میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پولیس پر عوام کا اعتماد ؟؟؟

پولیس پر عوام کا اعتماد ؟؟؟

ویب ڈیسک
بدھ, ۸ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں

ایک حالیہ گیلپ سروے رپورٹ کے مطابق پاکستانیوں کی اکثریت پولیس پر اعتماد نہیں کرتی اس سوال کے جواب میں کہ اگر آپ پر تشدد کیا گیا تو آپ اپنی داد رسی کے لیے کس ادارے سے رجوع کرینگے ؟ صرف 37 فیصد لوگوں نے پولیس کے پاس جانے کا آپشن اختیار کیا، باقی 63 فیصد لوگوں میں سے 21 فیصد شہریوں نے مقامی پنچایت پر اعتماد کا اظہار کیا، 16 فیصد حکومتی نمائندوں کے پاس شکایت لے جانے کے حق میں تھے، 13 فیصد این جی اوز سے رجوع کرنا چاہتے تھے اور باقی 13 فیصد نے مقامی نمائندوں سے رجوع کرنے کا عندیہ دیا ۔ سروے رپورٹس 100 فیصد درست نہیں ہوتیں البتہ انہیں اندازے کے طور پر لیا جا سکتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ عوامی سطح پر پولیس کی ساکھ اس سے کہیں زیادہ خراب ہے جتنا کہ اس سروے رپورٹ سے ظاہر ہو رہی ہے۔ رہزنی ، چوری، یہاں تک کہ گھروں میں ڈکیتیاں تک ہوجاتی ہیں اس کے باوجود عام طور پر شہری پولیس میں رپورٹ درج کرانے سے بھی کتراتے ہیں اور اس نقصان کو قسمت کا لکھا سمجھ کر خاموشی سے سہہ جاتے ہیں ۔
اگر سروے میں عوام سے یہ سوال کیا جائے کہ پولیس کو دیکھ کر آپ کو تحفظ کا احساس ہوتا ہے یا عدم تحفظ کا، آپ اطمینان محسوس کرتے ہیں یا خوف ؟ یقینی طور پر شہریوں کی بھاری اکثریت عدم تحفظ اور خوف کے آپشن کو اختیار کرے گی ، دلچسپ امر یہ ہے کہ جو لوگ تحفظ اور اطمینان کا آپشن اختیار کرینگے ان میں سے اکثر لوگ کریمنل ہونگے یعنی جس ادارے سے پُر امن شہریوں کو احساس عدم تحفظ اور جرائم پیشہ افراد کو احساس تحفظ حاصل ہو اس کے کردار کو سمجھنا کوئی مشکل نہیں ۔ محکمہ پولیس نظام انصاف کا بنیادی جزو ہے یہاں سے مظلوموں کی داد رسی اور ظالموں کی پکڑ کا سلسلہ شروع ہو کر عدالتی فیصلوں اور پھر اس پر عملدرآمد تک جاتا ہے ۔ جب فراہمی¿ انصاف کا یہ بنیادی ادارہ اپنے کردار کی وجہ سے اس حد تک عوامی اعتماد سے محروم ہوجائے جس کا اظہار گیلپ سروے رپورٹ سے ہو رہا ہے تو اس ملک میں انصاف کا بول بالا کیسے ہو سکتا ہے ؟ تھانہ کلچر جس کی تبدیلی کا خواب سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں دکھاتی ہیں عملی طور پر اس کی تعبیر ابھی دور دور تک نظر نہیں آرہی ۔ تھانہ، جہاں مجرموں کا احتساب نہیں مجرموں سے سودے بازی ہوتی ہے ، جہاں مظلوموں کو قانونی حقوق حاصل کرنے کے لیے بھی قانون کے ان نام نہاد محافظوں کی مُٹھی گرم کرنا پڑتی ہے ، تھانہ جہاں قوانین کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ، تھانہ جہاں شریف شہریوں کو تذلیل اور ڈراوے اور دھمکیوں کا سامنا ہوتا ہے اور جرائم پیشہ افراد کو عزت دی جاتی ہے ، تھانہ جہاں دولت ، سیاسی اثرو رسوخ اور تعلقات کی جیت اور غریب ، لاوارث اور کمزور لوگوں کی ہار کا اہتمام ہوتا ہے ۔ تھانہ جہاں سے منشیات ، عصمت فروشی ، بھتہ وصولی ، زمینوں پر قبضے اور تمام غیر قانونی سرگرمیوں کو آپریٹ کیا جاتا ہے ان کی سرپرستی اور سہولت کاری کا انتظام کیا جاتا ہے ۔
جرائم اور جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کتنا بھیانک جرم ہے جس کا ارتکاب سرکاری وردیاں پہنے اہلکار کر رہے ہیں ، قانون کے لبادے میں جرائم کی نرسریاں قائم ہیں ، قانون کے محافظ خود قانون کی دھجیاں اُڑاتے پھرتے ہیں اس صورتحال میں ریاست کا استحکام کیسے ہو سکتا ہے ۔ وطن عزیز میں استحکام اور ترقی کے حوالے سے کتنے پیچیدہ چیلنجز درپیش ہیں ۔کوئی سیاسی و مذہبی جماعت ان کا ادراک کرتے ہوئے ان سے نبٹنے کی مو¿ثر حکمت عملی نہیں رکھتی یہ صورتحال کا تاریک ترین پہلو ہے ۔ اختیارات بڑی ظالم چیز ہیں یہ اگر بے رحم ، غیر ذمہ دار اور خود پسند لوگوں کے ہاتھوں میں آجائیں تو فرعونیت کا بول بالا ہوجاتا ہے ۔ افسوس ہم کتنے اہم اداروں اور اہم عہدوں کے لیے افراد کا انتخاب کرتے ہوئے ان کی تربیت ، ان کے اخلاق ، ان کی دیانتداری اور ان کے کردار کے جائزے کا کوئی اہتمام نہیں کرتے ۔ نوکریاں بکتی ہیں ، عہدوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے اور پھر نوکریاں اور عہدے خریدنے والے اختیارات حاصل کر کے قانون اور اداروں کی ساکھ بیچ ڈالتے ہیں ۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ پورے نظام انصاف کی درستگی کا اہتمام ہو ۔ اس معاملے میں سب سے اہم تعلیمی اداروں کی اصلاح ہے جہاں سے تعلیم حاصل کر کے لوگ محکمہ پولیس اور دیگر سرکاری اداروں کی طرف آتے ہیں۔اس بات کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ بھرتی کے بعد محکمہ ان جوانوں کو کس تربیتی نظام سے گزارتا ہے ۔ فزیکل ٹریننگ سے زیادہ اہم اخلاقی تربیت اور کردار کی اصلاح ہے ۔ میرے علم کے مطابق تربیتی مراحل میں ہی رشوتوں کا لین دین شروع ہو چکا ہوتا ہے سخت ایکسر سائز سے بچنے کے لئے ٹرینر کو رشوت ، ٹریننگ کا جعلی سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے رشوت ، چھٹیاں مارنے کے لیے رشوت ، سہولتیں حاصل کرنے کے لیے رشوت ، گویا کہ تربیتی مراحل میں ہی رشوت ، کام چوری ، اور نا اہلی کی تربیت دے دی جاتی ہے ۔
پولیس پر عوام کا اعتماد بحال ہونے کا مظہر یہ ہوگا کہ شریف شہری پولیس سے ڈرنے کے بجائے انہیں عزت ا ور احترام کی نظر سے دیکھیں اور جرائم پیشہ اور قانون شکن پولیس سے خوفزدہ ہوں ۔ ظاہر ہے یہ منظر جب ہی نظر آسکے گا جبکہ پولیس کے اہلکار اور افسران کردار کے غازی بنائے گئے ہوں ۔ اللہ کا خوف ، آخرت میں جوابدہی کا احساس اور اسلام کی ترغیبات و وعیدات کا علم کردار کی اصلاح کا زبردست زریعہ ہے ۔ پنجاب پولیس کی تربیتی چھاﺅنیوں میں قرآن مجید کے ترجمے اور تفسیر کی کلاسز منعقد ہوتی ہیں لیکن ان کا دورانیہ اتنا مختصر ہے اور اس سلسلے میں منتظمین کی توجہ اتنی کم ہے کہ ان کی حیثیت محض خانہ پری کی رہ گئی ہے ۔ اگر حکومت اپنی مدت پوری کرتی ہے تو اگلاسال الیکشن کا سال ہوگا کیا سیاسی و مذہبی جماعتیں اپنے منشور میں تھانہ کلچر کی تبدیلی کے دعوے کے ساتھ مجوزہ تبدیلی کے اپنے پروگرام کے خد و خال بھی بیان کرنے کی پوزیشن میں ہیں ؟ تھانہ کلچر کی تبدیلی کا تمامتر انحصار پولیس بھرتیوں کے نظام اور پھر جوانوں کے لئے تربیتی نظام پر ہے سیاسی و مذہبی جماعتوں کو اپنے ماہرین یا تھنک ٹینک کے ذریعے ابھی سے اپنی اپنی جماعت کے منشور کے لیے تھانہ کلچر کی تبدیلی کے قابل عمل پروگرام کی تیاری بھی کرادینی چاہئے ۔ اگر کوئی جماعت برسر اقتدار آکر تھانہ کلچر میں مثبت تبدیلیاں لانے میں کامیاب ہوگئی تو یہ پاکستانی عوام پربہت بڑا احسان ہوگا ۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں