خلافت ِ عثمانیہ پر ایک نظر
شیئر کریں
ایم سرورصدیقی
ْْْْ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غازی ارطغرل ؒ کے جنگجو تیسرے بیٹے عثمان بے نے خلافت ِ عثمانیہ کی بنیاد رکھی جس نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی بحالی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ ریاست جو درحقیقت ان کے والدکے ایک خواب کی تکمیل کہی جاسکتی ہے ،یہ سلطنت کئی برِ اعظموںپر محیط تھی ۔انگریزوںنے ایک سازش کے تحت مسلمانوںکو کمزورکرنے کیلئے خلافت ِ عثمانیہ کو ختم کرنے میں کلیدی کرداراداکیا ۔اس میں’’ اپنوں‘‘کاکردار بھی بڑابھیانک اور خوفناک ہے۔ خلافت ِ عثمانیہ منگولوں،صلیبیوں،بازنطینیوں، اور سلجوق ریاست کے غداروں کے لیے ایک ڈروانا خواب تھا۔تاریخی اعتبارسے خلفائے راشدین کے بعدحضرت امیرمعاویہ ؓ کا دور سب سے مستحکم رہا۔ ا ن کے ٹھوس اور انقلابی اقدامات نے ایک جدید ریاست کے تصورکو اجاگر کیا۔ دنیا میں پہلا بحری بیڑہ بھی حضرت امیرمعاویہ ؓکے دور ِ حکومت میں بنایا گیافتوحات کے لحاظ سے بھی ان کا دور اسلامی تاریخ کا سنہری دور کہا جا سکتاہے۔ ان کے بعد خلافت بادشاہت میں تبدیل ہو گئی۔ موروثی بنیادوںپر خلیفہ کا چنائو کیا جانے لگا۔خلیفہ کسی کو جوابدہ نہیں تھا بنو امیہ کے 90سالہ دور ِ حکومت میں حضرت عمرؒبن عبدالعزیز نے خلفائے راشدین کی یاد تازہ کردی۔ انہیں اسی بنیادپر پانچواں خلیفہ ٔ راشد کہا جاتاہے۔ بنو امیہ کی خلافت کے بعد بنو عباس نے500سال تک حکومت کی۔ عباسی دور کے آخری دنوںمیں خلافت برائے نام رہ گئی ۔متعدد ممالک اور شہروںمیں شاہی خاندان کے امراء اور طاقتور جرنیلوںنے اپنی اپنی حکومت کااعلان کررکھا تھا جو اپنے آپ کو عباسی خلیفہ کا تابع فرمان قرارد یتے لیکن اس کے باوجودمساجدمیں خطبہ خلیفہ کے نام کا ہی پڑھا جاتا تھاجب ہلاکو خان نے بغدادپر حملہ کرکے ظلم و بربریت کا بازار گرم کیا بیشتر عباسی خاندان کے افراد شہیدہوگئے اس طرح پانچ صدیوںپر محیط عباسی خاندان کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا ۔یہ عملی طورپر خلافت کا خاتمہ ثابت ہوا۔
اس کے کچھ عرصہ بعد مصر کے بادشاہ ہیرس نے واحد زندہ بچ جانے والے ایک عباسی شہزادے کو مستنصرباللہ کا لقب دے کر قاہرہ کا خلیفہ بنا دیا مگرسولہویں صدی عیسوی میں مصر کا آخری خلیفہ ترکی کے فر مانروا سلطان سلیم اول کے حق میں خلافت سے دستبردار ہوگیا۔ کہا جاتاہے خلافت ِ عثمانیہ 1924ء تک ایک طاقتور مسلم ا سٹیٹ تھی ۔خلافت ِ عثمانیہ کو آخر کار جدید ترکی کے بانی کمال اتاترک نے ختم کردیا۔ اس نے خلیفہ عبدالمجید کو برطرف کرکے ترکی میں ایک جمہوری حکومت بنانے کااعلان کیا۔ بہرحال ارطغرلؒ غازی کی پیدائش 1191 ء میں ہوئی اور وہ اپنی وفات 1280 ء تک حکمران رہے۔ کچھ کتابوںمیں آپؒ کی وفات 1281 ء درج ہے۔ ارطغرلؒ غازی کے تین بیٹے گندوز، ساؤچی اور عثمان تھے ۔ خلافت کی بنیاد ارطغرل غازی ؒرکھ کر گئے تھے۔ تیسرے بیٹے عثمان نے 1291 میں اپنے والد ارطغرلؒ غازی کی وفات کے 10 سال بعد باقاعدہ خلافت کااعلان کیا۔ اور عثمان کے نام سے ہی خلافت کا نام خلافت عثمانیہ رکھا گیا ۔ اسی خلافت نے 1291 ء سے لے کر 1924 ء تک 600 سال تک ان ترکوں کی تلواروں نے امت مسلمہ کا دفاع کیا۔ اس خلافت میں آج کے شام ،عراق، اردن،ایران، مصر،لیبیا،سوڈان کے ممالک شامل تھے جبکہ آ ج کا سعودی عرب،قطر،کویت،عمان اور متحدہ عرب امارات پر مشتمل علاقے حجاز کہلاتے تھے ۔یہ بھی خلافت ِ عثمانیہ کا حصہ تھے۔ خلافت ِ عثمانیہ نے مسجد نبوی ﷺ،گنبد خضریٰ اور مسجد حرام کی جدید تعمیر، سیدنا امیر حمزہؓ کا مزار ، مکہ مکرمہ تک ایک عظیم الشان نہر ، آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار پرانوار کے گرد سیسہ پلائی دیوار ،مکہ مکرمہ تک ٹرین منصوبہ جیسے عظیم کارنامے سرانجام دیئے ۔ خلافت ِ عثمانیہ میں ایک جدید اسلامی مملکت کا تصور پیش کیا گیا ۔ جس کے حکمرانوںنے اپنی خداداد صلاحیتیوں سے دنیا بھرمیں اپنی قابلیت اورفتوحات کا لوہا منوایا۔
ارطغرلؒ غازی کا خاندان وسطہ ایشیا سے یہاں آیا تھا اور انکے جدِ امجد اوغوز خان khan Oghuzکے بارہ بیٹے تھے جن سے یہ بارہ قبیلے بنے جن میں سے ایک یہ قائی قبیلہ Kayi تھا جس سے ارطغرلؒ غازی تعلق رکھتا تھا۔ آپ کے والد کا نام سلیمان شاہ تھا، ارطغرل غازی کے تین اور بھائی تھے ،صارم،ذوالجان اور گلدارو ۔آپ کی والدہ کا نام حائمہ تھا۔ آپ کا قبیلہ سب سے پہلے وسطہ ایشیا sia A Central سے ایران پھر ایران سے اناطولیہ Anatolia آئے تھے۔ منگولوں کی یلغار سے نمٹنے کیلئے جہاں سلطان علاؤ الدین جو سلجوک Seljuk سلطنت کے سلطان تھے اور یہ سلجوک ترک سلطنت سلطان الپ ارسلان Arslan Alap Sultan نے قائم کی تھی 1071 میں byzantine کو battle of Manzikert میں عبرت ناک شکست دے کے اور سلطان الپ ارسلان تاریخ کی بہت بڑی شخصیت تھی اور اسی سلطنت کا آگے جاکے سلطان علاؤ الدین بنے تھے۔ ارطغرلؒ غازی اور ان کے صاحبزادے عثمان غازی نے ساری زندگی ترک قبائل کو متحد کرنے کے لیے صرف کردی۔ اس ریاست کے قیام سے بہت سال پہلے عثمان غازی نے ایک خواب دیکھا کہ اس کے سینے سے ایک درخت نمودارہوا جو دیکھتے ہی دیکھتے ایک تناور درخت بن گیا جس نے پورے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اس کی شاخیں پھیلتی چلی گئیں۔ ان دنوں12 ترک خانہ بدوش قبائل ان کے سردار اورقبائل در قبائل بکھرے ہوئے تھے ۔ہر قبیلے کے اپنے مسائل تھے جس کی وجہ سے موسم اور حالات ان پر اکثراثرانداز ہونے کی وجہ سے وہ مسلسل ہجرت کرتے رہتے ۔ اس وقت سلجوک بادشاہ سلطان علاؤالدین کے سائے تلے یہ 12 قبیلے اوغوز خان khan Oghuzرہتے تھے اور اس قائی قبیلے کے چیف ارطغرلؒ غازی بنے۔ اپنے والد سلیمان شاہ کی وفات کے بعدسب سے پہلے اہلت Ahlat آئے تھے پھر اہلت سے حلب Aleppo گئے تھے۔ 1232 جہاں سلطان صلاح ؒالدین ایوبی کے پوتے العزیز کی حکومت تھی، سب سے پہلے ارطغرلؒ غازی نے العزیز کو اس کے محل میں موجود غداروں سے نجات دلائی پھر اس سے دوستی کی پھر سلطان علاو الدین کی بھتیجی حلیمہ سلطان سے شادی کی۔جس سے آپ کو تین بیٹے ہوئے جنہوں نے ایوبیوں اور سلجوقیوں کی دوستی کروائی، صلیبیوں کے ایک مضبوط قلعے کو فتح کیا جو حلب کے قریب تھا،اس کے بعد ارطغرلؒ غازی سلطان علاؤ الدین کے بہت قریب ہوگیا ۔اس کے بعد منگولوں کی یلغار قریب ہوئی تو ارطغرل غازی نے منگول کے ایک ایم لیڈر نویان کو شکست دی ۔نویان منگول بادشاہ اوکتائی خان کا hand Right تھا ۔اوکتائی خان چنگیز خان کا بیٹا تھا اور اس اوکتائی کا بیٹا ہلاکو خان تھا جس نے بغداد کو اس قدر روندا تھا کہ بغداد کی گلیاں خون سے بھر گئی تھیں۔ دریائے فرات سرخ ہو گیا تھا اسی نویان کو شکست ارطغرل غازی نے دی تھی اور پھر ارطغرل غازی اپنے قبیلے کو لے کر سوغت Sogut آئے بالکل قسطنطنیہ Contantinople کے قریب۔ اور پہلے وہاں بازنطین Byazantine کے ایک اہم قلعے کو فتح کیا اور یہیں تمام ترک قبیلوں کو اکٹھا کیا اور سلطان علائوـ الدین کے بعد آپ کے بیٹے غیاث الدین سلطان بن گئے ۔ان کی بیٹی کے ساتھ ہی عثمان کی شادی ہوئی ایک جنگ میں سلطان غیاث الدین شہید ہو گئے تو عثمان غازی سلطان بن گئے اور ان کی نسل سے جاکے سلطان محمد فاؒتح تھے جس نے 1453 میں جاکے قسطنطنیہ فتح کیا تھا اور اسی پہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی غیبی خبر پوری ہوئی۔ تاریخ میں ارطغرل غازی جیسے جنگجو بہت کم ملتے ہیں لیکن ہماری نسل ان کو جانتی نہیں ۔بہت بہادر جنگجو تھے آپ ۔ہر واریئر جنگجو اسلام میں گزرا اس پہ جس نے کچھ نہ کچھ اسلام کے لیے کیا۔ اس کا ایک روحانی پہلو ضرور ہے۔ اسکے پیچھے ایک روحانی شخصت ضرور ہوتی ہے جسکی ڈیوٹی اللہ پاک نے لگائی ہوتی ہے تاریخ
اٹھا لیں اسلام کے آغاز سے لے کر اب تک آج بھی اگر کوئی اسلام اور امت مسلمہ کے لیے کوئی ڈیوٹی کر رہا ہے تو اسکا روحانی پہلو بھی ضرور ہوگا۔ اس جنگجو ارطغرل غازی کے پیچھے ایک روحانی شخصیت شیخ محی الدینؒ ابن العربی تھے ( آپ سینکڑوں عظیم الشان کتب کے مصنف ہیں۔ اس کے ساتھ آپ نے قرآن پاک کی مایہ ناز تفسیر بھی لکھی۔ علم کی دنیا کے بادشاہ جانے جاتے تھے اور تصوف میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے) جو اندلس سے ارطغرل غازی کی روحانی مدد کو پہنچے تھے۔ امام ابن العربیؒ کی دعا اور مددنے ارطغرل غازی کو دو مرتبہ موت کے منہ سے نکالا ۔ وہ ہروقت ارطغرل غازیؒ کی روحانی مدد کرتے رہتے تھے۔ ا اللہ پاک ارطغرل غازی کا رتبہ بلند فرمائے اور ہزاروں رحمتیں ان پر نازل ہوں۔ خلافت ِ عثمانیہ کو ایک جدید ریاست کہاجاسکتاہے جس نے پوری دنیا پر گہرے اثرات مرتب کیے اور خطے میں ایک نئے تہذیب و تمدن نے جنم لیا۔ خداکرے دنیا پر پھر خلافت کا دور دورہ ہوجائے تاکہ مسلمانوںکی نشاۃ ِثانیہ ہوسکے۔(آمین)
٭٭٭