امام کعبہ الشیخ صالح بن محمد کی پاکستان آمد
شیئر کریں
منذر حبیب
امام کعبہ الشیخ صالح بن محمدآل طالب آج پاکستان پہنچیں گے۔وہ مرکزی جمعیت اہلحدیث کے زیر انتظام دوروزہ کانفرنس میں شریک ہوں گے جبکہ وہ اپنے دورہ کے دوران ملک کی مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین اور حکومتی ذمہ داران سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔ وہ جمعہ کے دن کالا شاہ کاکو کے مقام پر اسلامک سنٹر اور جامع مسجد کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ ان کی پاکستان آمد پر حکومتی سطح پر سخت ترین حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔ وہ نماز جمعہ کالا شاہ کاکو کانفرنس کے موقع پر یہیں پڑھائیں گے اور اس موقع پر وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سمیت دیگر اہم حکومتی شخصیات کی شرکت بھی متوقع ہے۔
امام کعبہ الشیخ صالح بن محمد آل طالب کی آمد پر ہر پاکستانی کا دل خوشی سے سرشار ہے۔ دنیا بھر میں بسنے والے ہر مسلمان کے دل میں حرمین شریفین کا دلی احترام پایا جاتا ہے ۔خانہ کعبہ اور مسجد نبوی مسلمانوں کی عقیدتوں کے مرکز ہیں اس لیے جب بیت اللہ شریف یا مسجد نبوی کے آئمہ کرام میں سے کوئی پاکستان تشریف لاتے ہیںتو یہاں کے عوام میں خوشی و مسرت کے بے پایاں جذبات کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔ امام کعبہ الشیخ صالح بن محمد کی قرأت کو دنیا بھر میں بہت پسند کیا جاتا ہے۔جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے حج و عمرہ کی سعادت عطا کی اور وہ حرم مکی میںان کی تلاوت سن چکے ہیںوہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب وہ نمازوں میں قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں تو عازمین حج و عمرہ کے دلوں پر رقت طاری ہو جاتی ہے۔ الشیخ صالح بن محمدکا خاندان علماء ، حفاظ اور قضاۃ کے خاندان سے مشہور ہے۔انہوںنے ابتدائیہ اور ثانویہ کی تعلیم سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں مکمل کی۔اسی شہر کے ایک مدرسہ سے کم عمری میں ہی حفظ قرآن کریم کی تکمیل کی اور پھر قرأت سبعہ عشرہ کی تعلیم حاصل کی۔ شیخ صالح کو ناموراساتذہ سے تعلیم حاصل کرنے کا شرف حاصل ہے۔ آپ کے اساتذہ میں ماہرتجوید وقرآن شیخ محمود عمر سکر، ماہر تجوید شیخ صابر حسن ابوسلیمان، شیخ عبدالحلیم صابر عبدالرزاق اور شیخ قاری عبدالمالک ابومحمد شامل ہیں۔حفظ قرآن کی تکمیل کے بعد سال 1414ھ میں شیخ صالح نے ریاض کے شریعہ کالج میں داخلہ لیا۔یہاں سے بی اے کی تکمیل کے بعد ہائیر انسٹی چیوٹ آف جسٹس سے سال 1417ھ میں اے ایم کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد آپ نے برطانیا سے بین الاقوامی دستور میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
سعودی عرب کے ولی عہد نے ملک میں بین الاقوامی قانون کے ماہرین کی ضرورت کے پیش نظر تین علماء دین کی برطانیا سے بین الاقوامی دستور میں پی ایچ ڈی کے لیے خصوصی منظوری دی تھی جن میں شیخ صالح بھی شامل تھے۔شیخ نے علم حدیث وفقہ ماہرین اور مشاھیر علماء ومشائخ سے حاصل کیا۔ ان کے اساتذہ میں ان کے والد محترم شیخ محمد بن ابراہیم بن محمد آل طالب،آپ کے دادا، شیخ ابراہیم بن محمد بن ناصر آل طالب،مفتی عام مملکت سعودی عرب شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز، شیخ عبداللہ بن عبدالرحمن الغدیان، شیخ عبداللہ بن عبدالرحمن بن جبرین اور مملکت سعودی عرب میں وزیراسلامی امور شیخ صالح بن عبدالعزیز آل شیخ وغیرہ مشاھیر علماء شامل ہیں۔الشیخ صالح بن محمد نے سپریم کورٹ سے عملی زندگی کا آغاز کیا اور تین برس وہاں خدمات سرانجام دیں۔ اس دوران انھوں نے شیخ عبدالعزیز بن ابراہیم القاسم اورطائف کورٹ کے چیف جسٹس شیخ عبداللہ بن عبدالعزیز الفریان سے تربیت حاصل کی۔ اسی طرح آپ نے ضمانت اور نکاح وغیرہ امور سے متعلق کورٹ کے چیف جسٹس شیخ سعود المعجب سے بھی تربیت حاصل کی۔سال 1418ھ میں سعودی عرب کے تربہ علاقے میں قاضی مقرر ہوئے جہاں آپ نے دو برس تک خدمات انجام دیں، پھر سال 1420 ھ میں رابغ کے علاقے میں قاضی متعین ہوئے اور یہاں آپ نے دو برس چھ ماہ خدمات انجام دیں ۔ بعدا زاں وہ مکہ مکرمہ کی سپریم کورٹ میں قاضی مقرر ہوئے اور ہنوز اسی عہدے پر موجود ہیں۔
الشیخ صالح بن محمد آل طالب کو 28شعبان 1423ھ میں مسجد حرام میں امام مقرر کرنے کا شاہی فرمان جاری ہوا۔ نماز عصر ان کی پہلی نماز تھی جس کی انہوںنے امامت فرمائی۔ یہ رمضان المبارک کا پہلا دن تھا۔ اسی طرح 1430ھ کو الشیخ صالح مسجد حرام میں مدرس بھی مقرر ہوئے۔ انہوںنے سترہ برس کی عمر میں ہی ریاض شہر کے سویدی محلہ میں واقع مسجد علیاء آل شیخ سے امامت کا آغاز کر دیا تھا۔ وہ سعودی عرب کے علاقہ رابغ میں جاری جمعیہ تحفیظ القرآن الکریم کے چیئرمین ہیں، اس کی بنیاد بھی انہوں نے ہی سال 1420 ھ میں رکھی تھی۔ اسی طرح آپ مکہ مکرمہ کی منشیات کے خاتمے سے متعلق کمیٹی کے سربراہ ہیں۔آپ وزارت صحت کے زیرنگرانی میڈیکل سوسائٹی کے رکن ہیں۔ اس کے علاوہ الشیخ مملکت سعودی عرب سمیت دنیا بھر کے مختلف خیراتی اور تعلیمی اداروں کے سربراہ اور رکن بھی ہیں۔امام کعبہ الشیخ صالح بن محمد کی دعوتی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جائے توپتہ چلتا ہے کہ وہ ایک متحرک داعی اور مربی ہیں۔ آپ نے سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں دینی اداروں کے قیام کی کوشش کی، رابغ شہر میں آپ کی کوششوں کے نتیجے میں جمعیہ تحفیظ القرآن کا آغاز ہوا تھا ۔ یہ ادارہ آج مختلف شعبوں پر مشتمل ہے جہاں جالیات کی تربیت سمیت الافتاء و قضاۃ کے شعبے عالمی سطح پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
الشیخ نے سال 1415 ھ میں امریکہ کا دعوتی سفر کیا۔ سال 1422ھ میں ہالینڈ کے شہر لاہائی میں منعقدہ بین الاقوامی عدالت کے زیرنگرانی تجارتی استحکام سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کی۔ مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں عرب لیگ کے زیرسرپرستی منعقدہ الیکٹرانک تجارت سے متعلق منعقدہ کانفرنس میں شرکت ہوئے۔ اسی طرح قانون سے متعلق متعدد کانفرنسوں اور سیمیناروں میں بھی وہ شرکت کر چکے ہیں۔ انہوںنے اصلاحی اور تربیتی موضوعات پر کئی کتابیں تحریر کی ہیں۔ ان کی ایک کتاب ”تہذیب وثقافت کی اشاعت میں مسجدحرام کا کردار” عربی زبان میں منظرعام پر آئی۔اسی طرح انہوںنے ایم اے میں ”احکام حدیث العہد بالاسلام ” کے عنوان پر مقالہ تحریر کیا تاہم اس کی طباعت نہیں ہوئی۔ اس کے علاوہ شیخ نے اجتہاد، تقلید اور نفاق جیسے موضوعات پر بھی کتابیں لکھی ہیں۔
بیت اللہ شریف اور مسجد نبوی ﷺ کے آئمہ کرام کو مسلم امہ میں اتحادویگانگت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ان کی شخصیت دنیا بھر کے مسلمانوں کیلیے غیر متنازعہ ہے اور وہ صرف بیت اللہ شریف میں آنے والے مسلمانوں کے ہی نہیں پوری دنیا کے مسلمانوں کے امام ہیں۔ الشیخ صالح اپنی سادہ مگر پر کیف آواز میں تلاوت قرآن کی وجہ سے اس حدیث کا مصداق ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ قرآن پاک کو بنا سنوار کر خوش الحانی کے ساتھ پڑھا جائے۔ حرمین شریفین کے آئمہ کرام نے مسلمانوں کو ہمیشہ فرقہ واریت کے خاتمہ اور امت واحدہ بننے کی ترغیب دی ہے۔ مختلف مسلم ملکوں میںا ن کے دوروں سے فرقہ واریت میں تشدد اور قتل و غارت گری کے فتنہ کو ختم کرنے میں بھی یقینی طور پر مددملتی ہے اور گمراہی کا شکار نوجوانوں کو بھی پتہ چلتا ہے کہ اصل دین یہی ہے جس کی تعلیم آئمہ حرمین دے رہے ہیں۔ برادر اسلامی ملک کی یہ بہت بڑی خوبی ہے کہ وہ جہاںدنیا بھر میں دعوت دین کو پھیلانے اور دکھی انسانیت کی خدمت کیلیے بے پناہ وسائل خرچ کرتا ہے وہیں او آئی سی اور رابطہ عالم اسلامی جیسے پلیٹ فارموں کے ذریعہ مسلمانوں میں اتحادویکجہتی کی فضا پیدا کرنے میں بھی اس نے ہمیشہ بھرپور کردار اداکیا ہے۔پاکستان کے سعودی عرب سے تعلقات چونکہ شروع دن سے انتہائی مضبوط اور مستحکم رہے ہیں، اس لیے وطن عزیز پاکستان کا ہر شہری چاہے وہ کسی بھی مکتبہ فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا کیوں نہ ہو، سرزمین حرمین الشریفین کیلیے ہمیشہ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے دعائیں کرتا ہے اور سعودی عرب کا نام سنتے ہی محبت، اخوت اور ایثار و قربانی کا جذبہ اس کے دل میں جاگزیں ہونے لگتا ہے۔پاک سعودی تعلقات اگرچہ ابتداء سے ہی خوشگوار رہے ہیں لیکن شاہ فیصل کے دور میں ان تعلقات کو بہت زیادہ فروغ ملا۔ انہوں نے پاکستان سے تعلقات بڑھانے اور صرف دونوں ملکوں کو قریب کرنے کیلیے ہی نہیں پوری اْمت مسلمہ کے اتحاد کیلیے زبردست کوششیں کی، جس پر دنیا بھر کے مسلمان انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور سبھی مسلم حکمرانوں کو ان جیسا کردار ادا کرنے میں کوشاں دیکھنا چاہتے ہیں۔سعودی عرب ان چند ممالک میں سے ایک ہے جس نے ہمیشہ ہر مشکل مرحلہ میں پاکستان کی مدد کا حق ادا کیا ہے‘یہی وجہ ہے کہ اسلام پسند اور محب وطن حلقوں کی کوشش ہوتی ہے کہ سعودی عرب کے اسلامی اخوت پر مبنی کردار سے پاکستان کی نوجوان نسل کو آگاہ کیا جائے اور اس کے لیے وہ اپنا کردار بھی ادا کرتے رہتے ہیں۔
امام کعبہ الشیخ صالح بن محمد آل طالب کے دورہ پاکستان سے ملک میں اتحادویکجہتی کا ماحول پیدا کرنے کے حوالہ سے ان شاء اللہ دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔ چند سال قبل امام کعبہ الشیخ عبدلرحمن السدیس اور دو سال قبل ڈاکٹر خالد الغامدی پاکستان کے دورہ پر تشریف لائے توپاکستانی قوم نے ان کا مثالی استقبال کیا، ان کی وطن عزیز آمد کو پاکستانی قوم کے لیے ایک بڑا اعزاز قرار دیا اور ان کی عزت و تکریم میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔اب بھی پوری پاکستانی قوم امام کعبہ الشیخ صالح بن محمد آل طالب کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے خوش آمدید کہتی ہے۔پاکستان اور سعودی عرب کے مابین دوستی، محبت اور عقیدت کے یہ لازوال رشتے ہمیشہ قائم و دائم رہیں گے۔ دشمنان اسلام کی جانب سے برادر اسلامی ملکوں کے تعلقات میں دراڑیں ڈالنے کی مذموم سازشیں ان شاء اللہ کامیاب نہیں ہوں گی۔