میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سینیٹ کی کرسی : کیا دونوں بڑی پارٹیاں اس سے محروم رہیں گی؟

سینیٹ کی کرسی : کیا دونوں بڑی پارٹیاں اس سے محروم رہیں گی؟

منتظم
جمعرات, ۸ مارچ ۲۰۱۸

شیئر کریں

جیسا کہ سب کومعلوم ہے کہ سینیٹ کے انتخابات کی تکمیل کے ساتھ ہی اب سینیٹ کی چیئرمین شپ کے لیے رسہ کشی عروج پرپہنچ چکی ہے، پاکستان مسلم لیگ ن اورپاکستان پیپلز پارٹی دونوں ہی ایک دوسرے پرہارس ٹریڈنگ کاالزام لگارہے ہیں اور اطلاعات کے مطابق دونوں ہی اس کام میں شدومد سے مصروف ہیں، یہ بھی اطلاعات ہیں کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے سربراہ اورجوڑ توڑ کے ماہر آصف زرداری نے مسلم لیگ کے نامزد سینیٹر کو سینیٹ کاچیئرمین بننے سے روکنے کے لیے ایک قدم پیچھے ہٹ کر کسی ایسے آزاد رکن سینیٹ خاص طورپر بلوچستان سے تعلق رکھنے والے رکن سینیٹ کی حمایت کرکے اسے سینیٹ کے چیئرمین کی کرسی پر بٹھانے کے لیے ذہن بنالیاہے، تحریک انصاف اوربلوچستان اورفاٹا کے آزاد ارکان جس کی حمایت پر یکسو ہوجائیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کی اس مجوزہ حکمت عملی پر اسے کراچی سے متحدہ قومی مومنٹ کی حمایت حاصل ہوجانے کی بھی توقع کی جاسکتی ہے اس طرح اگر یہ اطلاعات درست ہیں اور ان پر عملدرآمد کرلیاگیاتو پاکستان مسلم لیگ سینیٹ کی سب سے بڑی پارٹی بن جانے کے بعد بھی سینیٹ کے چیئرمین کی کرسی سے محروم رہے گی اور اس طرح عملاً سینیٹ میں اکثریت سے بھی محروم رہے گی اور اسے کوئی بھی قانون منظور کرانے کے لیے بدستور اپوزیشن کامنت کش ہوناپڑے گا۔

جہاں تک پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے سینیٹ کے الیکشن اور اب چیئرمین سینیٹ کے لیے جوڑ توڑ اور ہارس ٹریڈنگ کے الزامات کا تعلق ہے تو یہ ان الزاامات کو قطعی بے بنیاد قرار نہیں دیاجاسکتا اور اس امر سے انکار نہیں کیاجاسکتاکہ پیپلزپارٹی سینیٹ کے انتخابات میں مبینہ طورپر ہارس ٹریڈنگ میں ملوث رہی ہے،لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ پاکستان پیپلز پارٹی سینیٹ کے ٹکٹوں کے تقسیم کے حوالے سے ایک دفعہ پھر اس بات کاثبوت دیا کہ اگرچہ اب پاکستان پیپلز پارٹی اس ملک کے غریبوں، مزدوروں اور کاشتکاروں کی نمائندہ پارٹی نہیں رہی لیکن اس پارٹی میں اب بھی معاشرے کے اس پسے ہوئے طبقے کے لیے گنجائش موجود ہے ۔۔ اب بھی کر رہی ہے،اس کا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی واحد سیاسی پارٹی نے جس کی قیادت نے سندھ کے پسماندہ علاقے ‘نگر پارکر’ کے ایک انتہائی غریب ہندو دَلت (اچھوت) خاندان کی ایک تعلیم یافتہ لڑکی کرشنا کماری کو سینیٹ کا رکن بنا دیا ہے۔آصف زرداری اقلیتوں کے لیے آئینی طور پر مخصوص نشست کیلیے کسی بڑے مالدار ہندو یا پارسی نمائندے کا بھی انتخاب کرسکتے تھے،جو پارٹی کو لاکھوں کروڑوں کا چندہ بھی دے سکتا تھا۔ مگر ایک پسماندہ علاقے کے ایسے غریب خاندان کی ایک لڑکی کو سینیٹ میں جانے کاموقع فراہم کرنا بلکہ سینیٹ تک پہنچانا واقعی قابل ستائش بات ہے۔ کرشنا کماری کی غربت اور پسماندگی کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتاہے کہ اس کے والدین کو اب تک یہ پتہ نہیں چل سکا ہے کہ سینیٹ کیا چیز ہے؟ بس اتنا جانتا ہے کہ بیٹی کو اسلام آباد میں کوئی بہت بڑی نوکری مل گئی ہے۔ ویسے یہ لڑکی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ اس نے اپنے علاقہ اور خاندان کی پسماندگی کے باوجود کوشش کر کے یونیورسٹی کا ایم اے شماریات کا امتحان پاس کیا ہے۔ وہ اب کوئی چھوٹی موٹی ملازمت تلاش کر رہی تھی تا کہ اپنے خاندان کی حالت سدھار سکے۔ پیپلزپارٹی نے بڑی فراخ دلی کے ساتھ کرشنا کماری کا انتخاب کیا اور اسے سینیٹ تک پہنچا دیا ہے۔ حالات کے اس طرح اچانک تبدیل ہو جانے پر کرشنا کماری اور اس کا خاندان بے پناہ خوشی اور حیرت کے عالم میں ہے۔ نگر پارکر کا پورا علاقہ دلت ہندوئوں سے آباد ہے۔کرشنا کماری یقینی طور پر سینیٹ میں پہنچ کر اپنے علاقے اور برادری کی بہتری کے لیے کوشش کرے گی۔ اس کا انتخاب بیرون ملک خاص طور پر بھارت میں مثال بن سکتا ہے جہاں ملک کے سب سے بڑے صوبے یوپی کے گزشتہ انتخابات میں مسلمانوں کی بھاری تعداد کے باوجود کسی مسلمان کو اسمبلی تک نہیں آنے دیا گیا! اور جس کا وزیراعلیٰ ایک کٹر اسلام دشمن شخص کو بنا دیا گیا ہے جس نے اقتدار سنبھالتے ہی مسلمانوں کی مسجدوں اور تاج محل کو دی جانے والی امداد بند کر دی ہے۔ کسی غیر مسلم کو مسلمانوں پر ترجیح دینے کے حوالے سے پاکستان کی یہ پہلی مثال نہیں ہے اس سے اقبال ٹائون کے جہاں زیب بلاک کے لوگوں نے جہاں تقریباً 700 مکانوں میں ایک گھر عیسائی خاندان کا ہے باقی سب گھر مسلمانوں کے ہیں۔جب انتخابات کا موقع آیا تو علاقے کے لوگوں نے مل کر واحد عیسائی گھرانے کے سربراہ کنول فیروز کو صدارت کے لیے نامزد کر دیا۔ اس کے مقابلے میں ایک پیر صاحب کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے اپنے انداز میں اپنی مہم شروع کی لیکن علاقے کے لوگوںنے کنول فیروز کے لیے اس بنیاد پر مہم شروع کر دی کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ صحافی اور اچھا منتظم تھا۔ انتخابات ہوئے تو کنول فیروز بھاری اکثریت کے ساتھ کامیاب ہو گیا ظاہر ہے کہ کونل فیروز کو جو مسیحی تھا اپنے گھر کے5-7 ووٹوں کے سوا تمام ووٹ مسلمانوں کے تھے۔ اس واقعہ کی میڈیا میں بہت تشہیر ہوئی۔ کیا امریکا، یورپ، بھارت یا کسی بھی دوسرے ملک میں اس رواداری اور انسان دوستی کی مثال دی جا سکتی ہے؟ کیا انگلستان میں کوئی عیسائیوں کی مکمل بھری کالونی کے واحد مسلم خاندان کا کوئی فرد اس انداز میں اس آبادی کی پنچائت کا سربراہ بن سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ برطانیا جیسے روشن خیال اور جمہوری ملک میں بھی ایسا ممکن نہیں ہے جس کااندازہ سکاٹ لینڈ میںلیبر پارٹی کی قیادت کے لیے انس سرور جیسے برطانیا کے محترم تصور کیے جانے والے رہنما کی مخالفت خود ان کی پارٹی کے ان کے ساتھیوں نے یہ کہہ کر کی ہے کہ اور سب تو ٹھیک ہے لیکن تم پاکستانی اور مسلمان ہو ہم کیا تمہاری قیادت قبول کریں۔ اس پس منظر کے ساتھ پیپلزپارٹی کی طرف سے کرشنا کماری کا انتخاب بلاشبہ قابل تحسین ہے۔ ہے۔

برطانیا جو جمہوریت کی ماں ہے اس کی پارلیمنٹ کا پہلا اجلاس 1295میں ہوا، یہ پارلیمنٹ اس وقت جاگیرداروں اور پادریوں پر مشتمل ہوا کرتی تھی، اس پارلیمنٹ نے آہستہ آہستہ طاقت حاصل کی اور پھر ایڈورڈ سوم کے زمانے میں باقاعدہ طور پر دو ایوان قائم ہوئے یعنی ایوان بالا (ہاؤس آف لارڈز) جو اشرافیہ اور پادریوں پر مشتمل تھا، اس کے بعد پندرہویں صدی میں برطانوی پارلیمنٹ کو خاصے اختیارات حاصل ہوگئے، اس کی بڑی وجہ جمہوریت تھی جوں جوں جمہوریت نے اپنی جڑیں مضبوط کیں لارڈز کی طاقت بھی کم ہوتی چلی گئی، اس وقت ہاؤس آف لارڈز کے ارکان کی تعداد 775 ہے جب کہ ہاؤس لارڈز کے ہال میں کل نشستیں450 ہیں، اس ہال میں جو رکن پہلے آتا ہے وہ ارکان کی نشستوں پر بیٹھتا ہے اور تاخیر سے آنے والے ارکان کھڑے رہتے ہیں۔ اسی طرح کی صورت حال ہاؤس آف کامنز (ایوان زیریں) کی بھی ہے اس میں ارکان کی کل تعداد ساڑھے چھ سو ہے، جب کہ اس ہال میں بھی چار سو ستائیس ارکان کے لیے نشستیں موجود ہیں۔ ایوان کی کارروائی کے دوران باقی ارکان کھڑے ہو کر اس کارروائی میں حصہ لیتے ہیں۔ کبھی کسی رکن نے نشست نہ ملنے پر نہ کبھی احتجاج کیا ہے اور نہ ہی یہ مطالبہ کیا ہے کہ ہال بڑا تعمیر کیا جائے۔ دراصل برطانیا میں انگریز اپنی پرانی عمارتوں سے محبت کرتے ہیں ۔ ارکان پارلیمنٹ کی، برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان کی اکثریت لندن کی انڈر گراؤنڈ ٹرینوں اور سائیکلوں ہی پر آتی جاتی ہے، حتیٰ کہ برطانوی وزرا اور پھر فوجی جرنیل بھی ٹرینوں کو استعمال کرتے ہیں جب کہ ماضی میں 9/11 سے قبل برطانوی وزرائے اعظم جان میجر، ٹونی بلیئر، گورڈن براؤن، ڈیوڈ کیمرون یہ سب عام لوگوں کے ساتھ ٹرینوں ہی میں سفر کرتے تھے، اکثر اوقات ڈیوڈ کیمرون تو سائیکل ہی پر 10 ڈاؤنگ اسٹریٹ آیا کرتے تھے جب کہ اکثر اوقات جان میجر اور ٹونی بلیئر پیدل چل کر 10 ڈاؤنگ اسٹریٹ سے پارلیمنٹ ہاؤس آیا کرتے تھے۔ جان میجر 1990سے 1997تک، ٹونی بلیئر 1997سے 2007 تک، گورڈن براؤن 2007سے 2010 اور ڈیوڈ کیمرون 2010سے 2016تک برطانیا کے وزیراعظم رہے۔ اب یہ تمام لوگ یا تو کبھی کرکٹ میچ دیکھتے ہوئے یا کبھی کسی فٹ بال گراؤنڈ میں عام لوگوں کے ساتھ یہ میچ دیکھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ برطانیا اور دیگر یورپی ممالک کے تھینک ٹینک میں لیکچر دینے کے لیے بھی سابق برطانوی وزرائے اعظم جاتے ہیں، اگر اپنے حلقہ انتخاب سے دوبارہ منتخب ہو کر پارلیمنٹ کا رکن بن جاتے ہیں تو پھر پارلیمنٹ کی بیک بینچوں پر بیٹھ کر اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ برطانوی سیاست میں ان کا عملی کردار محدود ہی رہتا ہے، برطانیا کی3 بڑی سیاسی پارٹیاں یعنی حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی، لیبر پارٹی اور لبرل ڈیموکریٹ اپنے پارٹی سربراہ کا انتخاب انتخابی عمل کے ذریعے کرتے ہیں اور پھر ہر سال ان پارٹیوں کی سالانہ کانفرنسیں بھی ہوتی ہیں جن میں پارٹی کے ارکان بھرپور انداز میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

اس پس منظر پاکستان میں ایوان بالا (سینیٹ ) کے ارکان کے انتخابات ہوئے ہیں ان انتخابی سرگرمیوں کی تفصیل ہم اوپر درج کرچکے ہیں کہ ان کی اکثریت کس طرح منتخب ہوئی اورمختلف پارٹیوں نے اپنے ارکان کو منتخب کرانیکے لیے کیا کیا رنگ دکھایا؟ کہاجاتاہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن نے مبینہ طورپر بعض مجرمانہ ماضی رکھنے والے لوگوں کو بھی ٹکٹ جاری کیے تھے اور پورا زور لگاکر ان کو منتخب کرایا ہے اور اس طرح یہ لوگ اب سینیٹ کا حصہ بن چکے ہیں۔ اب کون پوچھے گا کہ یہ بدنام زمانہ جرائم پیشہ لوگ ایوان بالا میں آئین پاکستان اور ووٹ کے تقدس کی خاطر اپنا کردار ادا کریں گے؟ کیا اسی کا نام جمہوریت ہے؟ جعلی قسم کے لوگ اور خود ساختہ لیڈر اب جمہوریت کے نام پر ہم پر مسلط کیے جارہے ہیں، یہ ہماری بدقسمتی ہے۔ نااہل ہوئے میاں نواز شریف جو اپنی ہی پارٹی کے تاحیات قائد بن چکے ہیں، فرماتے ہیں کہ جو ووٹ کی عزت نہیں کرے گا ہم بھی اس کی عزت نہیں کریں گے، تاریخ گواہ ہے کہ ووٹ اور آئین پاکستان کی اتنی عزت کسی نے نہیں کی جتنی خود (ن) لیگ کے تاحیات قائد نے کی ہے، ہر کوئی جانتا ہے کہ عدالتوں کے فیصلوں کو کون مان رہا ہے؟ یہ بھی اب ہر کوئی جانتا ہے کہ ملک میں صرف اور صرف ہاؤس آف شریف کے اقتدار کو بچانے اور خاندانی بادشاہت قائم کرانے میں تاحیات قائد نے کیا کچھ نہیں کیا۔ عدالت عظمیٰ نے الیکشن ایکٹ 2017 کے خلاف دائر کردہ درخواستوں کے ذریعے میاں نواز شریف کی بطور صدر پاکستان مسلم (ن) اہلیت کو چیلنج کرنے سے متعلق مقدمے کے تفصیلی فیصلے میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 62 (1) کے تحت عوامی عہدے سے نااہلیت کے بعد واضح کردیا ہے کہ وہ اب کسی بھی عوامی عہدے کے اہل نہیں ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ایک شخص کے لیے قانون سازی عدالت کو آنکھیں دکھانے کے مترادف ہے اور یہ آئین پاکستان سے کھلواڑ ہے۔ یہ پورا عمل خود قومی اداروں اور عوام کے لیے لمحہ فکر ہے۔ ذرا سوچئے کہ کبھی ایسا ہوا ہے کہ عدلیہ کے ججوں اور ان کے فیصلوں کو عوام کے ترازو اور ووٹروں کے وزن میں تولا یا ناپا جائے۔ یہ قومی المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ ہمارے چیف جسٹس کو خود عوامی سطح پر آکر صفائیاں دینی پڑ رہی ہیں اور پھر خدا کو گواہ ٹھیرا کر بیان دینا پڑا ہے کہ ان کا کوئی ایجنڈا نہیں، عدلیہ کے وقار کو کتنی گہری ٹھیس لگی ہے، آخر چیف جسٹس اس پورے عمل پر کیوں کر مجبور ہوئے؟ کیا اس کے باوجود یہ کہاجاسکتاہے کہ ہمارے آئین اور ووٹ کا تقدس اب بھی باقی ہے؟۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں