میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
دنیامیں دجالیت کانیامعاشی نظام ’’بٹ کوائن کرپٹوکرنسی‘‘

دنیامیں دجالیت کانیامعاشی نظام ’’بٹ کوائن کرپٹوکرنسی‘‘

منتظم
جمعرات, ۸ مارچ ۲۰۱۸

شیئر کریں

(آخری قسط)
یہ RFIDدرحقیقت ایک بینک اکائونٹ کی طرح ہوگا جو حکومت کے کنٹرول میں ہوگا اور حکومت جب چاہئے گی کسی بھی انسان کے بینک اکائونٹ سے قیمت نکال لے گی مثلا آجکل جیسے ہم موبائل فون کا کارڈ خریدتے ہیں جیسے ہی اسے لوڈ کیا جاتا ہے اصل مالیت آنے سے پہلے ہی حکومتی ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے اور ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے۔اسی طرح آگے چل کر مختلف قسم کے ٹیکس لگاکر کسی کو بھی آسانی کے ساتھ بھکاری بنا دیا جائے گا۔ اسی لیے اس بٹ کوائن جیسی ڈیجیٹل کرنسی دنیا میں رائج کرنے کے بعد RFIDسسٹم متعارف کرا دیا جائے گا۔جس کے بعد جس کسی نے بھی اس دجالی نظام کے خلاف آواز اٹھائی اسے چند منٹوں میں غربت سے دوچار کردیا جائے گا یوں انسان کو شیطان کا پیروکاربننے پر مجبور کیا جائے گایوں دنیا پر دجالی حکومت یعنی ون ورلڈ آرڈر جس کا مرکز امریکا کی بجائے یروشلم میں ہوگا قائم کیا جائے گا۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کوئی حکومت یا بینک اس وقت بٹ کوائن کرپٹو کرنسی کی ملکیت ظاہر نہیں کررہاچین اور امریکا میں تاحال اس میں لین دین پر پابندی ہے تو پھر دجالی حکومت اسے کیسے استعمال کرے گی؟ اس کا جواب اس طرح دیا جاسکتا ہے کہ جس انداز میں کاغذ کی کرنسی کے بعد ڈیبٹ اور کریڈیٹ کارڈز کو ایک سہولت کے طور پر دنیا کے سامنے متعارف کرایا گیا ہے اور اب لوگوں نے اسے ’’سہولت‘‘ کے طور پر قبول بھی کرلیا ہے اسی طرح آنے والے دنیا میں بٹ کوائن کرپٹو کرنسی بھی ایک سہولت کے طور پر متعارف کرا دی جائے گی جب دنیا اس کی عادی ہوجائے گی تو اس کے بعد اس کا اصل استعمال دجالی مقاصد کے لیے کیا جائے گا۔ اس وقت خبر یہ ہے کہ دنیا کی مہنگی کار بنانے والی کمپنی lamborghini نے اپنے کار بٹ کوائن کے مقابل فروخت کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ہالی وڈ میں گرے اسٹیٹ کے نام سے ایک فلم بنائی گئی تھی جس میں اس قسم کی سازشوں کا پردہ چاک کیا گیا تھا لیکن اس کی ریلیز سے پہلے ہی اس کے ڈائریکٹر David Crowleyکو پراسرار انداز 2015ء میں قتل کردیا گیا اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے اپنی فلم میں RFIDنامی بھیانک منصوبے کو منکشف کردیا تھا یوں یہ فلم مکمل ہوکر ریلیز نہ ہوسکی۔ڈیوڈ کرولی کا کہنا تھا کہ اس فلم میں دکھائے جانے والے واقعات کسی پراپیگنڈے کا حصہ نہیں بلکہ دنیا میں پیش آنے والے حقائق ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ ’ہم ایک ایسی گرے اسٹیٹ (امریکا) میں رہتے ہیں جہاں بہت کم لوگ اس کی حقیقت کو جانتے ہیں، معلوم نہیں لوگ کب جاگیں گے‘‘۔اس کا نتیجہ کیا نکلا کہ جنوری 2015ء میں ڈیوڈ کرولی، اس کی بیوی اور بیٹی مینیسوٹا ریاست میں قائم اپنے گھر میں مردہ پائے گئے انہیں گولیاں مار کر قتل کیا گیا تھااس کے گھر کی دیوروں کے اندر کیا ہوا تاحال ایک پراسرارمعمہ ہے۔ ڈیوڈ کرولی کے مطابق امریکا میں حقیقی تبدیلی کا اساس اسے نائن الیون کے بعد ہوا جب اسے معلوم ہوا کہ امریکی عسکری صنعت کا براہ راست تعلق امریکا کی خارجہ پالیسی ہے اس کے بعد یہ داخلی طور پر بھی امریکا ایک پولیس اسٹیٹ میں تبدیل ہونا شروع ہوگیااور آزادی کے نام پر غیر محسوس غلامی کا سلسلہ شروع ہوااسی وجہ سے ان حقائق پر میں نے ’’گرے اسٹیٹ‘‘ نامی فلم بنانے کا پروگرام بنایاکیونکہ امریکا میں ایک طرح سے مارشل لاء کی کیفیت ہے اس کے علاوہ ایک ایسی چپ انسانوں میں ڈالنے کا منصوبہ ہے جس کے ذریعے ایک اچھے بھلے انسان کو ربورٹ سے بھی بدتر صورتحال کا سامنا ہو‘‘۔

یہ دنیا کے وہ حقائق ہیں جن کا سامنا اب دنیا کی تمام قوموں کو ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے مسائل کیا ہیں؟ قومیتوں کی لڑائی، مسلکوں کی لڑائی، سیاسی جماعتوں پر شاہانہ قبضوں کی جدوجہد، سب کچھ لوٹ کر ہضم کرنے کے بعد یہ سوال کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘، جمہوریت کے نام پر بدترین سیاسی آمرانہ قبضے، خاندانوں کی سیاست۔کیا دنیا کی اس تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال کو زرداری یا نواز شریف جیسے لوگ سمجھ سکتے ہیں یا ان حالات کا مقابلہ کرسکتے ہیں؟ جو آج تک علاقائی سیاست سے باہر نہ نکل سکے اور جنہوں نے ملک جمہوریت کے نام پر سیاسی رشوت کے طور پر تقسیم کردیا ہے سندھ تیرا تو پنجاب میرا بلوچستان اس کا جو زیادہ سیاسی رشوت دے گا اس صورتحال میں یہ سیاسی مافیا سر پر منڈلانے والے دجالیت کے آفریت کا مقابلہ کرسکیں گے؟ یہ سوال ملک قوم کا درد رکھنے والے تمام حلقوں سے ہے۔ (ختم شد)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں