میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کسی سیاسی جماعت نے معاشی پلان پیش نہیں کیا!

کسی سیاسی جماعت نے معاشی پلان پیش نہیں کیا!

جرات ڈیسک
بدھ, ۸ نومبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

سپریم کورٹ کے حکم پر عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد گومگو کی ایک صورت حال ختم ہوچکی ہے،انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد اگرچہ الیکشن کمشنر اور نگراں وزیراعظم دونوں نے اس بات پر زور دیاہے کہ تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت ہوگی اور بیلٹ پیپر پر بلے کانشان بھی موجود ہوگا،تاہم اس کے باوجود اس وقت صورت حال یہ ہے کہ تحریک انصاف کو جلسہ کرنے حتیٰ کہ اُس کا جھنڈا لہرانے کی اجازت نہیں،یہ سب کس قانون کے تحت ہو رہا ہے کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ تاہم اگر کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے مرحلے پر ایسے امیدواروں کی پکڑ دھکڑ کی گئی تو شفافیت پر بہت سے سوالات اٹھیں گے۔یہ وہ مرحلہ ہو گا جب الیکشن کمیشن کا اصل امتحان شروع ہو گا۔اگر انتخابات کی شفافیت پر پولنگ سے پہلے ہی شکوک و شبہات اُبھرتے ہیں تو وہ اس سارے عمل کو بے وقعت بنا دیں گے۔اب الیکشن کمیشن پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہو چکی ہے۔ انتخابات کا پُرامن انعقاد اور اُس کے ساتھ شفافیت اور غیرجانبداری کو یقینی بنانا، ایک بہت اہم فریضہ ہے۔ آئین میں اسی لیے الیکشن کمیشن کو الیکشن کے دوران بہت زیادہ اختیارات دیے گئے ہیں تاکہ وہ آزادانہ انتخابات کرا سکے۔ اگر ان اختیارات کے باوجود الیکشن کمیشن کسی مصلحت یا مجبوری کا شکار ہوتا ہے تو اسے آئین سے روگردانی ہی تصور کیا جائے گا۔پاکستان میں انتخابات کی تاریخ کچھ مثالی نہیں رہی،بلکہ حقیقت یہ ہے ہم ابھی تک انتخابات کا کوئی فول پروف نظام ہی وضع نہیں کر سکے،ہر بار نتائج پر دھاندلی کے الزامات لگتے ہیں جن کا کبھی تسلی بخش جواب نہیں ملتا،اسی وجہ سے ہر نئی حکومت کے خلاف پہلے دن سے سیاسی تحریک شروع ہو جاتی ہے اور جس سیاسی استحکام کیلئے انتخابات کرائے جاتے ہیں وہ حاصل نہیں ہوتا۔یہاں یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ کیا صرف الیکشن کمیشن انتخابات کو شفاف بنا سکتا ہے؟ الیکشن کمیشن کے پاس اپنی کوئی فورس نہیں،وہ ریاستی اداروں سے عملہ مستعار لیتا ہے،گزشتہ روز ہی چیف الیکشن کمشنر کا یہ بیان سامنے آیا ہے کہ ہم سے شفاف اور آزادانہ انتخابات کی توقع بھی کی جاتی ہے مگر مداخلت بھی کرتے ہیں اگر ریاستی ادارے اور الیکشن کمیشن ایک پیج پر نہ ہوں تو کیا انتخابات کا پُرامن اور غیر جانبدارانہ انعقاد ممکن ہے؟ اس کا جواب اثبات میں دینا مشکل ہے۔سب سے بڑی ذمہ داری سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے وہ سیاسی ا سپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کریں،اپنے لئے جو میدان مانگیں دوسری جماعتوں کیلئے بھی اُس کا مطالبہ کریں۔ ایک شفاف چناؤ نہ صرف منتخب ہونے والی حکومت کو مضبوط کر سکتا ہے،بلکہ کمزور جمہوریت سے بھی نجات دِلا کر ایک مضبوط و مستحکم جمہوریت کی بنیاد فراہم کر سکتا ہے،اس بار سب سے اہم سوال لیول پلیئنگ فیلڈ کا سامنے آیا ہے۔یہ تاثر ابھر رہا ہے خاص جماعت کے لئے ریاستی اداروں کا نرم گوشہ ہے اور باقی کے لئے دروازے بند کیے جا رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف کے پاس عمران خان سمیت تمام جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کا بیانیہ آگے بڑھانے کا اچھا موقع ہے جو انہیں عوام نے دیا ہے۔ اس وقت تک کی صورت حال یہ ہے کہ الیکشن کمشنر کی اس یقین دہانی کے باوجود کہ الیکشن صاف اور شفاف ہوں گے اور اس کی نگرانی کیلئے غیرملکی مبصرین بلوائے جائیں گے۔ اب بھی یہ کہا جارہا ہے کہ انتخابات کی تاریخ میں التوا کی وجہ یہ تھی کہ سیاسی انجینئرنگ مکمل نہیں ہوئی تھی اور جب تک سیاسی انجینئرنگ مکمل نہ ہو اس وقت تک انتخابات کی تاریخ کا اعلان ممکن نہیں تھا۔ اس سوال یہ ہے کیا چیف الیکشن کمشنر اس بارے میں کوئی قدم اٹھاسکتے ہیں کہ انتخابات میں سیاسی انجینئرنگ پر قدغن عائد کی جائے اور آزادانہ فضا میں انتخاب ممکن ہوسکے۔
پاکستان میں اس وقت سیاسی اور اقتصادی بحران اپنے عروج پر ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ سیاسی نظام کی بنیادوں کو مستحکم نہیں کیا گیا۔ پاکستان کی سیاست اس وقت دوراہے پر ہے کہ ملک کا مستقبل آمرانہ حکومت ہے یا آئین کی پابند قانون کی حکمرانی۔ اس لیے چیف الیکشن کمشنر پر سب کی نظریں ہیں کہ وہ شفاف انتخابات کی ضمانت قوم کو دیں۔نگران حکومت نے ایک بار پھر یقین دہانی کرائی ہے کہ مُلک میں انتخابات الیکشن کمیشن کے طے شدہ شیڈول کے مطابق ہوں گے، تمام سیاسی جماعتوں کو انتخاب میں حصہ لینے کے یکساں مواقع میسر ہوں گے اورکسی جماعت کو انتخابی عمل سے باہر نہیں رکھا جائے گا۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ اب تک کسی سیاسی جماعت پر کوئی ایسی پابندی عائد نہیں ہے کہ وہ انتخابی عمل میں حصہ نہیں لے سکتی۔ یوں بھی کسی سیاسی جماعت پر آئینی و قانونی وجوہات کے بغیر پابندی عائد کرنا غیر جمہوری عمل ہے، ایسا کرنے سے عوام میں مایوسی پھیلتی ہے اور حکومت و ریاست کے خلاف ہر جگہ شدید عوامی رد عمل دیکھنے میں آتا ہے جوجمہوری اقدار اور قومی یکجہتی کے لیے نقصان دہ ہے۔اس وقت عوام کو معاشی مشکلات کا سامنا ہے اور ان کا مطالبہ بھی یہی ہے کہ ایسی قیادت بر سر اقتدار آئے جو مہنگائی کو کم کر سکے اور قومی معیشت کو مستحکم کرے لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ معلوم یہ ہوتاہے کہ کسی سیاسی جماعت کے پاس کوئی ایسا قابل ذکر معاشی پلان موجود نہیں جس پر عوام کا اعتماد قائم ہو۔اس لئے یہ کہا جاسکتاہے کہ سب سے کڑا وقت سیاست اور سیاست دانوں پر آیا ہوا ہے اور انہیں عوام میں جاتے ہوئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ایک طرف تحریک انصاف کے سیاستدان ہیں جنہیں 4لوگ بلاتے ہوئے بھی یہ ڈر رہتا ہے کہ دھر لیے جائیں گے اور دوسری طرف باقی جماعتوں کے رہنما ہیں جو عوام کو آج کل کے حالات میں کوئی تسلی بھی نہیں دے سکتے۔اب حالت یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں لیول پلیئنگ فیلڈ مطالبہ کررہی ہیں۔لاہور میں مسلم لیگ(ن) کے جلسے کے اگلے دن تحریک انصاف نے انتظامیہ کی اجازت سے کاہنہ میں ورکرز کنونشن رکھا تو اُسے پولیس کی بھاری نفری نے ناکام بنا دیا۔یہ کوئی دِل خوش کن بات نہیں۔سیاست اور جمہوریت پر عوام کا اعتماد بڑی اہمیت رکھتا ہے۔اگر یہ اعتماد اُٹھ جائے تو مسائل جنم لیتے ہیں۔کم از کم تمام سیاسی قوتوں کو اس نکتے پر متحد ہو جانا چاہئے کہ ملک میں شفاف انتخابات عوام کا حق ہیں، یہ حق انہیں آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر صورت ملنا چاہئے۔یہ دور سیاست دانوں کیلئے بے بسی کا دور ہے۔بڑے بڑے تمن خان سیاست دان آج کل لوگوں کو ایسے ملتے ہیں جیسے وہ غریب و مسکین ہوں۔اول تو اُن کے ڈیروں پر لوگ جاتے نہیں،کیونکہ رقعے جاری کرنے کی جو ٹیکسال انہوں نے اقتدار کے دنوں میں کھول رکھی ہوئی تھی،وہ آج کل بند ہے نگران حکمرانوں کے مزے ہیں انہیں کسی کو جوابدہی کا ڈر ہے اور نہ کسی عوامی نمائندے کا اُن پر دباؤ ہے جو مرضی کریں آزاد ہیں۔ اِس وقت صورت حال اس لئے خاصی گمبھیر ہے کہ عمران خان کی مقبولیت تو موجود ہے، مگر اُن کی جماعت کو فعال نہیں ہونے دیاجارہا ہے۔اکثر رہنما گرفتاری کے خوف سے زیر زمین چلے گئے ہیں جب تک مقابلے کی فضاء نہ ہو اُس وقت سیاست میں رونق بھی نہیں لگتی۔بلاول زرداری بطور چیئرمین کئی بار اپنے رہنماؤں کو ہدایت دے چکے ہیں کہ وہ انتخابی مہم چلائیں،عوام سے رابطے بڑھائیں۔تحریک انصاف کے کس بل نکال دیے گئے ہیں،چھوٹا موٹا ورکر کنونشن بھی منعقد کرنے کی اُسے اجازت نہیں۔بس ایک مسلم لیگ(ن) ہے جس کے وارے نیارے ہیں۔اُسے جلسے جلوسوں کی کھلی چھوٹ ہے تاہم یہ بھی سچ ہے کہ اُسے فی الوقت وہ عوامی پزیرائی حاصل نہیں جو ایسی سرگرمیوں کے لئے ضروری ہوتی ہے۔دیکھا جائے تو ملک اِس وقت بے یقینی کے حصار میں ہے۔سیاسی آزادی بھی جمہوریت اور معاشرے کا حسن ہوتی ہے اس پر جمود طاری ہو جائے تو اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اِس وقت ملک میں مارشل لاء نہیں ہے آئین بحال ہے اور وہ آزادی اظہار کی اجازت دیتا ہے۔جب سے نواز شریف آئے ہیں انہیں مقدمات میں ریلیف مل رہا ہے اور یہ تاثر پھیلا ہے کہ اگلی باری پھر نواز شریف کو مل رہی ہے۔مسلم لیگ(ن) کے سیاست دانوں میں جان پڑ گئی ہے،لیکن اس کے باوجود وہ لوگوں کے مسائل حل کرانے میں بے بس نظر آتے ہیں اب تک کسی سیاسی جماعت نے کوئی ایسا منشور پیش نہیں کیا کہ جس میں سرمایہ، صنعت، تجارت اور دیگر جائیداد کے حوالے سے اصلاحات کا ذکر ہو، زرعی زمینوں کی حد ملکیت کا تعین ہو، پانی و بجلی کے مسائل پر کوئی موقف اختیار کیا گیا ہو، کوئی ایسی آئینی اصلاحات متعارف کرنے پہ بھی زور نہیں دیا جس کے نتیجے میں دہشت گردی اور فرقہ واریت کا خاتمہ ہو سکے، دفاعی بجٹ اور ترقیاتی و فلاحی بجٹ میں توازن رکھنے کا کوئی فارمولہ سامنے نہیں رکھا۔ یوں لگتا ہے جیسے تمام سیاسی جماعتیں بس ”اسٹیٹس کو ”کی حامی ہیں، وہ کسی طور پہ بھی جاگیرداری اور سرمایہ داری نظام کے منفی اثرات کا سد باب نہیں چاہتی ہیں۔ وہ صرف نمائشی تبدیلی کے نعروں سے عوام کو خوش کرتی رہی ہیں اور اب بھی شاید اسی پر اکتفا کیا ہوا ہے۔ یہی جماعتیں محض تبدیلی کے نعرے کی آڑ میں جہاں عوام کو سبز باغ دکھا رہی ہیں وہاں سیاست میں روشن خیالی اور لبرل ازم کا بھی نقصان کر رہی ہیں۔ ٹیلی ویژن کے ٹاک شوز میں اور اپنے سیاسی جلسوں میں مہنگائی سے پریشان عوام کی بے بسی کا رونا روتے ہوئے تمام جماعتوں کے نمائندے معیشت کو اپنی پہلی، دوسر ی اور تیسری ترجیح قرار دیتے ہیں لیکن ان کی جانب سے کوئی ٹھوس منصوبہ پیش نہیں کیا جاتا انہیں معیشت کی بحالی اور استحکام کا ایسا منصوبہ متعارف کرانا چاہئے جس کے فوائد عام آدمی تک بھی لازمی اور کم سے کم وقت میں پہنچنے چاہیے۔ ماضی میں یہی دیکھا گیا ہے کہ ان کی منصوبہ بندی سے اس سرمایہ دارانہ نظام میں معاشی ترقی کے فوائد مُلک میں صرف دو چار فیصد افراد تک محدود چلی آئی ہے اور ملک کی بیشتر آبادی کے شب و روز میں کوئی نمایاں بہتری نہیں آئی۔ معیشت کے تجزیہ نگاروں اور ماہرین کی ایک اکثریت ہر روز معاشی حالات کو بہتر کرنے کے نسخے بتا رہی ہوتی ہے مگر بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں پر لازم ہے کہ وہ ایک ایسی اقتصادی حکمت عملی تشکیل پیش کریں جو مخصوص طبقات کی بجائے پوری قوم کی خوشحالی کا ذریعہ بنے۔ مُلک میں موجود قدرتی وسائل کو بروئے کار لانے میں ہر حکومت کو نہ جانے کیا مشکل پیش آتی ہے کہ وہ اس سے استفادہ کرنے سے محروم چلے آ رہے ہیں۔ انہی وسائل کی مناسبت سے متعلقہ علاقوں میں صنعتیں لگا کر مقامی آبادی کیلئے روزگار اور خوشحالی کے راستے کھولے جاسکتے ہیں، تھرپارکر میں اعلیٰ اقسام کے گرینائٹ کے پہاڑ ہیں جس کی صنعت اور بر آمد سے مستفید ہوا جا سکتا ہے۔ اسی طرح بلوچستان کے معدنی وسائل معیشت کی بہتری کا سبب بن سکتے ہیں۔ مُلک بھر کے دیہی علاقوں میں زراعت سے وابستہ صنعتوں کو فروغ دیا جا سکتا
ہے۔ توانائی کے مسائل حل طلب ہیں مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ یہاں پیشہ ور ماہرین کو ہی خود مختاری دی جائے۔ غیر ضروری اور غیر پیداواری اخراجات میں کمی کے ساتھ ساتھ اداروں میں اوپر سے نیچے تک شفافیت کا عمل یقینی بنایاجائے۔ امن و امان کی صورتحال میں بہتری بڑی ضروری ہے اور یہ بھی نئی حکومت کی ترجیح ہونی چاہیے۔ دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث قوتوں، بیرونی ایجنٹوں اور خالص جرائم پیشہ افراد سے نمٹنے کیلئے تو طاقت اور قانون کی عملداری ناگزیر ہے۔ سیاسی اسباب سے پیدا ہونے والی عدم برداشت کی صورتحال بات چیت کے ذریعے بہتر ہو سکتی ہے۔لوگ اپنی اپنی رائے کا اظہار اور پیشگوئیاں کر رہے ہوتے ہیں، کوئی ایک جماعت کو فاتح قرار دیتا ہے تو کوئی کسی دوسری جماعت کا نام لیتا ہے کہ یہ سب سے بڑا مینڈیٹ لے کر آئیں گے لیکن اہل فکر کا کہنا ہے کہ اتحاد کے بغیر کسی کی حکومت نہیں بن سکتی اور ماضی کی طرح اتحادی دور چلتا ہی رہے گا۔ ان کی رائے بجا مگر اب مُلکی معیشت اور امن و امان کی صورتحال اُسی طرز پہ حکومت کرنے اور اُسی طریقہ سے بہتر ہر گز نہیں ہو سکتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں