میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
فرشتہ موت کا چُھوتا ہے گو بدن تیرا

فرشتہ موت کا چُھوتا ہے گو بدن تیرا

ویب ڈیسک
بدھ, ۸ ستمبر ۲۰۲۱

شیئر کریں

جسم تو فانی ہوتے ہیں، مگر فضائلِ انسانی کو موت نہیں چھوتی۔ سید علی گیلانی کوبھی کہاں چھوئے گی؟بھارت یوں قائم نہ رہے گا، مگر مردِ حریت، عزیمت کا استعارہ بن کر جیتے رہیں گے۔ دنیا اُن کی کہاں ہوتی ہے جو دھارے میں بہتے ہیں، مردانِ حریت تو دھارے کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں۔ افغانستان کا یہی سبق ہے۔ سید علی گیلانی بھی دھارے کے خلاف جبل بن کے کھڑے تھے۔ کوئی دوسرا اُن کے جیسا نہیں، یا للعجب! پاکستانیوں سے بڑھ کر پاکستانی۔ پاکستان میں اقتدار کے کھیل کی تہہ بہ تہہ کہانیوں کے زخمی، مگر کامل زندگی میں کسی دن کا کوئی ایک لمحہ بھی ایسا نہ تھا، جب اس سید علی گیلانی نے پاکستان پر اپنے اعتماد کو مدہم بھی پڑنے دیا ہو۔ غیرت مند سید علی گیلانی قبر میں سرخرو اُترے۔ مگر پاکستانی حکمران اپنا چہرہ آئینے میں کیسے دیکھتے ہوں گے؟ وہ بھی جو ”ڈرتے ورتے” کسی سے نہ تھے۔ مگر امریکا کی ہیبت سے دم بخود افغانستان اور کشمیر میں بڑے بڑے انحرافات کے شکار ہوئے۔ کاش آج کے حکمران دیکھ سکیں ،جنرل پرویز مشریف کیسی زندگی جی رہے ہیں اور افغانستان میں کیا مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں؟ سید علی گیلانی بھی بیمار تھے۔ بستر پرصاحب ِ فراش۔ مگر ایک عبرت کی تصویرہے اور دوسرا حریت کا لہکتا استعارہ۔ یا للعجب ! یا للعجب !! زندگی کیسے سبق دیتی ہے۔

نوگیارہ کا ہنگامہ افغانستان میں بپا تھا، دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کی جنگ بنا دی گئی تھی۔ اس شور وشر میں اسلام آباد کے ”سربرآوردگان” بھی بش کا جنتر منتر پڑھنے لگے۔ جنرل مشرف نے افغانستان میں مسلمانوں کو خون میں نہلانے کی قیمت ”کشمیر محاذ” کی حفاظت بتائی تھی۔ اُصول ہے کہ دھوکا وہیں ہوتا ہے جہاں اعتماد ہوتا ہے ۔ اعتماد کا خون بھی یہیں ہوا۔ بھارت نے افغانستان میں مسلم فروشی کی نفسیات کا فائدہ اسلام آباد میں کشمیر فروشی کی سیاسی نفسیات پیدا کرنے کی صورت میں اُٹھایا۔ امریکی دباؤ کام کررہا تھا۔ چنانچہ کشمیر کو بھی فارمولوں کی ست رنگی چادر میں لپیٹنے کا عمل شروع ہوگیا۔ جنرل مشرف افغانستان میں امریکی وحشتوں کے ساتھی بنے تو قوم سے خطاب میں بھارت کو ”LAY OFF” کہا تھا، مگر نوگیارہ کی اُتھل پتھل نفسیات میںموصوف نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ہی ”LAY OFF” کرتے ہوئے ایک چار نکاتی فارمولا پیش کردیا۔ سید کہاں ماننے والے تھے، وہ اپنے میدانِ کربلا میں ڈتے رہے۔ نئی دلی کے پاکستانی سفارت خانے میں 2005ء میں جنرل مشرف کی سید علی گیلانی سے ملاقات ہوئی۔ وہ اُنہیں امید لطف میں گداگروں کی طرح بیٹھے پست قامت پاکستانی سیاست دانوں کی مانند سمجھ بیٹھے تھے، جن کی زبانیں اپنی بداعمالیوں کے باعث طاقت کے مراکز میں لڑکھڑاتی اور ٹانگیں کانپتی ہیں۔ سید نے کہا کشمیری مسلمانوں کی مرضی کے بغیر آپ فیصلہ کرنے والے کون ہوتے ہیں؟جنرل مشرف سید علی گیلانی کو ”ٹیکٹیکل ریٹریٹ” کا مطلب سمجھاتے رہے۔ اور سید علی گیلانی اُنہیں ”یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے” کی تفہیم کراتے رہے۔ ملاقات کا انجام اچھا نہ تھا۔ سید علی گیلانی زخمی دل سے اُٹھے۔ علیک سلیک کا رسمی عمل بھی روکھا پھیکا رہا۔ پاکستان کا سفارتی عملہ تب حیرانی سے مردِ حریت کو تکتا رہا۔ اُنہیں اپنے صدر سے زیادہ اس درویش کی بے خوفی اور پاکستانیت پر پیارآیا۔ جنرل مشرف امریکی ہیبت سے دم بخود اور اپنی سرگرمیوں میں بیخود رہتے تھے۔ اُن کا مردِ حریت پر تب تبصرہ انتہائی قے آور تھا۔ چھوڑیں! دامن بچاتے ہیں۔

سید علی گیلانی کی ”پاکستانیت” پر رشک آتا ہے۔ معمولی معمولی باتوں پر ناراض ہو جانے والے اب کتوں کی طرح وطن ِ عزیز پر بھونکتے ہیں۔ کاش وہ سید علی گیلانی کی زندگی کا مطالعہ کرتے۔ اسلام کے لیے ملک کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ ایک آزاد وطن کی تقدیس کیسے سینے میں سلگتی رہتی ہے؟نظریۂ پاکستان کے تقاضے کیسی ریاضت مانگتے ہیں؟ طاقت ور حلقوں سے ناراض کچھ عناصر ایسے بھی ہیں جو ردِ عمل میں دشمن کے ہاتھ کا ہتھیار بن جاتے ہیں۔ اُن کے لیے بھی سید علی گیلانی کی زندگی سبق آموز ہے۔ایک طرف بھارت کی ترغیبات تھیں، دوسری طرف پاکستانی حکمرانوں کے انحرافات ۔ جبل کی طرح کھڑے سید علی گیلانی کو جنرل مشرف نے شرمناک الفاظ سے یاد کیا مگر سید نے دھیان تک نہ دیا۔ وہ خود ایسے موقع پر مکمل پاکستان بن جاتے تھے۔ حکمرانوں کی کج ادائیوں، بے وفائیوںاور فریب کاریوں کا بدلہ وطنِ عزیز سے کیسے لیا جاسکتا ہے۔ یہ وقت زیادہ پاکستانی بننے کا ہوتا ہے۔ سید علی گیلانی ایسے ہر موقع پر زیادہ تیز آواز میں مقبوضہ کشمیر میں گونجتے تھے: ہم سب پاکستانی ہیں، پاکستان ہمار اہے”۔ ان واقعات کو پندرہ برس بیت گئے تو اچانک اسلام آباد کے موسم میں کچھ ”حیا” کی ہوا چلی، سید علی گیلانی کو 2020 میں ” نشانِ پاکستان”دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ مگر یہ اعزاز سید علی گیلانی کے اسلام آباد میں موجود نمائندے نے وصول نہیں کیا۔ سید ناراض تھے۔ وہ خود ایک چلتا پھرتا پاکستان تھے، اُنہیں کسی اعزاز کی نہیں بلکہ خود پاکستان میں پاکستان سے وفا کرنے والوں کی تلاش تھی۔ ایک سال قبل 5 اگست 2019 ء کو بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 کو ختم کردیا تھا۔ سید علی گیلانی نے پاکستانی حکمرانوں کو خط لکھے۔ مگر یہاں کشمیر کے سفیر اور وکیل بننے کا اعلان کرنے والے حکمران جمعہ کے روز اپنی بے عملی کا اشتہار ہاتھ پر کالی پٹی باندھ کر بنتے رہے۔ پاکستان نے اپنے” نادانوں” کو وقتِ قیام ، سجدے میں گرتے دیکھا۔ تب سید پاکستان کے بے حس حکمرانوں کو سجدے سے اُٹھانے کے لیے جھنجھوڑتا رہا ۔ سید علی گیلانی نے احتجاج کیا نہ کوئی خبر بننے دی، بس انتہائی خاموشی سے اپنے نمائندے کو منع کیا کہ وہ اسلام آباد کے حکمرانوں سے کوئی اعزاز نہ وصولے۔ چنانچہ کشمیر کے کچھ سیاسی رہنماؤں کو تلاش کرلیا گیا، اور اُنہیں جیسے تیسے ایوارڈ تھما دیا گیا۔ یہ ایک شرمناک تاریخ ہے جسے تعزیت کے الفاظ میں دفن نہیں ہونے دینا چاہئے۔ سید علی گیلانی اپنوں کے زخموں سے چور تھے، مگر ایسے پاکستانی کہ ”اپنوں” سے زخمی ہو کر بھی اُن سے اپنائیت کو کم نہیں ہونے دیتے تھے۔

سید علی گیلانی کے لیے مسئلہ کشمیر محض ایک سیاسی مسئلہ نہیں تھا۔ یہ نظریہ پاکستان کی لڑائی تھی۔ 1947 کے ٹوٹے ہوئے تارے کو کشمیر میں مہِ کامل بننا تھا۔ یہیں کشمیر کے پاکستان بننے کے بعد چاند کو چودہویں کا ہونا تھا۔بس اسی تصور کے تحت وہ اِسے سیاسی نہیں مسلمانوں کا مسئلہ کہتے تھے۔ اسی نقطہ نظر سے وہ پاکستانی حکمرانوں کے سیاسی انحرافات پر دل گرفتہ ہونے کے باوجود پاکستان پر اپنے اعتماد کو کبھی کم نہ ہونے دیتے تھے۔ کچھ زخم جسموں پر نہیں دل پر لگتے ہیں۔ دکھائی نہیں دیتے مگر اس کا درد جاتا نہیں۔ علی گیلانی کو بھی وہ زخم لگے۔ وہ چلے گئے، درد نہیں جاتا۔ اُنہوں نے آنسو نہیں بہائے، مگر ان گنت آنکھیں بہتی چھوڑ گئے۔ یہ آنسو کہاں تھمیں گے۔ مگر ان سب سے بلند مردِ حریت آسمان سے مسکراتا رہے گا۔ وہ مسکراہٹ اُن پر جچتی ہے۔ جو نظریہ ٔ پاکستان کے لیے علامہ اقبال کی روح رکھتے تھے۔ اور عزم وہمت میں قائداعظم کی طرح جبل بن جاتے تھے۔ اللہ اللہ پاکستان پر اُن کا یقین پاکستانیوں سے بڑھ کر تھا۔ آزادی کا جذبہ اگر مجسم ہو سکتا تو وہ سید علی گیلانی کے روپ میں نظر آتا۔ وفا کسی پیکر میں ڈھلتی تو وہ سید کے قدو قامت میں دکھائی دیتی۔ قربانی اگر کوئی چہرہ رکھتی تو وہ مردِ حریت کے خدوخال میں دکھائی دیتی۔ بھارت کا وحشی مودی سمجھتا ہے کہ سید علی گیلانی چلے گئے ! کہاں گئے ؟ وہ یہیں رہیں گے ۔ حریت کے جذبوں میں زندہ ، آزادی کے نعروں میں پائندہ۔ علامہ اقبال اُن ہی کے لیے کہہ گئے تھے:۔
فرشتہ موت کا چُھوتا ہے گو بدن تیرا
ترے وجود کے مرکز سے دُور رہتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں