عجب تماشا (رانا خالد محمود قمر)
شیئر کریں
پاکستان میں پرانی سیاسی جماعتوں کو "روند” کر اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے گلے سڑے اور بوسیدہ نظام کے بدلے نئے نظام کا نعرہ لگایا تو نوجوانوں کے بعد جس طبقے اس پر کان دھرے وہ تھا فن و ثقافت کا شعبہ۔ فنون لطیفہ سے تعلق والی شخصیات نے اپنا تن من اور دھن تبدیلی کے نعرے کی نظر کردیا۔ ان کے خیال میں ن لیگ ایک قدامت پسند اور اسلامی ذہن رکھنے والی پارٹی ہے جس کا فن و ثقافت سے کوئی تعلق نہیں۔ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے دھرنے کی کال دی تو شوبز شخصیات کی اکثریت نے دھڑا دھڑ شرکت کی۔ عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی۔ ابرارالحق جیسے نامور گلوکار تو باضابطہ تحریک انصاف کا حصہ بن بیٹھے۔ عطا اللہ کے گانے جب آئے گا عمران سب کی جان بنے گا نیا پاکستان زبان زد عام ہوا۔ ان کے علاوہ شوبز کا شاید ہی کوئی بڑا نام ہو جو پی ٹی آئی کا حامی نہ ہو۔ یہ شخصیات بھی نوجوانوں کی طرح عمران خان کے ہر اعلان پر سر دھنتی دکھائی دیتیں۔ جیسے تیسے عمران خان وزیراعظم بن بیٹھے تو شوبز شخصیات اس خوش فہمی میں مبتلا ہوگئیں کہ راتوں رات سسٹم بدل جائے گا وہ صبح جاگیں گے تو نیا پاکستان کا سورج طلوع ہوچکا ہوگا۔ جیسے جیسے وقت کا پہیہ آگے گھومنے لگا ان شخصیات کی امیدوں کے چراغ بھی بجھنے لگے۔ آج ایک سال بعد ان شخصیات میں سے اکثریت کی آنکھوں پہ بندھی پٹی اتر چکی ہے۔ اب تو وہ بھی برملا کہنے پہ مجبور ہیں کہ سسٹم نے عمران خان کی تبدیلی سرکار کو اپنے پنجوں میں جکڑ لیا ہے۔ آج سے ہم تبدیلی سرکار کے محکموں کا پوسٹ مارٹم شروع کرتے ہیں اور جائزہ لیتے ہیں کہ یہاں بھی تبدیلی آئی یا پھر وہی چال بے ڈھنگی چلی جارہی ہے۔ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے سب سے بڑے ثقافتی مرکز سے آغاز کرتے ہیں۔
لاہور آرٹس کونسل جو الحمراء آرٹس کونسل کے نام سے مشہور ہے۔ لاہور کے وسط میں قدیم ترین شاہراہ دی مال پر پرشکوہ عمارت دیکھنے والے کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔ یہ عمارت سرکاری سرپرستی میں فن و ثقافت کی ترویج و ترقی کے لیے قائم کی گئی۔ تبدیلی سرکار سے پہلے ن لیگ کی حکومت میں الحمراء آرٹس کونسل میں آئے روز بدانتظامی۔ مالی بے ضابطگی اور اقرباء پروری کے علاوہ عیاشی کی داستانیں بھی سنائی دیتی تھیں۔ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے قریب سمجھے جانے والے عطا الحق قاسمی چئیرمین الحمراء آرٹس کونسل بنے تو ان صداؤں نے گونج کا روپ دھار لیا ہمارے جیسے لوگ تب بھی آواز بلند کرتے رہے اس دور میں اوپر بڑا بھائی نیچے چھوٹا بھائی برسراقتدار تھا ہماری نحیف سی آواز کس کو سنائی دیتی۔ آج جب تبدیلی سرکار کے دور میں چیزوں کو اسی ڈگر پہ چلتے دیکھا تو سوچا زنجیر عدل ہلانے میں کیا حرج ہے۔ شاید کپتان کے وسیم اکرم پلس کے کانوں پہ جوں رینگ جائے اور دم توڑتے ثقافتی ورثے الحمراء کو بچا لیا جائے۔ عثمان بزدار ڈیرہ غازیخان جیسے قدیم روایات کے امین علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ سنا ہے فنونِ لطیفہ کا ذوق بھی رکھتے ہیں۔ حال ہی میں ان کی منظوری سے ڈیرہ غازیخان کا ثقافتی میلہ منعقد کیا گیا جس کی میزبانی تو الحمراء ہال نے کی البتہ انتظامات پنجاب آرٹس کونسل نے کیے تھے اس کے بعد ڈیرہ غازیخان میں بھی تین روزہ میلہ منعقد کیا گیا جو وزیرِ اعلیٰ کی فن و ثقافت دوستی کی علامت ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اس طرح کے میلے پنجاب کے ہر ضلع میں منعقد کیے جاتے۔
ہاں تو بات ہورہی تھی لاہور آرٹس کونسل میں ہونے والی بدانتظامیوں کی۔ اس ثقافتی مرکز میں جو گند ن لیگ کے دور میں ڈالا گیا اس کو صاف کرنا تبدیلی سرکار کی ذمہ داری تھی لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اسے صاف کرنا تو درکنار اس گند میں اضافہ کیا جارہاہے۔ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کی منظوری سے تعینات ہونے والے ایگزیکٹو ڈائریکٹر لاہور آرٹس کونسل اطہر علی خان نے اپنے پورے کیرئیر میں کسی ثقافتی ادارے میں ذمہ داری ادا نہیں کی اس کے باوجود انہیں یہاں تعینات کیا گیا۔ کس بنیاد پر اس کو رہنے دیں پھر سہی۔ اطہر علی خان نے چارج لینے کے بعد فن و ثقافت کی کتنی خدمت کی یہ آنے والا وقت بتائے گا تاہم ایک کام انہوں نے کیا کہ وزیراعظم پاکستان کے ویژن کے مطابق بچت پالیسی پہ عمل کیا اور گزشتہ سال کے بجٹ میں سے 5 کروڑ روپے قومی خزانے کو واپس لوٹائے۔ اطہر علی خان کے ثقافتی ویڑن کو جانچنا باقی ہے البتہ وہ انتظامی حوالے سے اچھے منتظم ہیں۔ ان کے دور میں اگرچہ کوئی نئی بھرتی نہیں کی گئی مگر پچھلے دور میں ڈالے گئے گند کو بھی نہیں چھیڑا گیا۔ الحمراء آرٹس کونسل پوری کی پوری روزانہ اجرتی۔ مدت ملازمت میں توسیع۔ ری ایمپلائمنٹ اور کنٹریکٹ ملازمین سے اٹی پڑی ہے۔ اہم ترین عہدوں پر براجمان لوگ تین تین بار تین سالہ کنٹریکٹ پر ملازمت کے جھولے لینے میں مشغول ہیں۔ 40 ملازمین میں سے 8 ایسے ہیں جو کئی بار ری ایمپلائمنٹ حاصل کرچکے وہ آج بھی ان سیٹوں پر موجود ہیں۔ تقریباً 30افراد روزانہ اجرت پر ہیں اس کے علاوہ کنٹریکٹ پہ بھی لوگ رکھے گئے ہیں۔ یہ واحد ادارہ ہے جہاں گریڈ 5 میں بھرتی ہونے والا اہلکار پلک جھپکتے ہیں گریڈ 17 کا گزٹڈ آفیسر بن جاتا ہے اور یہ سب لاہور آرٹس کونسل بورڈ کے کندھوں پہ رکھ کے کیا جاتاہے۔
عجب تماشا لگا ہوا ہے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی سیٹ انتظامی امور کی نگران ہے ان سے غلطیاں سرزد ہونا یا اختیارات کا غلط استعمال ہونا تو پھر بھی سمجھ میں آتا ہے چئیرمین لاہور آرٹس کونسل کی سیٹ انتظامی نہیں اعزازی ہے اس کے باوجود جو بھی اس پر بیٹھتا ہے وہ اس ادارے کو جاگیر سمجھ کے لوٹتا ہے سابق چئیرمین عطا الحق قاسمی کو "اعزاز ” حاصل ہوا کہ وہ "گند” ڈالنے میں اپنے تمام پیش روؤں کو پیچھے چھوڑ گئے ان کے بعد اس سیٹ پر توقیر ناصر جیسے سینئر آرٹسٹ کا تقرر کیا گیا وہ اب تک مقرر ہونے والے چئیرمینز میں سے صاف ستھرے گئے ہیں ان پہ ادارے کے معاملات میں مداخلت یا ناجائز بھرتیوں کا الزام نہیں لگا۔ اب تبدیلی سرکار نے منزہ ہاشمی کو چئیرپرسن مقرر کیا ہے ان کی تعیناتی کے ساتھ ہی افواہوں کا بازار گرم ہوگیا ہے کہ وہ بھی اپنی پرسنل سیکرٹری کو گریڈ 18 میں بھرتی کروانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس بات کو تقویت تب ملی جب لاہور آرٹس کونسل نے ایک سمری وزیرِ اعلیٰ کو بھیجی جس میں درخواست کی گئی پنجاب میں بھرتیوں پر عائد پابندی کا خاتمہ کرکے گریڈ 18 میں براہ راست بھرتی کی اجازت دی جائے۔ لاہور آرٹس کونسل کے ماضی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات یقینی ہے کہ پابندی اٹھتے ہی اس ادارے میں ایک اور آفیسر کا اضافہ ہوجائے گا۔ سمجھ سے باہر ہے کہ اعزازی سیٹ پر کچھ عرصہ کے لیے مقرر ہونے والے چئیرمین یا چئیرپرسن اپنا بوجھ اس نحیف سے ثقافتی ادارے کے کندھوں پہ ڈالنے کے بعد چلتے بنتے ہیں۔ لاہور آرٹس کونسل کا بورڈ آف گورنرز اتنا بااختیار ہے جس کو جس گریٹ میں چاہے بھرتی کرلے یہ جانچے بغیر کہ اس کی ضرورت بھی ہے یا نہیں۔ اگر یہی سلسلہ جاری رکھنا تھا تو پھر تبدیلی جیسا خوبصورت نعرہ لوگوں کو بیوقوف بنانے کے سوا کچھ نہیں۔
اس ثقافتی ادارے کو فعال بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا خون چوستی جونکوں سے جان چھڑوائی جائے۔ سرکاری اداروں سے ریٹائر ہونے والے ملازمین کنٹریکٹ کے ایک کاغذی ٹکڑے کی بنیاد پر یہاں سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے ہیں۔ خاندان کا ایک فرد یہاں ملازمت کے نام گھسنے والا پورے خاندان کو گھسیڑ لاتا ہے۔ باپ اپنی مدت ملازمت پوری کرکے ری ایمپلائمنٹ لیتا ہے ساتھ ہی بیٹے کو بھرتی کرلیتا ہے اور اپنی سیٹ والا کام اپنے بیٹے کو سکھاتا ہے تاکہ کبھی یہاں سے مستقل جانے کی صورت میں بھی اپنی بیٹے کی صورت میں موجود رہے۔ یہی حال یہاں نوکری والے بھائیوں کا ہے ایک آیا تو دوسرا بھی ساتھ ہی کھینچ لایا۔ یوں لگتا ہے جیسے لاہور آرٹس کونسل فیملی کلب بن چکاہے۔ وزیرِ اعلیٰ صاحب آپ کو اللہ نے موقع دیا ہے خود کو پنجاب کے عوام اور ان کی ثقافت کے امین ہونے کا اہل ثابت کریں۔ اطہر علی خان صاحب آپ بھی کچھ ہمت پکڑیں اور اپنے پیش رو کیپٹن (ر) عطائ محمد خان کی طرح متحرک ہوں اگرچہ انتظامی طور پر آپ کی پرفارمنس ان سے کچھ بہتر ہے لیکن اصل کام جس کے لیے آپ کو یہاں تعینات کیا گیا اس میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ قارئین کرام۔ کالم کی طوالت کے پیش نظر یہاں روزانہ اجرت۔ کنٹریکٹ اور ری ایمپلائمنٹ کے علاوہ کنسلٹنسی کے نام پر تعینات ہونے والوں کی فہرست نہیں شائع کی جارہی اگر ضروری ہوا تو اس کے لیے الگ سے کالم لکھنا پڑے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔