وزیر خارجہ خواجہ آصف کا اپنے افغان ہم منصب صلاح الدین ربانی سے ٹیلی فونک رابطہ
شیئر کریں
وزیر خارجہ خواجہ آصف نے گزشتہ روز اپنے افغان ہم منصب صلاح الدین ربانی کو ٹیلی فون کرکے خطے کی سیکورٹی کی صورتحال اور دوطرفہ تعلقات سمیت دیگر معاملات پر تبادلہ خیال کیا ۔ ترجمان کے مطابق وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان افغانستان سے اپنے تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے اور افغانستان کے ساتھ سیکورٹی سمیت تمام شعبوں میں کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ وزیر خارجہ نے اپنے افغان ہم منصب کوبتایا کہ پاکستان افغانستان میں امن و استحکام کے لیے افغان قیادت کے امن عمل کی حمایت کرتا ہے۔افغان صدر اشرف غنی نے گزشتہ دنوں ایک بیان میں پاکستان کے ساتھ تمام مسائل پر جامع بات چیت کے لیے رضا مندی ظاہر کی تھی جس کا پاکستان کی جانب سے بھی خیرمقدم کیا گیا تھا۔افغان صدر اشرف غنی نے کہا تھا کہ کشیدہ تعلقات کے خاتمے کے لیے وہ پاکستان سے مذاکرات پر تیار ہیں۔ گزشتہ روز عید کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کے ساتھ پرامن تعلقات ہمارا قومی ایجنڈا ہے۔ ان کے بقول دونوں ممالک کے بہتر تعلقات ہی خطے میں امن قائم کر سکتے ہیں۔ ہم ایسا ایجنڈا چاہتے ہیں جس کی بنیاد سیاسی نظریے پر ہو۔ دنیا کو معلوم ہو چکا ہے کہ افغانستان کو جبراً کسی کام کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ خطے کی سلامتی کی خاطر ہم منطق اور استدلال کے تحت ہر قدم اٹھانے کو تیار ہیں۔ انہوں نے باغیوں اور جنگجوئوں کو بھی تلقین کی تھی کہ وہ امن عمل کا حصہ بنیںاورکہاتھاکہ میں سب کی طرف امن کا ہاتھ بڑھا رہا ہوں، امن خدا کا حکم ہے۔ طالبان سمیت سب کے لیے دروازے کھلے ہیں، ہم کسی طاقت کے آگے نہیں جھکیں گے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اس خطے کا امن و سلامتی افغانستان کے امن و استحکام کے ساتھ وابستہ ہے اور افغانستان میں قیام امن کے لیے کابل انتظامیہ نے ہی بنیادی کردار ادا کرنا ہے۔ پاکستان کو افغانستان میں قیام امن کی اس لیے ضرورت ہے کہ ہمارے ملک میں ہونے والی دہشت گردی کے سوتے افغان دھرتی سے ہی پھوٹ رہے ہیں جہاں ہمارے ازلی مکار دشمن بھارت نے اپنے درجن بھر قونصل خانوں کے ذریعے ’’را‘‘ کے ذریعے اپنا دہشت گردی کا نیٹ ورک پھیلا رکھا ہے جہاں سے دہشت گرد تربیت، فنڈنگ اور دھماکا خیز مواد حاصل کرکے کابل انتظامیہ کی مبینہ آشیر باد سے سرحد عبور کرکے پاکستان پہنچتے
ہیں اور یہاں اپنے متعینہ اہداف پر خود کش حملے اور دہشت گردی کی دوسری وارداتیں کرکے واپس افغانستان میں اپنے محفوظ ٹھکانوں میں چلے جاتے ہیں۔ اس تناظر میں اگر افغان صدر کو واقعی یہ احساس ہوگہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے دو طرفہ تعلقات میں بہتری لائی جا سکتی ہے تو اس سے زیادہ خوش آئند بات اور کیا ہو سکتی ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ بدقسمتی سے پاک افغان تعلقات کے بگاڑ میں کابل انتظامیہ کا ہی زیادہ عمل دخل رہا ہے اور اس بگاڑ کی ابتداقیام پاکستان کے وقت سے ہی افغانستان کی طرف سے پاکستان کی اقوام متحدہ کی رکنیت کے خلاف ووٹ دینے کی صورت میں ہوئی تھی جبکہ یہ واحد مخالف ووٹ تھا جو پاکستان کے پڑوسی برادر مسلم ملک کی جانب سے ڈالا گیا جس کے لیے اْس وقت کے افغان بادشاہ ظاہر شاہ نے بنیادی کردار ادا کیا۔ اس وقت سے اب تک پاکستان میں افغانستان کی جانب سے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں آیا اور اس برادر پڑوسی ملک نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ خدا واسطے کا بیررکھا ہے۔
امریکی نائن الیون کے بعد تو افغانستان نے دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر اپنی سرزمین پر شروع ہونے والی نیٹو ممالک کی جنگ میں عملاً امریکی کٹھ پتلی کا کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ اپنی انتہاکو پہنچایا۔ اس وقت امریکی بیساکھیوں پر اقتدار میں آنے والے افغان صدر حامد کرزئی نے محض اپنے اقتدار کے تحفظ و بقاکی خاطر افغان سرزمین کو امریکی نیٹو فورسز کی آماجگاہ بنایا اور انہیں وہاں اپنے قدم جمانے کا موقع فراہم کیا جبکہ نیٹو فورسز نے دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر افغان دھرتی پر کارپٹ بمباری اور کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کرکے اس کو کھنڈر بنا دیا۔ نیٹو فورسز کے ایسے جنگی اقدامات اور آپریشنزکے ردعمل میں ہی طالبان اور دوسری انتہا پسند تنظیموں اور گروپوں نے اپنی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا آغاز کیا پاکستان بھی جن کی زدمیں آیا،کیونکہ نیٹو فورسز کی بمباری اور زمینی کارروائیوں سے بچنے کے لیے ان انتہا پسند عناصر نے پاکستان کا رخ کیا۔
اس وقت کے پاکستان کے صدرجنرل پرویز مشرف نے خود کو امریکی فرنٹ لائن اتحادی بنا لیا اور افغانستان میں آپریشن کے لیے امریکی نیٹو فورسز کو پاکستان کے اندر چار ایئر بیسز اور دوسری لاجسٹک سپورٹ فراہم کر دی۔ اس بنیاد پربھی اس وقت کابل انتظامیہ کا اسلام آباد کے ساتھ ربط قائم ہونا چاہئے تھا مگر کرزئی نے امریکی تھپکی پر پاکستان کے خلاف اسی کی زبان اور لہجے بولنا اور’’ڈومور‘‘ کے تقاضے شروع کر دیے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کرزئی نے نیٹو فورسز کو بالواسطہ طور پر پاکستان پر حملہ آور ہونے کی تجویز پیش کی جس کے بعدمسلح دہشت گردوںنے جتھوں کی شکل میں افغانستان سے پاکستان کے اندر داخل ہو کر ہماری چیک پوسٹوں پر حملے شروع کردئے جن میں چیک پوسٹوں سے ملحقہ علاقوں میں شہری بھی نشانہ بننے لگے، جس کے باعث پاکستان اور افغانستان میں سرحدی کشیدگی کا پیدا ہونا فطری امر تھا۔ چنانچہ کرزئی کے دونوں ادوار کے دوران پاک افغان کشیدگی برقرار رہی اور کابل انتظامیہ کی سرپرستی میں پاکستان کی چیک پوسٹوں پر سرحد پار سے ہونیوالی کارروائیوں ست اس کشیدگی میں اضافہ ہوتا رہا ۔
کرزئی کے بعد اشرف غنی افغانستان کے صدر منتخب ہوئے تو انہوں نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کے معاملے میں کابل انتظامیہ کی پالیسی میں خوشگوار اور مثبت تبدیلیاں کیں اور صدر منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے بیرونی دورے پر اسلام آباد آئے اور ساتھ ہی جی ایچ کیو راولپنڈی کا دورہ کرکے وہاں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے حوالے سے پاکستان کی عسکری قیادت سے بریفنگ لی۔جس کی روشنی میں انہوں نے افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پرآپریشنز کا وعدہ کیا تو اس سے پاک افغان کشیدگی ختم ہونے کے حوالے سے برف پگھلتی نظر آئی تاہم یہ خوشگوار صورتحال زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی اور اشرف غنی کی کابل انتظامیہ کرزئی دور کی طرح بھارت کی مودی سرکار کے جال میں پھنس گئی جس کے بعد اشرف غنی نے بھی امریکا اور بھارت کے لب لہجے میں پاکستان پر دہشت گردی کا ملبہ ڈالنا شروع کردیا، حالانکہ دہشت گردی کے تمام منابع افغان دھرتی پر ہی موجود تھے، جس کی وجہ سے پاکستان کی سیکورٹی فورسز کو ٹھوس اطلاعات ملنے پر
خود فضائی آپریشن کرنا پڑا۔ پاکستان نے افغانستان سے دہشت گردوں کی آمدورفت روکنے کے لیے طور خم بارڈر پر اپنی جانب گیٹ لگانے کا فیصلہ کیا تو اس پر بھی اشرف غنی حکومت کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا اور پھر افغان فورسز نے پاکستان کے ساتھ جھڑپوں کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔جس پر پاکستان نے افغان سرحد بند کر ناپڑی ،تاہم بعد میں افغان باشندوں کو فاقہ کشی کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے پاکستان نے انسانی ہمدردی کے تحت سرحد کھول دی مگر کابل انتظامیہ نے بھارتی ایما پر پاکستان کی سلامتی کے خلاف سازشوں کا سلسلہ برقرار رکھا اور ’’الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘‘ کے مصداق کابل انتظامیہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ پاکستان پر دہشت گردی کا ملبہ ڈالتی رہی۔
یہی بھارت اور امریکا کا بھی مطمح نظر تھا چنانچہ پاکستان کو عالمی تنہائی کا شکار کرنے کی امریکی بھارتی سازش میں افغانستان بھی برابر کا شریک ہو گیا۔ اس کے برعکس پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کے لیے ہر عالمی اور علاقائی فورم پر بھرپور کردا رادا کیا اور ہارٹ آف ایشیاکانفرنس سے شنگھائی کانفرنس تک افغانستان میں امن کی بحالی کی کوششوں کو تقویت پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔
آج امریکی وزیر دفاع جیمزمیٹس گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہوئے پاکستان کے لیے نیک جذبات کا اظہار کر رہے ہیں اور اسے ذمہ دار ملک گردان کر باہم مل کر دہشت گردوں کو شکست دینے کے عزم کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ فی الحقیقت واشنگٹن انتظامیہ کی ہر پالیسی اور اقدام کا مقصدپاکستان کے گرد شکنجہ کسناہے جس کا ڈونلڈ ٹرمپ دو ہفتے قبل نشری خطاب میں خود اعلان و اظہار بھی کر چکے ہیں۔ اگر امریکا فی الواقع پاکستان کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف اقدامات اٹھانے میں سنجیدہ ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ افغانستان کو پھر سے امن و آشتی کا گہوارہ نہ بنایا جا سکے‘ لیکن امریکی طرز عمل اور پالیسیوں سے ایسا محسوس ہوتاہے کہ افغانستان میں امن کا قیام شاید امریکا اور افغانستان دونوں کو منظور نہیں اور وہ اپنے مفادات کے تحت پاکستان پر افغانستان کی خرابی کی ذمہ داری تھونپنا چاہتے ہیں۔ جبکہ افغانستان کی خرابی خود کابل انتظامیہ کی پیدا کردہ ہے۔ جس نے امریکا نیٹو فورسز کو افغان سرزمین پر پیر جمانے کے مواقع فراہم کئے۔ اسی تناظر میں گذشتہ روز افغان طالبان رہنما ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ نے کابل انتظامیہ کو باور کرا یا ہے کہ جنگ کے خاتمہ کا واحد راستہ افغانستان سے غیرملکی افواج کا انخلا ہے۔
اس صورتحال میں اگر کابل انتظامیہ کو فی الواقع افغانستان میں امن مقصود ہے تو وہ اسلام آباد کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خاتمہ اور امن عمل کی مشترکہ کوششیں بروئے کار لا سکتی ہے جس کے لیے کسی بیرونی کمک اور امداد کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اگر اشرف غنی سنجیدہ اور مخلص ہوں تو پاکستان کے ساتھ مثالی تعلقات استوار کر کے باہمی تعاون سے افغانستان کو دوبارہ امن کا گہوارہ بنا دیں جس سے علاقائی امن کی بھی ضمانت مل جائے گی۔ یہ طے شدہ امر ہے کہ افغان صدر اشرف غنی پاکستان کی جانب دوستی کا ایک قدم اٹھائیں گے تو یہاں سے انہیں محض خیرسگالی کے تعلقات نہیں مثالی تعاون بھی حاصل ہو گا جس کے بعد کسی بیرونی فورس کے افغانستان میں قیام کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ اشرف غنی اگر اپنے کہے پر قائم رہتے ہیں تو یہ اس خطے کے عوام کے لیے ان کی جانب سے امن کا تحفہ ہو گا۔