ریٹائرمنٹ کے بعد مجھے اور اہلخانہ کو خطرہ ہوگا، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ
شیئر کریں
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد قاسم خان نے شہری کی جائیداد پر قبضے سے متعلق کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ 5 جولائی کو ریٹائرمنٹ کے بعد مجھے اور اہلخانہ کو پولیس سے خطرہ ہوگا۔ پیر کو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس قاسم خان نے شہری کی جائیداد پر قبضے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ پولیس والے درخواست گزار کے گھر گئے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست زیر التوا ہے آپ کو ایسی کیا ضرورت پیش آ گئی تھی کہ آپ جائیں اور پتہ چیک کریں، ایسا کرنے کا کس نے کہا تھا ۔ ایس پی صدر نے جواب دیا کہ ڈی آئی جی لیگل اور اے آئی جی لیگل سے مشاورت کی تھی۔ چیف جسٹس نے تھانے دار سے کہا کہ کیا رپٹ روزنامچے میں اندراج کیا تھا، کدھر ہے ایس ایچ او، کس نے ہدایت کی تھی کہ جا کر تم درخواست گزار کا پتہ چیک کرو؟۔ ایس ایچ او نے جواب دیا کہ کسی کی ہدایت پر نہیں بلکہ خود گیا تھا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایس ایچ او نے تسلیم کیا کہ اس نے نہ تھانے سے جاتے ہوئے اور نہ ہی واپسی پر رپورٹ کا اندراج کیا۔عدالت نے سرکاری وکیل سے پوچھا کہ کیا ابھی ایس پی پر فرد جرم عائد کی جا سکتی ہے، کیوں نہ انہیں چھ ماہ کی قید کی سزا سنا دوں، وہ قومیں تباہ ہو جاتی ہیں جو بڑوں کو چھوڑ کر چھوٹوں کو پکڑ لیتی ہے۔ایس پی صدر حفیظ الرحمن نے درخواست کی کہ عدالت سے معافی چاہتا ہوں۔ چیف جسٹس نے ایس پی صدر لاہور حفیظ الرحمن بگٹی کی معافی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا آپ کو چھ ماہ کی سزا سنانی ہے، پولیس والوں نے ریاست کے اندر ریاست بنا رکھی ہے، آج (منگل کو ) اپنے بیج وغیرہ اتار کر آنا، مجھے پتہ ہے کہ میری ریٹائرمنٹ کے بعد پولیس نے میری زندگی اجیرن کر دینی ہے، 5 جولائی کے بعد مجھے اور میرے اہل خانہ کو پولیس سے خطرہ ہوگا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایس ایچ او تھانہ ٹائون شپ اکمل خالد بغیر رپٹ کے اندراج کے درخواست گزار کے گھر گیا، پولیس کا خیال تھا کہ درخواست گزار انتقال کر چکا ہے، اے آئی جی لیگل محمد سلیم نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ اس نے حفیظ الرحمن سے کسی قسم کی مشاورت نہیں کی، ایس پی صدر حفیظ الرحمن نے عدالت میں غلط بیانی سے کام لیا، ایس پی کا اے آئی جی لیگل سے مشاورت سے متعلق بیان جھوٹا ہے، ایس ایچ او نے بیان دیا کہ اسے کسی سینئر افسر نے سید اشرف حسین کا پتہ چیک کرنے کا نہیں کہا تھا، گذشتہ سماعت پر ایس پی کو تمام مصدقہ دستاویزات فراہم کرنے کا حکم دیا تھا، دستاویزات سے واضح ہے کہ قبضہ کبھی بھی پولیس کو نہیں دیا گیا، اگر فریق نہ مانے تو پولیس کو متنازع اراضی پر کوئی حق نہیں ۔