میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
رضوانہ تشدد کیس، جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد، سومیہ عاصم کو جیل بھیج دیا گیا

رضوانہ تشدد کیس، جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد، سومیہ عاصم کو جیل بھیج دیا گیا

جرات ڈیسک
منگل, ۸ اگست ۲۰۲۳

شیئر کریں

رضوانہ تشدد کیس کی ملزمہ سومیہ عاصم کی جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد، جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔ کمسن رضوانہ تشدد کیس میں گزشتہ روز گرفتار ہونے والی سول جج کی اہلیہ کو جوڈیشل مجسٹریٹ شائستہ کنڈی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ جج شائستہ کنڈی نے پولیس کی جانب سے سومیہ عاصم کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے انہیں 22 اگست کو دوبارہ پیش کرنے کاحکم دے دیا۔ فیصلہ محفوظ کرنے سے قبل جج شائستہ کنڈی نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ سومیہ عاصم کا جسمانی ریمانڈ کیوں چاہیے؟ تفتیشی افسر نے جج کو بتایا کہ سومیہ عاصم سے تفتیش کرنی ہے۔مجسٹریٹ شائستہ کنڈی نے کہا کہ عورت کا جسمانی ریمانڈ کس قانون کے تحت دیا جاتا ہے؟ قتل، ڈکیتی اور خطرناک جرم کے باعث عورت کا جسمانی ریمانڈ ملتاہے۔ تفتیشی افسر نے کہا کہ بس اڈے سے ویڈیوز بھی لینی ہیں، گھناؤنے جرائم پر عورت کا جسمانی ریمانڈ لیاجاسکتاہے۔ مجسٹریٹ شائستہ کنڈی نے استفسار کیا کہ کیا بچی رضوانہ کی حالت اب ٹھیک ہے؟کیسی ہیں وہ؟ جس پر ملزمہ کی بہن نے کہا کہ بہت بہتر حالت ہے، آئی سی یو سے نکال لیا گیا ہے۔ پراسیکیوٹر وقاص نے کہا کہ جسمانی ریمانڈ تو سومیہ عاصم کی بہتری کیلئے ہے، کوئی ثبوت دینا چاہتے ہیں تو سومیہ عاصم پولیس کو دے دیں، بس اڈے کی ویڈیو عدالت میں پیش کی گئی ہے جو ریکارڈ کا حصہ بنانا ہے۔ جج شائستہ کنڈی نے کہا کہ اگر ویڈیوز ہی لینی ہے تو سیف سٹی کیمرہ سے لے لیں، جسمانی ریمانڈ کیوں چاہیے؟ رسیدیں وصول کرنے کے لیے جسمانی ریمانڈ تو نہیں لے سکتے، میڈیا پر خبر چلنا شروع ہوگئی تو جسمانی ریمانڈ تو نہیں دیا جاسکتا، سومیہ عاصم میرے سامنے آئیں۔ جج کے حکم پر ملزمہ سومیہ عاصم روسٹرم پر آگئی اور کہا کہ میں ہر طرح کی تفتیش میں شامل ہونے کے لیے تیارہوں، مجھے رات کو شامل تفتیش کیا گیا، مجھے رات ساڑھے گیارہ بجے تک دماغی ٹارچر کیا گیا، میں تین بچوں کی ماں ہوں، مجھ سے اچھا سلوک نہیں کیا جا رہا۔جج شائستہ کنڈی نے کہا کہ قانون کہتا ہے کہ قتل یا ڈکیتی میں جسمانی ریمانڈ لے سکتے ہیں، آپ دلائل دیں کس بنیاد پر جسمانی ریمانڈ مانگ رہے ہیں۔ سومیہ عاصم نے کہا کہ مجھے گھر لے کر گئے ہیں، کیمرے لگے ہیں، فوٹیجز نکلوا لیں، مجھے وومن اسٹیشن رات 12 بجے لے کر گئے۔ جج شائستہ کنڈی نے کہا کہ تفتیش کب شروع کرنی ہے؟ آپ کی بات کو دیکھ کر لگ رہا ہے کہ کل ہی تمام تفتیش مکمل ہوچکی۔ پراسیکیوٹر نے کہا کہ کچھ مواد حاصل کرلیا ہے، ہم نے مزید تفتیش کرنی ہے۔ جج شائستہ کنڈی نے کہا کہ آپ لوگوں کی طرف سے جو پیسے دیے گئے کیا وہ گھر میں ملازمہ تھی۔ وکیل صفائی نے کہا کہ ہمارے اوپر الزام ہے کہ کمسن بچی ہماری ملازمہ ہے۔ سومیہ عاصم نے کہا کہ میں ہر طرح کا تعاون کرنے کو تیار ہوں، میرے ساتھ ایسا ظلم نہ کیا جائے، میری بھی اولاد ہے، میڈیا پر باتیں بڑھا چڑھا کر بتائی جارہی ہیں۔ جج شائستہ کنڈی نے جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ کے گھر تو بچی کام کرتی تھی ناں؟ سومیہ عاصم نے کہا کہ مجھ سے غلطی ہوئی، جب وہ مٹی کھاتی تھی تو اسے بھیج دینا چاہیے تھا، میں نے تمام دستاویزات مہیا کیے ہیں، کچھ نہیں چھپاؤں گی۔ سومیہ عاصم نے روتے ہوئے کہا کہ میرا جتنا میڈیا ٹرائل ہوا ہے، مجھے خود کشی کرلینی چاہیے۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد فرخ فرید نے کمسن گھریلو ملازمہ رضوانہ پر تشدد کے کیس میں نامزد ملزمہ سول جج کی اہلیہ سومیہ عاصم کی عبوری ضمانت خارج کرتے ہوئے پولیس کو انہیں گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا۔ جج نے ریمارکس دیے تھے کہ ملزمہ سومیہ عاصم ہر حال میں شامل تفتیش ہونے کی پابند ہیں، تاحال کوئی دلیل ملزمہ کی ضمانت میں توسیع کیلئے کافی نہیں ہے، شواہد ایماندرای سے جمع کریں۔ دوران سماعت جج نے پراسیکیوشن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سچ تلاش کرنے میں ڈر نہیں ہونا چاہیے، شواہد ایماندرای سے جمع کریں، پریشر نہ لیں، تفتیش میرٹ پر ہونی چاہیے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں