نامکمل جے آئی ٹی ،چیف جسٹس از خودنوٹس لیں،علی زیدی کا مطالبہ
شیئر کریں
وفاقی وزیر برائے بحری امور علی زیدی نے سانحہ بلدیہ فیکٹری اور مشہور زمانہ قتل عزیر بلوچ سے پاکستان پیپلز پارٹی کے چھ رہنمائوں کے تعلق کے بارے میں اہم دستاویزات جاری کر دی ہیں ان دستاویزات پر وفاق کے سلامتی و سیکیورٹی سے متعلق چار اہم اداروں کے نمائندوں کے دستخط ہیں۔سندھ حکومت اور اصل جے آئی ٹی کی رپورٹ میں فرق ہے اور اصل تحقیقات سے سندھ حکومت نے اہم حصے نکال دیئے ہیں۔قاتلوں کے سرپرست پارلیمنٹ ہائوس میں گھوم رہے ہیں،اسمبلی میں بیٹھے ہیں۔صوبائی وزارتوں کے لیے کوشاں ہیں۔عزیر بلوچ کے سر کی قیمت کا نوٹی فکیشن سندھ حکومت نے واپس لیا اس بارے میں انہوں نے اہم ثبوت جاری کر دیئے ہیں عزیر بلوچ کے پیپلز پارٹی کے رہنمائوں سے تعلق ،ان سے پیپلزامن کمیٹی کے سربراہ سے حلف لینے ،فریال تالپور سے ملاقاتوں کی ویڈیوز جاری کر دی گئی ہیں۔علی زیدی نے چیف جسٹس آف پاکستان سے ہاتھ جوڑ کر جے آئی ٹی رپورٹ کے بارے میں از خود نوٹس لینے کی اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ از خود نوٹس کے لیے وہ بھی سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کریں گے انہوں نے پیپلز پارٹی کے ایک رکن قومی اسمبلی پر قاتلوں ،ڈاکوئوں ،جرائم پیشہ گینگ کی سرپرستی کے سنگین الزامات عائد کیے ہیں اور کہا ہے کہ میرے خلاف تحریک استقاق لائوچاہے 62,63 کے حوالے سے ریفرنس دو ہر قسم کے حالات کا سامنے کرنے کے لیے تیار ہوں کراچی میں قتل و غارت گری کے لیے اداروں کی تباہی کی گئی۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو منگل کو اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر شبلی فرازنے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے تہیہ کر رکھا ہے کہ پاکستان کو ان لوگوں سے نجات دلوائیں گے جو اپنے ذاتی مفادات کے لیے سیاست کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کراچی کے متذکرہ معاملات پر جے آئی ٹی کی رپورٹ پر وزیراعظم سے بات ہوئی ہے۔ہماری حکومت سزا اور جزا پر یقین رکھتی ہے علی زیدی نے کہا کہ ہم ملک بدلنے آئے ہیں۔کسی موٹر سائیکل یا کار کے اٹھنے کا معاملہ نہیں ہے بلکہ 198 افراد کے قتل کا معاملہ ہے سندھ حکومت کی جاری کردہ رپورٹ سے یہ حصہ غائب ہے کہ یہ قتل کس کے کہنے پر ہوئے ،کس کو فائدہ ہوا ،گینگسٹر کی سرپرستی کون کررہا تھا۔وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومتی سرپرستی کے بغیر یہ گینگسٹر کام نہیں کر سکتے تھے کراچی میں تھانے بکتے تھے۔ایک ایس پی نے ڈاکوئوں،قاتلوں،جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کے حوالے سے رپورٹ بھیجوا دی تو اس کاتبادلہ کردیا گیا انہوں نے کہا کہ سانحہ بلدیہ کے حوالے سے جے آئی ٹی رپورٹ میں اہم انکشافات ہوئے ہیں۔سندھ کے قانون نافذ کرنے والے ادارے تحقیقاتی عمل میں شامل تھے اور واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ اس سانحہ کی غلط تفتیش کی اس سانحہ کی دوبارہ ایف آئی آر درج ہونی چاہیے جس باصلاحیت ایس پی نے ڈاکوئوں کی سرپرستی کے حوالے سے نشاندہی کی تھی اس کا نام ڈاکٹر رضوان ہے اور اس کو شکار پور بھیج دیا گیا ہے۔یہ ہم سے آنے سے پہلے ہوا ایس پی نے منشیات فروشوں ان کے سہولت کاروں کی بھی نشاندہی کی اور فرحان غنی کا نام بھی لیا۔اس موقع پر علی زیدی نے عزیر جان بلوچ کے اعترافی حلفیہ ،بیان پیپلز پارٹی سے ان کے رابطوں،164 کے بیان حلفی کی دستاویزات اور ویڈیوز بھی میڈیا کے نمائندوں کو دکھائیں اور کہا کہ جے آئی ٹی کی وہ رپورٹ جس میں چار وفاقی نمائندوں کے دستخط ہیں میں سینیٹر یوسف بلوچ،وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ،فریال تالپور،شرجیل میمن اور ایک رکن قومی اسمبلی کے ناموں کے اندراج ہیں اور یہ بھی الزام عائد کیا کہ فریال تالپور کی مداخلت پر عزیر جان بلوچ کے سر کی قیمت کا نوٹی فکیشن واپس لیا گیا عزیر جان بلوچ نے حلفیہ بیان دیا ہے کہ مجھے اور میرے گھر والوں کو پیپلز پارٹی کی قیادت سے خطرہ ہے ہمیں جان سے نہ مار دیا جائے مکمل حفاظت کی درخواست کرتا ہوں زرداری اور اس کے سیاسی لوگوں کی انتقامی کارروائی کا خطرہ ہے۔انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے ایک ایک صفحہ پر عزیر جان بلوچ کے دستخط ہیں۔رائٹ آف انفارمیشن کے تحت 2017ء میں یہ رپورٹ لینے کے لیے سندھ حکومت کو درخواست کی ایسے قومی سلامتی کا معاملہ قرار دیا گیا 2017ء سے کیس چلتارہا 28 جنوری 2020ء کو سندھ حکومت نے رپورٹ پبلک کرنے کا حکم جاری کیا تین ماہ تک سندھ حکومت نے رپورٹ جاری نہیں کی کہ درخواست گزار متاثرہ فریق نہیں ہیں کراچی کی قتل و غارت گری سے سارے شہر کا امن تباہ ہوا۔ہم متاثرین میں شامل ہیں گینگسٹر کے کہنے پر پولیس کے تبادلے کیے جاتے مرضی کے ایس پی اور تھانیدار لگے اور یہی تھانیدار اور ایس پی ٹارگٹ کلنک کرنے والوں کی مدد کرتے تھے۔جے آئی ٹی کی رپورٹ جاری نہ ہوئی تو سندھ ہائی کورٹ نے توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا۔اس رپورٹ کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لانا چاہیے بجٹ پر تقاریر کرنے والے گینگسٹر کے لیڈر تھے سپیکر سے کہا کہ نوٹس لیں۔انہوں نے کہا کہ عزیر جان بلوچ کے حوالے سے چار وفاقی اور دوسندھ حکومت کے نمائندے شامل تھے 43 صفحات کی رپورٹ پر دستخط کے مرحلے پر ڈیڈ لائک پیدا ہو گیا تھا اصل رپورٹ میں ذوالفقار مرزا،فریال تالپور ،عبدالقادر پٹیل،سینیٹر یوسف بلوچ ،شرجیل میمن کے نام فرینڈز کے طور پر شناخت کیے گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ نبیل گبول بھی کہہ اٹھے ہیں کہ سندھ حکومت کی جاری رپورٹ میں بعض چیزیں مسنگ ہیں سیاسی وابستگیوں کی نشاندہی کو غائب کر دیا گیا ہے اصل اور سندھ حکومت کی رپورٹ میں فرق صاف ظاہر ہے انہوں نے کراچی کے مشہور جلیل قتل کیس کے حوالے سے دستاویزات کا حوالہ دیا اور کہا کہ اسمبلی میں بیٹھنے والے ایک رکن نے براہ راست اسے اغواء کر کے قتل کرنے کا ٹاسک دیا۔جبار لنگڑا اور بابا لاڈلہ کو استعمال کیا گیا مگر ٹاسک دینے والے کا نام سندھ حکومت نے غائب کر دیا۔2011ء میں یہ قتل ہوا عبدالرحمان ڈکیت قتل کے بعد عزیرجان بلوچ نے سارا گروپ سنبھال لیا اور پیپلز امن کمیٹی بنا لی شہر کے امن کو تباہ کرنے میں سی سی پی او،ایس ایس پی کے آفیسران بھی شامل تھے کوئی لے آئے میرے خلاف 62,63 کا ریفرنس لے آئے جو مرضی قانونی کارروائی کریں ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوں چیف جسٹس آف پاکستان سے ہاتھ جوڑ کر از خود نوٹس کی اپیل کرتا ہوں ان کا تعلق بھی کراچی سے ہے اور مجھ سے بہتر ہو کراچی کے حالات کو جانتے ہیں رپورٹ پر دستخط کرنے والوں اور جنہوں نے نشاندہی کی ان کو بلائیں اور پوچھیں میں خود بھی پٹیشن دائر کروں گا جنہوں نے قتل کروائے وہ پارلیمنٹ میں گھوم رہے ہیں اسمبلی میں بیٹھے ہیں عوامی ٹیکسوں پر عیاشی کررہے ہیں اب سنا ہے کہ شرجیل میمن صوبائی وزیر بننے والے ہیں علی زیدی نے کہا کہ جوا کے اڈوں،اغواء برائے تاوان،ٹارگٹ کلنک کے حوالے سے نشاندہی کر دی گئی ہے کراچی کے امن کو تباہ کیا گیا ۔ وزیراعظم پاکستان کا مکمل تعاون حاصل ہے اور کہا گیا ہے کہ پوری حکومت آپ کے ساتھ کھڑی ہے میری وزارت رہے یا نہ رہے امن کے لیے کام کرتا رہوں گا۔