میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مودی اورہندو انتہا پسندوں کا جنگی جنون بھارت کو نگلنے لگا

مودی اورہندو انتہا پسندوں کا جنگی جنون بھارت کو نگلنے لگا

ویب ڈیسک
جمعه, ۸ مارچ ۲۰۱۹

شیئر کریں

مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ کے مقام پر ہونے والے خودکش حملے نے بھارت کو ایک مرتبہ پھر پاکستان پر الزام تراشیوں کا جواز مہیا کیا اوریوں دونوں ملکوں کی اعلی قیادت کے درمیان سرد جنگ کی کیفیت پیدا ہوئی جو کسی وقت بھی بھارت کی احمقانہ پالیسی کی بدولت گرم جنگ میں تبدیل ہوسکتی تھی۔ خودکش حملہ آفسوس ناک امر ہے لیکن دیکھا یہ جانا چاہئے کہ اس انتہائی انتہا پسندی کے اقدام پر کس نے مقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں کو مجبور کیا؟ فوری طور پر بڑی قوتوں نے اس بات کا احساس کرتے ہوئے کہ اگر پاک بھارت جنگ کا آغاز ہوتا ہے تو اس سلسلے میں نہ صرف خطے میں بڑی تباہی ااسکتی ہے بلکہ بین الالقوامی سطح پر بھی یہ جنگ دنیا کو بوری طرح جھنجھوڑ دے گی خصوصا مشرق وسطی کی جو صورتحال ہے اور بڑی قوتیں جس انداز میں اس میں ملوث ہیں یہ جنگ بیک وقت مزید کئی محاذ کھولنے کا سبب بن سکتی ہے۔ ویہ بھی ایک ایسے وقت میں جب امریکہ افغانستان سے جان چھڑانا بھی چاہتا ہے اور اپنی افغان مٹی میں ملی ہوئی ناک بھی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ذرائع کے مطابق امریکی حکومت نے مودی سرکار کو دو مرتبہ خفیہ پیغام بھیجا ہے جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہی بنے گا کہ ’’کہ لالہ جی پاکستان کے ہاتھوں کہیں اپنے ساتھ ساتھ افغانستان میں ہماری مٹی مزید نہ پلید کروا دینا ‘‘۔ امریکہ کو اس وقت افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی شدید ضرورت ہے اس لئے وہ یہ نہیں چاہتا کہ بھارت کے ساتھ کشیدگی کے دوران وہ افغانستان میں قیام امن کے لئے جو کردار ادا کررہا ہے اس پر سے ہاتھ نہ اٹھا لے۔ بات یہیں تک نہیں رکی بلکہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان بھی اپنے بھارت کے دورے کو مکمل کرکے جاتے جاتے مودی سرکار کو پیغام دے گئے ہیں کہ ’’معاملات مذاکرات سے حل کرنے کی کوشش کی جائے بصورت دیگر خطے میں سعودی سرمایہ کاری کو نقصان پہنچ سکتا ہے‘‘ بلاشبہ یہ بھارت کے لئے ایک اہم پیغام تھا جو سعودی عرب نے نئی دہلی کو دیا ویسے بھی سعودی عرب جس انداز کی بھاری سرمایہ کاری کرنے جارہا ہے وہاں کسی بھی قسم کی عسکری کشیدگی بڑے نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔ دوسری طرف چین کھڑا ہے جو پہلے ہی پاکستان میں سی پیک کے نام پر اپنی تاریخ کا اہم ترین قدم اٹھا چکا ہے وہ کسی طور بھی نہیں چاہئے گا کہ بھارتی نیتا اپنا الیکشن بچانے کے لئے پورے خطے کی سلامتی داؤ پر لگا دیں۔ اس سارے معاملے میں سب اہم پیغام وزیر اعظم عمران خان کا تھا جنہوں نے واضح انداز میں کہہ دیا کہ اس مرتبہ پاکستان سوچے گا نہیں بلکہ کارروائی کر ڈالے گا۔اس سارے معاملے تشریح پاکستان آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور دنیا کے سامنے ایک پریس کانفرنس کی شکل میں رکھ چکے ہیں۔ان تمام باتوں کے ساتھ وہ واضح کرچکے ہیں کہ اگر بھارت کی جانب سے جارحیت ہوئی تو اسے حیران کن جواب کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دوسری جانب امریکہ، چین ،برطانیہ، روس اور فرانس کے مصنوعی سیاروں نے اپنے اپنے ملکوں میں لاہور اور سیالکوٹ سیکٹر پر بھارتی فوج کی نقل وحمل کی تصاویر بھی ارسال کی ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر ہونے والی سبکی پر پردہ ڈالنے کے لئے بھارتی نیتا کسی وقت بھی کوئی احمقانہ قدم اٹحا سکتے ہیں یہی وجہ ہے پاکستان کی جانب سے پہلے ہی ہائی الرٹ کی پوزیشن ہے۔بھارت کی انتہا پسند مودی حکومت اور اس کے حواریوں نے پورے بھارت میں ایک جنگی جنون پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ بھارت کے مختلف حصوں میں تعلیم اور روزگار کی غرض سے مقیم کشمیروں کو بھی نہیں بخشا جارہا انہیں پولیس اور سیکورٹی فورسز کی موجودگی میں شدید تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے دوسری جانب بھارت کے مختلف شہروں میں تعلیم کی غرض سے آئی ہوئی کشمیری لڑکیوں کو ہندو غنڈے اغوا کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں یہ صورتحال کہاں جائے گی اس کی سنگینی کا اندازہ بھارتی انتہا پسند قیادت نہیں کررہی۔
اس ساری صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ بھارتی انتہا پسند حکومت کے بھڑکنے کا سبب صرف پلوامہ میں ہونے والا خودکش حملہ ہی نہیں ہے بلکہ اس حملے کی آڑ میں بھارت نے پاکستان پر جو الزام ترشیاں کی ہیں اور جنگ کی دھمکی دی ہے اس میں پاکستان میں ہونے والی بھاری بین الالقوامی سرمایہ کاری اور افغانستان سے امریکہ کے نامراد ہوکر نکلنے کی کوششوں کا بھی بڑا دخل ہے۔ ممکن ہے ہمارے قارئین کو یاد ہوکہ جس وقت 1974ء میں لاہور کے مقام پر اسلامی ملکوں کی سربراہ کانفرنس ہوئی تھی اس کانفرنس کے انعقاد پر امریکہ، سوویت یونین اور بھارت میں خاصی بھگدڑ مچی تھی کیونکہ 1924ء میں خلافت اسلامیہ کے سقوط کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب تمام مسلم امہ کے سربراہان ایک چھت کے نیچے جمع ہوگئے تھے امریکہ سوویت یونین اور بھارت کو نظر آنے لگا تھا کہ شاہد کو اسلامی بلاک وجود میں آنے لگا ہے اور اگر پاکستان ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اس وسائل کے معاملے میں امریکہ اور مغرب سے انحصار ختم ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اشارے پر اس کانفرنس کے محض چار ماہ بعد ہی بھارت نے اپنا پہلا جوہری دھماکہ کیا تھا جو محض جوہری دھماکہ نہیں تھا بلکہ اس میں پاکستان سمیت تمام مسلم امہ کو یہ پیغام دیا گیا تھا کہ وہ پاکستان پر جس قسم کا انحصار کرنے جارہے ہیں اسی پاکستان کے پڑوس میں ایک جوہری قوت بھی موجود ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ پاکستان نے اس جوہری قوت کے حصول کو اپنی ضد بنا لیا اور بالآخر اسے حاصل کرکے دم لیا۔ یہی صورتحال گوادر کے فعال ہونے اور سی پیک کے قیام کے بعد پیدا ہوئی وہ بھی ایسے وقت میں جب امریکہ افغانستان سے اپنا بوریا بستر لپیٹنے کے چکر میں ہے وہ بھی صورت میں کہ وہ افغان طالبان کے خلاف اپنی ’’چار سو برس ایڈوانس خفیہ ٹیکنالوجی‘‘ UFOکو بھی استعمال میں لایا جس کے شوائد کے کلپ اس وقت یو ٹیوب پر بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔۔۔۔۔لیکن اس کے باوجود اسے افغان خرقہ پوشوں کے سامنے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔اس صورتحال نے بھارتی نیتاؤں کو بدحواس کیا ہوا ہے کہ ایک طرف افغانستان میں بھارت کو کئی بلین ڈالر کی سرمایہ کاری لگاکر بھی اس سرزمین سے نکلنا پڑے گا دوسری جانب سی پیک اور گوادر جس وقت پوری طرح فعال ہوں گے تو پاکستان پپرچاروں طرف سے ہن برسے گاجس کے بعد پاکستان کی موجودہ پتلی معاشی صورتحال قصہ پارنیہ بن جائے گی ۔ دوسری جانب مقبوضہ کشمیر کی عوام بھارت کے خلاف اب نہیں تو کبھی نہیں کی پوزیشن میں آچکی ہے یہ تمام حقائق بھارتیوں کے لئے ایک ڈراؤنا خواب بن چکے ہیں۔ نریند مودی تو ایک کٹھ پتلی ہے بھارت پر حقیقی راج کرنے والے ’’برہمن اسٹیبلشمنٹ‘‘ آنے والے وقت کی چاپ سن رہی ہے۔ امریکہ اور اسرائیل بھارت کو تھپکیاں دے کر خود بیوقوف بناتے رہے ہیں انہوں نے اپنا عسکری گباڑ کانہ بھارت کو بیچ کر اسے یہ تاثر دیا کہ خطے میں پاکستان اور چین کے خلاف اس کی پشت پر وہ موجود ہیں لیکن اب خود امریکہ موجودہ صورتحال میں پاک بھارت جنگ کے تصور سے گھبرا رہا ہے کہیں اسے افغانستان میں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔
اب سورتحال یہ ہے کہ پاکستان کے مطالبے پر کشمیر کے معاملے پر او آئی سی گروپ کا اجلاس منعقد ہونے جارہا ہے جہاں بھارت بھی مندوب کی حیثیت سے شرکت کرسکے گا۔ او آئی سی کی تاریخ میں کبھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا بلکہ عرب لیگ اور او آئی سی کے حوالے سے یہ کہا جائے کہ یہ دونوں تنظیمیں مسلم عوام کو ٹھنڈا کرنے کے لئے قائم کی گئیں تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ دہائیوں پر پھیلی ہوئی تاریخ میںآج تک ان دونوں پلیٹ فارموں پر کبھی کسی مسلمان ملک کا مسئلہ حل نہیں ہوسکا ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو لیبیا، عراق، شام ، مقبوضہ فلسطین ، مقبوضہ کشمیر اور یمن میں موجودہ صورتحال ابھر کا سامنے نہ آتی۔لیکن اس اجلاس کے بہانے بھارت مقبوضہ کشمیرمیں ہونے والی سبکی سے جان چھڑانے کی کوشش کرے گا۔
اقوام متحدہ ہو یا آو آئی سی انہیں معلوم تو ہوگا کہ3 جون 1947ء میں جب تقسیم ہند کا فارمولا منظور ہوا تو برصغیر کی 562 ریاستوں کو آزاد چھوڑ دیا گیا تھا کہ وہ اپنی جغرافیائی اور معاشیاتی حقائق کے پیش نظر اپنی اپنی آبادی کے خواہشات کے مطابق بھارت یا پاکستان سے الحق کر لیں۔ ریاست جموں و کشمیر کی 80 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی اس کی سرحدوں کے 600میل پاکستان کی سرحدوں کے ساتھ مشترک تھے۔ ریاست کی واحد ریلوے لائن سیالکوٹ سے گزرتی تھی اور بیرونی دنیا کے ساتھ ڈاک اور تار کا نظام بھی پاکستان سے جڑا تھا۔ ریاست کی دونوں پختہ سڑکیں راولپنڈی اور سیالکوٹ سے گزرتی تھیں اور کشمیر ان سب حقائق کے پیش نظر ریاست جموں و کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق لازمی طور پر ایک قدرتی اور منطقی فیصلہ ہونا چاہیے تھا لیکن مہا راجہ ہری سنگھ اور کانگریسی لیڈروں کا دلی عزائم اس فیصلہ کے بالکل برعکس تھے۔مقاصد کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے انھوں نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ مل کر سازش کا جال بنا جس کے پھندے میں مقبوضہ ریاست کے بے بس اور مظلوم باشندے آج تک بری طرح گرفتار ہیں۔
جب 14 اگست 1947ء کو تقسیم ہند کے منصوبے کا اعلان ہوا تو ریڈ کلف نے و اضح طور پر جانبداری کا مظاہرہ کیا اور ناانصافی پر مبنی کئی فیصلے کیے۔ ان سب میں وادی کے حوالے سے اہم یہ تھا کہ گور داسپور کا علاقہ جو مسلم اکثریت تھا اسے بھارت کے ساتھ شامل کر دیا گیا تاکہ بھارت کو ریاست تک پہنچنے کا زمین راستہ دیا جا سکے۔ مہاراجہ بھی پہلے ہی یہ سازباز کانگریسی لیڈروں کے ساتھ کر چکا تھا۔ لیکن اس بات کی خبر جب غیور کشمیری باشندوں کو ہوئی تو انھوں نے طے کیا کہ وہ ہر ڈوگرہ سے لڑیں گے اور ریاست کا الحاق پاکستان سے کروائیں گے۔ لیکن ا س سے قبل ڈوگرہ فوج نے صوبہ جموں میں مسلمان اکثریت کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس کے لیے مسلمانوں کے قتل عام اور ریاست بدری کا طریقہ کار اپنایا گیا۔ چنانچہ اس وقت جموں میں ہزاروں مسلمانوں کو شہید اور اغوا کیا گیا بہت سی عورتیں جنھیں پاکستان لے جانے کے معاملے میں ٹرکوں میں بٹھایا گیا، وہ آر ایس ایس کے غنڈوں کے حوالے کر دی گئیں۔ جنھوں نے ان کی عصمت دری کی اور بعد ازاں انھیں قتل کر دیا۔ یوں جموں میں لاکھوں مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔
جموں کے بعد مہاراجہ کو پونجھ کی فکر سوجھی۔ پونجھ میں 95 فیصد مسلمان تھے۔ یہاں بہت سے ریٹارڈ فوجی بھی تھے۔ ان تک جب مسلمانوں کے قتل عام کی اطلاع پہنچی تو یہ فوراً لڑنے کو تیار ہو گئے۔ یہاں سردار عبدالقیوم نے دھیر کوٹ سے گوریلا جنگ کا آغاز کیا۔ وادی کے لوگوں نے عورتوں او ربچوں کو پاکستان منتقل کرنا شروع کیا اور خود سر پر کفن باندھ کر ڈوگرہ فوج سے لڑنا شروع کر دیا۔ چنانچہ راولاکوٹ، وادی جہلم اور بہت سے علاقوں سے ڈوگرہ فوج فرار ہو گئی۔
کشمیر کے لوگوں کی رشتہ داریاں افغانوں اور پٹھانوں کے محسود اور دیگر قبائل سے تھیں۔ عورتیں اور بچے جب وہاں پہنچے تو ان پر ظلم کی داستانیں سن کر ان کے خون کھول اٹھے۔ چنانچہ ان علاقوں سے لشکر کشمیر کی طرف روانہ ہوتے۔ چنانچہ دنوں ہی دنوں میں مظفر آباد اور ایبٹ آباد کے درمیان ہٹ راوی کے جنگل میں ایک بڑا لشکر جمع ہو گیا۔ خورشید انور نے اس لشکر کی کمان سنبھالی اور انھوں نے ڈوگرہ فوج سے لڑنا شروع کیا۔ چنانچہ مظفر آباد، کوٹلی، راولاکوٹ اور موجودہ آزاد کشمیر کو نہ صرف ڈوگرہ بلکہ ہندوستانی فوج سے بھی آزاد کروا لیا گیا اور مہاراجہ اس وقت بھارت فرار ہوچکا تھا۔اس نے بھارت سے مدد مانگی۔ بھارت نے اس شرط پر مدد فراہم کی کہ اگر وہ الحاق کی دستاویزات پر دستخط کر دے۔ مہاراجہ نے فوراً حامی بھر لی چنانچہ بھارتی فوجیں بھی سرینگر اور وادی کے دیگر حصوں میں پہنچنا شروع ہو گئیں تھیں۔
یوں جو حصہ مجاہدین نے آزاد کرواا لیا وہ آزاد کشمیر کہلایا جبکہ باقی ماندہ کشمیر پر بھارت نے اپنا غاصابانہ قبضہ جما لیا۔ چونکہ بھارت اپنی گھناؤنی کارروائیوں سے واقف تھا سو اس نے دنیا کے سامنے یہ اعلان کرنا شروع کیا کہ کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق محض عارضی اور وقتی ہے۔ الحاق کا حتمی فیصلہ جموں و کشمیر کے باشندوں کی آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدازنہ رائے شماری کے ذریعے کرا لیا جائے گا۔ اس بات کا اعلان کیا جواہر لعل نہرو نے کیا۔ چنانچہ اقوام متحدہ میں بھارت کی طرف سے دائر کردہ جنگ بندی کی اپیل منظور کر لی گئی اور بھارت نے اقوام متحدہ میں قرار داد پیش کی کہ کشمیریوں کا فیصلہ استصواب رائے سے کیا جائے گا اور انھیں حق خودارادیت دیا جائے گا۔ یوں 15اگست 1948ء کو اقوام متحدہ میں قرار داد حق خود ارادیت منظور کی گئی لیکن بھارت آج تک اس پر عمل کرنے سے گریزاں ہے اور مسلسل وہاں کے مظلوم مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔
تقسیم ہند کے بعدبھی کشمیریوں نے اپنی جدوجہد آزادی کو جاری رکھا اور اس میں حالات کے مدافق عروج و زوال آتے رہے۔ 1966 ء میں محمد مقبول بٹ نے نیشنل لبریشن فرنٹ کی بنیاد رکھی اس تحریک کا مقصد بھی کشمیریوں کو آزادی دلوانا تھا۔سوویت کے ٹوٹنے کے بعد تحریک آزادی کشمیر کو ایک نئی مہلت ملی۔ یہاں بھی گوریلا جنگ کا آغاز ہو ااور بہت سی مسلح آزادی کی تنظیمیں وجود میں آئیں۔ ان کے وجود میںآنے سے 1990ء میں تحریک آزادی کشمیر میں بہت تیزی آئی۔ جس کے نتیجے میں وادی کے حالات بہت زیادہ خراب ہوئے۔ بھارت سرکار اور فوج نے اس تحریک کو دبانے کے لیے ہر طرح کے مظالم اختیار کیے اور ہلاکو و چنگیز خان کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا۔1999ء میں جب کارگل کے مقام پر جنگ چھڑی تب بھی مسئلہ کشمیر حل ہونے کے قریب تھا لیکن بھارت نے ایک بار پھر اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی دہائی دی جس کو پاکستان نے مان لیا اور یوں تب مسئلہ کشمیر حل نہ ہو سکا۔
9/11 کے بعد جب نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کیا گیا تو امریکہ افغانستان میں آیا بھارت نے خطے میں اس کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت سے اقدامات کیے۔ جس کے باعث تحریک آزادی کشمیر کمزور ہوئی لیکن وہ مکمل طور پر ختم نہ کی جا سکی۔ اس کے مظاہرے وقتاً فوقتاً ہمیں دیکھنے کو ملتے رہے۔
آج جب امریکہ اس خطے سے اپنے مشن مکمل کر چکا ہے اور آج بھی کشمیریوں کے حوصلے اسی طرح بلند ہیں۔ وہ آج بھی بھارت سے اس طرح بیزار اور آزادی کے اسی قدر متوالے ہیں اس کی واضح مثالیں کشمیر میں بھارتی افواج پر ہونے والے حملے ہیں۔ کشمیریوں نے ایک بار پھر پوری دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ ہم ہر صورت بھارت سے آزادی حاصل کر کے رہیں گے اور پاکستان سے الحاق ہی کشمیریوں کی منزل ہے۔ اس حوالے سے بڑی قوتوں کو بھی عقل کے ناخون لینے چائیں کیونکہ اس مرتبہ کشمیر کے مسئلے پر پاک بھارت جنگ چھڑ تو یہ ماضی سے بالکل مختلف ہوگی یہ صرف خطے تک محدود نہیں رہے گی بلکہ بڑی قوتوں کو بھی اس مسئلے پر خاموشی کی قیمت چکانا پڑ سکتی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں