135ارب روپے کی ٹیکس وصولی کے باوجودکراچی پر ٹکا خرچ نہیں ہوتا،پی ٹی آئی
شیئر کریں
(رپورٹ: علی کیریو)سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر اور اپوزیشن لیڈر نے دعویٰ کیا ہے کہ کراچی سے 135ارب روپے ٹیکس وصول ہوتا ہے اور کراچی پر خرچ نہیں ہوتا، واٹر بورڈ اور دیگر اداروں کا آڈٹ کروایا جائے، حکومت سندھ ٹیکس وصولی اور جاری ہونے والی رقم خرچ کرنے میں ناکام ہوگئی ہے، خرچ کی گئی رقم میں بڑے پیمانے پر کرپشن ہوئی ہے، جبکہ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے سندھ کو این ایف سی کی مد میں 90 ارب روپے کم جاری کئے، ایف بی آر محصولات کی وصولی میں ناکام رہا، سندھ کو سروسز ٹیکس کی وصولی کا اختیار دیا جائے۔ سندھ اسمبلی کا اجلاس ایک گھنٹہ تاخیر سے اسپیکر آغا سراج درانی کی زیرصدارت ہوا، اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر بلال غفار نے کہا کہ حکومت سندھ نے صرف 7 فیصد ٹیکس وصول کیا ہے، محکمہ زراعت کو 3ارب روپے ٹیکس وصول کرنا تھا، جو کہ صرف 8 فیصد وصول کرسکا، ملکیتوں پر بھی ٹیکس وصولی کا حدف مکمل نہ کیا جاسکا ، حکومت سندھ نے غیر ملکی امداد کے 52 ارب روپے اپنے ٹیکس وصولی میں ظاہر کردیے ہیں۔ورکر ویلفیئر بورڈ کے 10 ارب روپے اور زمین فروخت کرکے 31ارب روپے بھی ٹیکس وصولی میں دکھائے گئے ہیں،زمین بحریہ یا اومنی گروپ کو فروخت کی گئی ہے،بورڈ آف ریونیو 8،آبپاشی 18 اور توانائی صرف 2 فیصد ٹیکس وصول کرسکا ہے۔ اپوزیشن لیڈر حلیم عادل شیخ نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی 13سال کی حکومت میں 7 ہزار ارب روپے بجٹ مختص ہوا ہے جس میں ترقیاتی بجٹ 15سو ارب روپے تھے ، تعلیم پر ایک ہزار 2 سو ارب روپے خرچ ہوچکے ہیں، لیکن لاکھوں بچے اسکولوں سے باہر ہیں، 4 لاکھ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں، لاش اٹھانے کیلئے ایمبولنس نہیں جبکہ ٹڈی دل اور کتے پکڑنے کیلئے کروڑوں روپے کی گاڑیاں خرید کی جارہی ہیں، دریائے سندھ، پھلیلی کینال، کے وی فیڈر اور ایم این وی ڈرین میں سیوریج کا پانی خارج کیا جاتا ہے، پی پی نے 13سال میں کوئی بھی ایک محکمہ صحیح نہیں کیا۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے سندھ کو 634ارب روپے دینے تھے، لیکن 90 ارب روپے کم ملے ہیں، پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت نے سندھ میں ترقیاتی منصوبوں کی رقم میں اربوں روپے کی کمی کردی ہے، مالی وسائل کی کمی کے باوجود 435 اسکیمیں مکمل کی ہیں اور مزید 572اسکیمیں مکمل کریں گے،کراچی میں ترقیاتی کام کم ہوئے ہیں اور زیادہ ہونے چاہیے، گل بائی سے ویسٹ سیکشن، ملیر مہران ایکسپریس وے روڈ بنائے جارہے ہیں ، سائٹ تباہ ہے میں تسلیم کرتا ہوں اور سائٹ میں روڈ بنا رہے ہیں، یلو لائن ورلڈ بینک اور ریڈ لائن ایشیائی ترقیاتی بینک کے تعاون سے شرو ع کی جائے گی، ریڈ لائن وفاقی حکومت کی گرین لائن سے پہلے شروع ہوگی۔