میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اسرائیل جنگی جرائم کا مرتکب

اسرائیل جنگی جرائم کا مرتکب

ویب ڈیسک
بدھ, ۸ نومبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

ریاض احمدچودھری

امریکا اور یورپی ممالک کے ایما پر غزہ پرناجائز ریاست اسرائیل کی جارحیت کا سلسلہ جاری ہے۔ غزہ میں اسرائیل کی جانب سے عام شہریوں کا قتل بھی سفاکیت ہے، اسرائیلی حملے کے نتیجے میں 2.2 ملین فلسطینی محصور ہیں جہاں غذا، پانی، ادویات، بجلی اور ایندھن تک میسر نہیں جبکہ گھروں، پناہ گاہوں، عبادتگاہوں اورہسپتالوں پر بمباری کی جارہی ہے جو ناقابل قبول ہے۔ غزہ کی پٹی کے ہسپتالوں کی گنجائش سے زیادہ زخمیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، الاقصی شہداء ہسپتال کے ڈائریکٹر نے کہا ہم زخمیوں کے درمیان تفریق کے اصول پر کام کر رہے ہیں، پہلے سنگین زخمیوں کا علاج کیا جائے اور دیگر کو چھوڑ دیا جارہا ہے، ہسپتال اب زخمیوں کو معمولی سی خدمات بھی فراہم کرنے کے قابل نہیں رہا۔اسرائیلی فوج کی جانب سے لبنان پر بھی فضائی حملہ کیا گیا جس سے 8سے 14سال کی عمروں کے تین بچے شہید ہوگئے۔ نہتے فلسطینیوں پر اڑھائی ہزار حملے کئے جن کے نتیجے میں مزید280 فلسطینی جام شہادت نوش کرگئے۔ وحشیانہ بمباری سے شمالی غزہ کھنڈر بن گیا۔اسرائیل غزہ شہر کے شمال، مغرب اور جنوب مشرق کو نشانہ بناتے ہو ئے بڑے حملے کررہاہے۔اسرائیل نے بے گھر فلسطینیوں کی پناہ گاہوں کو بھی نہ بخشا اور تین پناہ گزین کیمپوں پر بھی بم برسا دیئے۔ اسرائیلی بمباری سے مجموعی طور پر شہید فلسطینیوں کی تعداد10ہزارسے زائد ہو گئی ہے ،جن میں 5ہزارسے زائد بچے اور 2 ہزار 550 خواتین شامل ہیں جبکہ 32 ہزار سے زائد زخمی ہیں۔
اقوام متحدہ کے گروپوں سمیت 18 عالمی تنظیموں نے اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑائی میں انسانی بنیادوں پر فوری جنگ بندی’ کا مطالبہ کیا ہے۔چین اور عرب امارات کی درخواست پر سلا متی کونسل کا بند کمرہ اجلاس کسی بھی وقت متوقع ہے۔ابتک جنگ بندی اور جنگ میں وقفے کی چار قراردادیں ویٹو کی جاچکی ہیں۔اس صورتحال میں چند مسلم ممالک انفرادی طورپر فلسطین میں قیام امن کیلئے کوششیں کر رہے ہیں۔ پاکستان سے بھی جمعیت علما اسلام (جے یو آئی ) ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن قطر اور ترکی گئے ہیں اور قطر میں حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ اور سابق سربراہ خالد مشعل سمیت حماس کے دیگر قائدین سے اہم ملاقاتیں کیں۔ امیرجماعت اسلامی جناب سراج الحق صاحب دوحہ قطر گئے جہاں انہوں نے حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ سابق سربراہ خالد مشعل اور مرکزی قیادت سے غزہ کی صورتحال پر بات چیت کی ۔اس سے قبل جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان غزہ کے فلسطینیوں کی امداد کیلئے مصر پہنچے جہاں انہوں نے مصر کے سربراہ ڈاکٹر رامی سے ملاقات میں پیشکش کی کہ پاکستان سے طب کے ہر شعبے کے ڈاکٹر غزہ آنے کیلئے تیار ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ الخدمت فاؤنڈیشن بھی غزہ کے متاثرین کیلئے ہرطرح کی امداد فراہم کر رہی ہے۔ لیاقت بلوچ، نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان نے فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کی سخت مذمت اور حماس کی حمایت کرتے ہوئے مسئلے کا واحد حل فلسطینی ریاست کے قیام کو قرار دیا اور مطالبہ کیا ہے کہ عالمی برادری فلسطینیوں کی نسل کشی کو فوری طور پر روکنے اور مسلم حکمرانوں سے اسرائیلی سفارتی و تجارتی بائیکاٹ کرے۔ فلسطین کا بچہ بچہ اس پر یقین رکھتا ہے کہ ارض انبیاء مسلمانوں کی ہے اور وہ بیت المقدس کی آزادی کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھتے ہیں۔اسرائیل نے غاصبانہ قبضہ کرکے پوری دنیا کا امن تباہ کردیا ہے۔جنگ بندی کے لیے سلامتی کونسل میں امریکہ و دیگر ممالک کا قرارداد کو ویٹو کرنا انکی رسوائی کا سبب بن گیا ہے۔ تمام مسلم ممالک صہیونی ریاست کے سیاسی سماجی و معاشی بائیکاٹ کے لیے قومی غیرت کا مظاہرہ کریں۔سوشل میڈیا سے ابلاغ میں امت کی وحدت، امن، اسلام دشمن قوتوں کے خلاف اپنا کردار ادا کریں۔
اسرائیلی وزیراعظم نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ برقرار رکھتے ہوئے بین الاقوامی مطالبات کے باوجود غزہ میں جنگ بندی سے انکار کردیااور کہا ہمارے یرغمالیوں کی رہائی تک جنگ بندی نہیں ہوگی، حماس نے ہمارے خلاف جنگ اپنے ساتھیوں کی رہائی نہیں بلکہ ہمیں ختم کرنے کیلئے شروع کی ، یہ حماس کی بڑی غلطی تھی، غلطی کے بعد حماس کا خاتمہ کر دیں گے، ہم مل کر ہی جیتیں گے۔غاصب صہیونیوں کی شدت پسندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انتہا پسند اوزما یہودیت پارٹی سے تعلق رکھنے والے اسرائیلی وزیر نے کہا ہے کہ غزہ جنگ جیتنے کے لیے اسرائیلی فوج کے پاس کئی آپشنز ہیں جن میں آخری اور حتمی اقدام ایٹم بم گرانا ہے۔ ایک ریڈیو انٹرویو میں اسرائیلی وزیر نے انسانی ہمدردی کے تحت بھیجے گئے امدادی سامان کو فلسطینی ضرورت مندوں تک پہنچانے سے بھی صاف انکار کردیا۔ سخت گیر یہودی تنظیم کے متعصب وزیر نے غزہ سے فلسطینیوں کو بے دخل اور ان کے گھروں کو تباہ کرنے سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ فلسطینی آئرلینڈ جائیں یا کسی صحرا کا رخ کریں۔ یہ فیصلہ انھیں خود کرنا ہے۔
نہایت افسوس ناک اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ مسلم ممالک کے حکمران یہ سب کچھ نہ صرف خاموش تماشائی بن کر دیکھ رہے ہیں بلکہ ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جو امریکا کی محبت کی وجہ سے غاصب اسرائیلی ریاست کے ہی ہاتھ مضبوط کررہے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے جن ممالک نے اپنے ہاں امریکی میزائل سسٹم نصب کرا کے ناجائز ریاست اسرائیل کے دفاع کو یقینی بنانے کی کوشش کی وہ کسی بھی طور خود کو مسلم امہ کا نمائندہ نہیں کہہ سکتے۔ آج اگر چند مسلم ممالک اکٹھے ہو کر اس جنگ کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کا اعلان کردیں تو امریکا اور برطانیہ سمیت اس جنگ میں غاصب صہیونی ریاست کی حمایت کرنے والے ممالک اس قابل نہیں رہیں گے کہ وہ اس سلسلے کو مزید طول دے سکیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں