگی بھی ادا کر دیے تھے ۔
کینیڈا کے معاملے صاف طور پر انکار کی روش اختیارکرنے والے وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے ایک بیان میں کہا کہ امریکی حکومت نے جو معلومات شیئر کی ہیں ان کو ہندوستان سنجیدگی سے لیتا ہے کیونکہ وہ قومی سلامتی کے مفادات پر بھی اثر ڈالتے ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ متعلقہ محکمے پہلے سے ہی اس معاملے کی جانچ کر رہے ہیں۔ یہ دعویٰ اگر درست ہے تو وزارتِ خارجہ امریکی انتظامیہ کو اسے عدلیہ میں لانے سے روکنے میں کیوں ناکام رہی؟ اور کینیڈا کو پھر ایک حکومتِ ہند پر چڑھائی کا موقع کیوں فراہم کردیا؟ اس طرح کے بے شمار سوالات حکومتِ ہند کی سفارتی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔حزب اختلاف نے اس پر بجاطور پر حکومت پر سخت تنقید کی ہے ۔قطر میں فی الحال نو ہندوستانی سپاہیوں پر جاسوسی کا مقدمہ چل رہا ہے ۔ حکومت ہند ان کو واپس لانے کی کوشش کررہی ہے مگر نکھل گپتا نے اس الزام کو مزید مضبوط کردیا ہے ۔ قطر سے جس طرح ہندوستانی فوجیوں کو ہندوستان لانے کی کوشش کی جارہی ہے کیا یہی معاملہ نکھل گپتا یا اس کے
ساتھ کام کرنے والے سی آر پی ایف کے افسر کے ساتھ ہوگا؟( اگر اسے گرفتار کرلیا جاتا ہے )۔ سچ تو یہ ہے اس معاملے نے عالمی سطح پر بہت سارے مسائل کھڑے کردیئے ہیں ۔
وزیراعظم نریندر مودی جب بھی غیر ملکی دورے پر جاتے ہیں دہشت گردی پر ضرور اظہارِ خیال کرتے ہیں ۔ گرپتونت کے قتل کی سازش کو جس وقت روبہ عمل لایا جارہا تھا مودی جی امریکہ دورے پر تھے ۔ ان کو نو سالوں میں پہلی بار اسٹیٹ گیسٹ کے طور مدعو کیا گیا تھا اور اس موقع پر انہیں امریکی کانگریس یعنی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو خطاب کرنے کے اعزاز سے بھی نوازہ گیا۔ ایسے میں یہ نا ممکن تھا کہ پی ایم مودی دہشت گردی جیسے پسندیدہ موضوع پر اظہار خیال نہیں کرتے ۔ انہوں نے ے موقع کا فائدہ اٹھا کر پاکستان اور چین کا نام لیے بغیر دونوں ملکوں پر تنقید کی۔ پی ایم مودی نے اس دوران 11/26 اور 11/9 کو بھی یاد کیا نیز یوکرین جنگ پر بھی تشویش ظاہر کی۔ مودی جی نے زور دے کر کہا کہ یہ جنگ کا دور نہیں ہے ، بلکہ بات چیت اور سفارت کاری کا دور ہے ۔ ہمیں خون بہانے اور لوگوں کی تکلیف کو مل کر روکنا چاہیے ۔ اس سازش کے طشت ازبام ہونے کے بعد ان الفاظ نے اپنے معنیٰ کھو دیے ہیں ۔
امریکہ کو خوش کرنے کی خاطر وزیر اعظم نے چین اور پاکستان کے حوالے سے کہا تھا کہ محاذ آرائی کے سیاہ بادل ہند پیسیفک خطے پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں۔ خطے میں استحکام ہماری مشترکہ فکر ہے ۔ ہم ایک ساتھ خوشی چاہتے ہیں۔ یہ تو اتفاق ہے کہ جنوب ایشیا میں چین کے بڑھتے ہوئے رسوخ کوکم کرنے کے لیے امریکہ کو ہندوستان کی ضرورت ہے ورنہ کب کا ہنگامہ ہوگیا ہوتا لیکن اس کے ذریعہ چین ہندوستان پر دباو ڈال کر بلیک میل کرے گا۔ وزیر اعظم مودی نے امریکی ایوانِ پارلیمان کے اندر 9/11 اور ممبئی میں 26/11 کے حملوں کے بعد بھی بنیاد پرستی اور دہشت گردی کو پوری دنیا کے لیے ایک سنگین خطرہ بتایا تھا ۔ سوال یہ ہے کہ کینیڈا، امریکہ اور دنیا کے دیگر ممالک میں قتل و
غارتگری کا جو کھیل چل رہا ہے وہ کیا ہے ؟ نکھل گپتا کے توسط سے انجام دی جانے والی اس سازش کی ناکامی نے وزیر اعظم نریندر مودی کے عالمی دہشت گردی کے خاتمہ کا راگ پر بھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے کیونکہ اس میں حکومت کے اہلکار کا ملوث ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اب جب بھی یہ راگ الاپاجائے گا لوگ اس واقعہ کو یاد دلا کر انہیں شرمندہ کریں گے ۔ اس سرکاری نادانی سے گر پتونت کا تو کچھ نہیں بگڑا مگر حکومت ِ ہند کی ساکھ ملیا میٹ ہوگئی اور ایک بہت بڑ اسفارتی نقصان ہوگیا جس کی بھرپائی متحدہ عرب امارات کے تحفہ تحائف اور انعام و اکرام سے نہیں ہوسکتی اور نہ ریاستی انتخاب میں کامیابی اس کا نعم البدل ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں