میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
گفتار میں کردار میں اللہ کی بُرہان

گفتار میں کردار میں اللہ کی بُرہان

منتظم
منگل, ۸ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

عکرمہ عکراش
یہ آج سے تقریباً دو سو ¾ سوا دو سو سال قبل انیسویں صدی کے اواخر یا بیسویں صدی کے اوائل کی بات ہے کہ کشمیری برہمنوں کے ایک خاندان نے اسلام قبول کر لیا تھا جس کی وجہ سے اسی وقت سے اس خاندان میں تقویٰ و طہارت اور خشیت و للہیت کا رنگ غالب ہوگیا تھا۔اسلام قبول کرنے کے بعد کشمیری بر ہمنوں کایہ نومسلم خاندان کشمیر سے ہجرت کرکے غیر منقسم (برطانوی) ہندوستان کے مشہور صوبہ ¾ صوبہ پنجاب کے مشہور شہر سیالکوٹ میں آکر آباد ہوگیاتھا۔ اس نو مسلم خاندان میں ایک شخص شیخ نور محمدنامی بھی تھے جو بڑے دین دار اور اللہ والے تھے ،ان کے گھرمیں 09 نومبر1877 جمعہ کے روز ایک بچے نے جنم لیا جس کا نام انہوںمحمد اقبال رکھا۔ محمد اقبال جب تھوڑے بڑے ہوئے اور سن شعور کو پہنچے تو ان کے والد شیخ نور محمد انہیں دینی تعلیم دلوانے مولانا غلام حسن کے پاس چھوڑ آئے ، جہاں وہ محلہ شوالہ کی مسجد میں لوگوں کو قرآن مجید کا درس دیا کرتے تھے ، محمد اقبال نے بھی یہاں آکر قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرنا شروع کردی ، چنانچہ یہیں سے علامہ اقبال کی ابتدائی تعلیم کا آغاز ہوتا ہے ۔
علامہ اقبال نے جب قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرلی تو ان کے والد شیخ نور محمد نے انہیں اپنے گھر کے قریب ہی کوچہ میر حسام الدین میں واقع میر حسن کے مکتب میں داخل کروادیا ، علامہ اقبال نے یہاں رہ کر تقریباً تین سال تک اردو ، فارسی اور عربی ادب کی تعلیم حاصل کی۔
اس کے بعدعلامہ اقبال نے انگریزی تعلیم اپنے شہر کے اسکول میں حاصل کرنا شروع کردی اور وہاں کا امتحان امتیازی درجہ میں پاس کرکے آپ نے شہر کے کالج میں داخلہ لے لیا ، کچھ عرصہ وہاں پڑھتے رہے ، پھر اس کے بعد سیالکوٹ سے لاہور جاکر گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا اور فلسفہ ، عربی اور انگریزی مضامین اختیار کرکے B.A کی سند حاصل کی ۔ اس کے بعد مارچ 1899 ءمیں فلسفہ میں M.A کا امتحان دیا اور پورے صوبہ¿ پنجاب میں اوّل پوزیشن حاصل کی ، اس دوران شاعری کا سلسلہ بھی چلتا رہا مگر آپ مشاعروں میں نہ جاتے تھے۔
نومبر 1899 ءکی ایک شام کچھ بے تکلف ہم مکتب احباب علامہ اقبال کو حکیم امین الدین کے مکان پر ایک محفل مشاعرہ میں کھینچ لے گئے ، بڑے بڑے سکہ بند اساتذہ شاگردوں کی ایک کثیر تعداد سمیت وہاں شریک تھے ، سننے والوں کا بھی ایک ہجوم تھا ۔ اقبال چوں کہ بالکل نئے تھے اس لیے ان کا نام مبتدیوں کے دور میں پکارا گیا ، غزل پڑھنی شروع کی ، جب اس شعر پر پہنچے کہ
موتی سمجھ کر شانِ کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے
تو اچھے اچھے اساتذہ ورطہ¿ حیرت میں ڈوب گئے اور ان پر سکتہ طاری ہوگیا، وہ بے اختیارعلامہ اقبال کو داد دینے پر مجبور ہوگئے، یہیں سے بحیثیت شاعر علامہ اقبال کی شہرت کا آغاز ہوا اور مشاعروں میں بہ اصرار بلائے جانے لگے۔
1899 ءمیں M.A پاس کرنے کے بعد علامہ اقبال 13 مئی 1899 کو تاریخ ، فلسفہ اور سیاسیات کے لیکچرارکی حیثیت سے اورینٹل کالج لاہور میں مقرر کیے گئے جہاں وہ تقریباً چار سال تک رہے۔ اورینٹل کالج لاہور میں مدت ملازمت ختم ہونے کے بعد 1903 میں اسسٹنٹ پروفیسر انگریزی کی حیثیت سے گورنمنٹ کالج میں علامہ ا قبال کا تقرر ہوا جہاں پہلے آ پ انگریزی کے استاذ مقرر ہوئے اور بعد میں فلسفے کے شعبے میں چلے گئے ، لیکن اس دوران آپ نے طلبہ و اساتذہ میں اپنے علم و فضل کا لوہا منوالیا اور محکمہ¿ تعلیم کے ذمہ داروں کا اعتماد اپنے ہاتھ میں لے لیا ۔
25 دسمبر 1905 ءکو علامہ اقبال اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونی ورسٹی ٹرینٹی کالج میں داخلہ لے لیا اور فلسفہ و معاشیات کی ڈگریاں حاصل کرکے تین سال تک وہیں لندن میں مقیم رہے ، اس مدت میں پروفیسر آرنلڈ کی عدم موجودگی میں لندن یونی ورسٹی کے شعبہ¿ عربی میں تدریسی فرائض بھی سر انجام دیتے رہے اور میونخ جاکر فلسفہ میں ڈاکٹریٹ بھی حاصل کی اور پھر لندن آکر قانون کا اعلیٰ امتحان پاس کرکے کامرس کالج لندن میں استادمقرر ہوگئے ، اس طرح سیاسیات و اقتصادیات سمیت مختلف علوم میں امتیازی مہارت پیدا کرنے کے بعد 1908 میں اپنے وطن کی طرف واپس لوٹے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ پڑھانے لگے۔علامہ اقبال نے یہ کل امتیازات محض 32,33سال کی عمر ہی میں حاصل کرلیے تھے۔
1910 میں طرابلس اور بلقان کی جنگیں چھڑگئیں جن سے علامہ اقبال سخت متاثر ہوئے اور ان کے قلبی احساسات ٹوٹ ٹوٹ سے گئے ، جس کی وجہ سے ان کے دل میں مغربی تہذیب اور یورپی سامراج کی شدید نفرتوں نے جنم لیا ، ان کے رنج و غم نے علامہ اقبال سے وہ پرجوش نظمیں کہلوائیں جو مسلمانوں کے غم میں گرم آنسو اور مغرب کے خلاف تیر و نشتر تھیں۔
1914 میں جب یورپ میں جنگ عظیم کا لاوا پھوٹا اور عالم اسلام جن حالات و حوادث سے دوچار ہوا ،انہوں نے علامہ اقبال کو ایک درد مند شاعر ، ایک مجاہد داعی ، ایک فلسفی حکیم اور دیدہ ور مبصر بنا دیا جو حالات سے مستقبل کا اندازہ لگالیتے اور حقائق و عبر کو نظم کا لباس پہنادیتے تھے۔
1930 میں الٰہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کے خطبہ صدارت میں علامہ اقبال نے پہلی بار پاکستان کا نظریہ پیش کیا اور پنجاب کے مجلس قانون ساز کے ممبر منتخب ہوئے اور 1931-1932 کی گول میز کانفرنس میں مسلمانوں نمائندگی کی ۔ 1932 ءمیں شاہ نادر خان شہید ؒ کی دعوت پر اُس علمی وفد کے ساتھ افغانستان گئے جس میں سر راس مسعود اور علامہ سید سلیمان ندویؒ بھی شریک تھے ۔ بادشاہ نے بہت اخلاص کے ساتھ راز دارانہ گفتگو کی اور اپنا دل کھول کر رکھ دیا ، دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کافی دیر تک محو گفتگو رہے اور روتے رہے ۔
علامہ اقبال محض ایک شاعر اور ادیب ہی نہیں بلکہ ایک سچے اور پکے عاشق رسول ﷺبھی تھے۔
مبلغ اسلام حضرت مولانا ڈاکٹر طارق جمیل صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں کہ دنیا میں تین زبانیں ایسی ہیں جن سے ادب کی خوش بو مہکتی ہے ¾عربی، فارسی اور اردو ۔میں نے ان تینوں ادبی زبانوں سمیت انگلش کے شعراءکا بھی مطالعہ کیا ہے ، انگلش کے شعراءکا تو میں دعویٰ نہیں کرتا لیکن بقیہ تینوں ادبی زبانوں عربی ، فارسی اور اردو کے شعراءکے حق میں میںیہ دعویٰ ضرورکرتا ہوں کہ ان کا کوئی بھی شاعر (ماسوائے صحابہ کرام کے) علامہ اقبال کی ہمسری نہیں کرسکا جس نے قرآن اور حدیث کی صحیح معنوں میں ترجمانی کرکے ظلمت و جہالت کی چادر تانے ابدی نیند سونے والی مسلم قوم کو اپنا شاعرانہ نغمہ سناکرغفلت و لاپروائی کی نیند سے بیدار کیا اور انہیں یہ پیغام دیا کہ
نہیں تیرا نشیمن ”قصر سلطانی“ کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
اقبال نے اپنے جن اشعار میں قرآن مجید کی ترجمانی کی ہے اس کی چند ایک مثالیں آپ بھی ملاحظہ فرمایئے : قرآن مجید میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مدح و تعریف کرتے ہوئے ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴾ ا¿شداءعل¸ٰ الکفار رحماءبینھم (ا¿لفتح) ﴿ ترجمہ :صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کافروں کے مقابلہ میں سخت اور آپس میں ایک دوسرے پر انتہائی مہربان اور نرم دل ہیں ۔علامہ اقبال نے اس کی ترجمانی یوں کی ہے
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مو¿من
ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴾ وف¸ ا¿نفسکم ا¿فلا تبصرون ( ا¿لذاریات)
ترجمہ: اور خود تمہارے اندر (بھی کئی نشانیاں ہیں) سو کیا تم کو سوجھتا نہیں؟ (ترجمہ ازشیخ الہند)
علامہ اقبال نے اس کی ترجمانی یوں کی ہے
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
علامہ اقبال عرصہ دراز سے لاحق مختلف قسم کے امراض و عوارض کا مقابلہ کرتے رہے لیکن آخر کار ان کی ہمت نے جواب دے دیا اور وہ صاحب فِراش ہوگئے ، لیکن اس زمانہ میں بھی شعر گوئی ، تصانیف اور ملاقاتوں کا سلسلہ برابر جاری رہا ، حتیٰ کہ اپنی وفات سے تقریباً دس (۰۱) منٹ پہلے علامہ اقبال نے یہ اشعار کہے:
سرودے رفتہ باز آید کہ ناید
نسیمے از حجاز آید کہ ناید
سر آمد روزگار ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ ناید
(معلوم نہیں کہ گزرا ہوا سرود دوبارہ آتا ہے یا نہیں ؟حجاز سے بادِنسیم دوبارہ آتی ہے یا نہیں ؟اس فقیر کی زندگی کا آخری وقت آن پہنچا،کیا خبرکوئی دوسرا دانائے راز آتا ہے یا نہیں ؟)
اور پھر اپنی شاعرانہ زندگی کا مشک کی مہر لگا یہ آخری شعر کہا:
نشانِ ”مرد مو¿من “ باتو گویم
چو مرگ آید تبسم بر لب اوست
(ایمان دار شخص کی ایک نشانی میں تجھے بتاتا ہوں ، جب اس کے مرنے کا وقت آتا ہے تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہوتی ہے)
اور بالآخر عالم اسلام کا یہ عظیم اسلامی فلاسفر ، شاعر مشرق ،مصورِ پاکستان ،مفکر اسلام، عاشق رسول ، دنیائے علم و ادب کی چہچہاتی بلبل ، قرآن و حدیث کا بہترین ترجمان ، برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کا عظیم رہنما ، کروڑوں لوگوں کے دلوں پر حکومت کرنے والا، بھٹکے ہوئے آہوو¿ں کا رخ سوئے حرم پھیرنے والا مسلمانوں کایہ نامور عبقری سپوت تقسیم ہند سے پہلے ہی اپنی حیات مستعار کی 6دھائیاں دیکھنے کے بعد بعمر 60 سال مو¿رخہ21 اپریل 1938 کو اپنا شاعرانہ نغمہ گاتے گاتے ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا اور بادشاہی مسجد لاہور کے متصل اپنے ہی ایک مقبرہ ” مزارِ اقبال“میں ابدی نیند سوکر محو استراحت ہوگیا
بڑے غور سے سن رہا تھا زمانہ
ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں