سفر یاد۔۔۔ قسط24
شیئر کریں
شاہد اے خان
جنادریہ میں شب و روز اکتا دینے والی یکسانیت کے ساتھ گزر رہے تھے۔ ہم تقریبا روز ہی اپنے مصری منیجر کے پاس جا کر اسے اپنی تنہائی اور بے چارگی کی کہانی سناتے تھے، ہم کہتے تھے جناب کسی پاکستانی کے بغیر ہم کیمپ میں نہیں رہ سکتے خدا کے لیے ہمارے کسی ہم وطن کو یہاں بلوائیے۔ ایک دن مصری منیجر نے ہمیں بلایا اور بتایا کہ کسی سائٹ سے ایک پاکستانی کا یہاں تبادلہ ہوا ہے وہ کل پہنچ جائے گا ،اب تو آپ خوش ہیں نا؟ ہم نے کہا ہماری تو دل کی مراد بر آئی ہے جناب ۔مصری منیجر نے کہا، ہاں کچھ دن تو آپ کے سکون سے گزر جائیں گے ۔ہم نے کہا کچھ روز کیوں ؟ جس پر منیجر صاحب نے بتایا کہ یہاں کالج میں ویلڈنگ کا کچھ کام ہے اس لیے ایک دوسری سائٹ سے ایک ویلڈر کو بلایا گیا ہے ،کام زیادہ نہیں ہے۔ ہم نے کہا چلو ٹھیک ہے کچھ دن ہی سہی کسی ہم وطن کا ساتھ تو ہوگا ،کیمپ میں کچھ وقت اچھا گزر جائے گا۔ ہم خوشی خوشی جلال صاحب کے پاس پہنچ گئے اور انہیں بھی اپنی اس خوشی میں شریک کیا ، جلال صاحب بھی خوش دلی کے ساتھ ہماری خوشی میں شریک ہوگئے۔ ہم نے جلال صاحب سے کہا جیسے ہی وہ پاکستانی کالج پہنچے وہ ہمیں خبر کردیں ،چھٹی کے بعد کیمپ واپس پہنچ کر بھی ہم اس خوشی میں سرشار تھے ، اپنی خوشی میں ہم نے گلزار کو بھی شریک کیا بلکہ گلزار کو اس خوشی میں چاکلیٹ بھی کھلائے۔ گلزار نے کہا بھائی اب تو آپ ہم غریبوں کو بھول ہی جائیں گے ۔ہم نے کہا گلزار تم ہمارے اس جنادریہ جدید میں پہلے دوست ہو تم کوہم کیسے بھول سکتے ہیں ، تمہاری طرف تو آنا جانا لگا ہی رہے گا۔ اب ہم نے اگلے دن کا انتظار کرنا شروع کردیا۔ اگلے روز ہم ایک مینٹی نینس سروے کے لیے کالج کے اسٹیڈیم گئے ہوئے تھے، وہاں کام زیادہ تھا اس لیے دو بجے کے قریب واپسی ہوئی ، ہم آتے ہی جلال صاحب کی طرف بھاگے بھاگے گئے۔ جلال صاحب نے ہمیں بتایا کہ وہ پاکستانی ویلڈر آچکاہے لیکن ابھی کہیں سائٹ پر کام کر رہا ہے ،اس کی واپسی تین بجے ہوگی۔ جلال صاحب نے اس کا نام عبدالرحمان بتایا۔ جلال صاحب کی بھی عبدالرحمان سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ ہم دونوں کو تین بجنے کا انتظار تھا۔ تین بجتے ہی ہم اور جلال صاحب ایڈمن دفتر پہنچ گئے ،جہاں تمام کارکنان کو واپسی کی حاضری لگانے کے لیے آنا پڑتا تھا، ہماری نگاہیں کسی نئے چہرے کو تلاش کر رہی تھیں۔اتنے میں ایک بزرگ صورت پختون بابا نظر آئے ، شاید یہ عبدالرحمان ہیں ،ہم نے جلال صاحب سے کہا۔جلال صاحب نے جواب دیا ،ابھی پوچھ لیتے ہیں ۔جلال صاحب ان صاحب کے پاس پہنچ گئے ،ہم بھی پیچھے پیچھے پہنچے۔ جلال صاحب اور ہم نے انہیں سلام کیا ۔ جواب میں وعلیکم السلام کے ساتھ خان صاحب نے مصافحے کیلیے ہاتھ آگے بڑھا یا لیکن ہم نے گرم جوشی سے معانقہ فرمایا۔ ہم نے پوچھا آپ ہی عبدالرحمان ہیں ۔جواب اثبات میں ملا، ہم نے اپنا اور جلال صاحب کا تعارف کروایا۔
عبدالرحمان خان صاحب سے حال احوال لینے کے بعد جلال صاحب اپنی وین میں جا بیٹھے۔ ہماری بس نکل رہی تھی ، خان صاحب نے ہم سے بس میں بیٹھنے کے لیے کہا۔ ہم نے کہا چھوڑیں خان صاحب کیمپ قریب ہی ہے پید ل چلے جائیں گے۔ خان صاحب نے کوئی جواب نہیں دیا ،اتنے میں بس روانہ ہو گئی۔ ہم خان صاحب کو لیکر پیدل کیمپ کی جانب روانہ ہوئے، ہمیں تیز تیز چلنے کی عادت ہے جبکہ خان صاحب سست رفتاری کے ساتھ قدم آگے بڑھا رہے تھے۔ کئی بار ہم نے چاہا کہ وہ اپنی رفتار تیز کریں ،خان صاحب کی رفتار تو تیز نہ ہوئی ہمیں ہی اپنی رفتار ان سے ہم آہنگ کرنی پڑی۔ اس دوران خان صاحب سے گپ شپ بھی ہوتی رہی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ صوابی کے رہنے والے ہیں، تلاش معاش کے سلسلے میں دس سال پہلے کراچی چلے گئے تھے جہاں چھ سات سال رہے، اس دوران مزدوری بھی کی اور ٹیکسی بھی چلائی۔ کچھ پیسے جمع ہو گئے تو واپس صوابی چلے گئے جہاں اپنا چھوٹا موٹا کاروبار شروع کردیا، کاروبار چل پڑا تو وہ بیٹوں کے حوالے کر کے آمدنی میں مزید اضافے کے لیے ایجنٹ کو پیسے دے کر اس کمپنی میں ملازمت حاصل کی اور سعودی عرب آگئے۔ یہاں کراچی میں کسی زمانے میں سیکھا ہوا ویلڈنگ کا ہنر کام آیا اور ویلڈر بن گئے۔ آہستہ آہستہ چلتے اور گپ شپ کرتے پندرہ منٹ کا فاصلہ آدھے گھنٹے میں طے کرکے ہم کیمپ پہنچے۔ ہم نے خان صاحب کواپنے کیبن میں شفٹ کرلیا۔ انہوں نے کیبن میں پہنچنے کے فوری بعد کہا دوپہر کھانا نہیں کھایا اس لیے جو ہے جلدی سے کھانے کے لیے دے دو۔ ہم نے کہا خان صاحب ہمارے پاس تو اس وقت کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے ویسے بھی ہم خود کھانا نہیں پکاتے ۔صبح جوس اور بن پر گزارا ہے، دوپہر کو پھل کھا لیتے ہیں اور رات کا کھانا کھانے ایک دوست کے پاس جاتے ہیں وہ پکاتا ہے اور ہم دونوں کھا لیتے ہیں۔ خان صاحب نے کھانے کے لیے زیادہ اصرار کیا تو ہم نے اچھے میزبان کی طرح ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے جنادریہ بازار کا رخ کیا۔ وہاں سے بن اور جوس لیکر ہانپتے کانپتے کیمپ پہنچے اور خان صاحب کی خدمت میں پیش کردیا۔ خان صاحب نے کہا ان سے کہاں گزارا ہوگا ،روٹی سالن کا انتظام ہوجاتا تو اچھا تھا۔ ہم نے کہا آپ یہ تو کھائیں ، رات کو روٹی سالن کا انتظام بھی ہو جائے گا۔ یہ کہہ کر ہم کچھ دیر سستانے کے لیے لیٹ گئے۔۔۔ جاری ہے
٭٭