میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مجھے وزیر اعظم بنائو

مجھے وزیر اعظم بنائو

ویب ڈیسک
بدھ, ۱۳ دسمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

میری بات/روہیل اکبر

ملک میںالیکشن کا اعلان ہوچکا ہے، سبھی سیاسی جماعتوں کے رہنما اپنے اپنے فارمولے اور چورن لیکر مارکیٹ میں آچکے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی نوک جھونک بھی چل رہی ہے ۔ بلاول بھٹو زرداری نے تو عوامی جلسے بھی شروع کردیے ہیں جبکہ ن لیگ والے ابھی تک عوام میں جانے سے کترا رہے ہیں اور یہ سب جماعتیں مل کر جس پی ٹی آئی کو دیوار سے لگانے کی کوششوں میںمصروف ہیں وہ بغیر بیان بازی کے کہیں نہ کہیں بیٹھک لگا لیتے ہیں جو بعد میںجلسہ بن جاتا ہے۔ اس وقت جتنی بھی طاقت عمران خان کو سیاست سے ختم کرنے میںلگائی جارہی ہے وہ اگر ملکی معیشت کو ٹھیک کرنے میںلگائی ہوتی تو آج ملک میںغربت ،بے روزگاری اور جہالت کا کسی نہ کسی حد تک صفایا ہوچکا ہوتا لیکن اب یہ تینوں وبائی امراض آپے سے باہر ہیں اور ہمیںکچھ سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کریں ایک طرف کشمیر میںمسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیںتو دوسری طرف فلسطین میں مظلوم مسلمانوں پر بم برسائے جارہے ہیں اور تو اور پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ امریکی جیل میں جوانسانیت سوز سلوک کیا جارہا ہے اس کے بارے میں سوچ کرہی شرم محسوس ہوتی ہے، دنیا کو انسانیت کا درس دینے والے امریکہ سمیت دنیا بھر میں انسانی حقوق کا دن منایا جارہا ہے اور اس سال انسانی حقوق کی 75 ویں سالگرہ ہے۔ اس تاریخی دستاویز میں نسل، رنگ، مذہب، جنس، زبان، سیاسی یا دیگر رائے یا دوسری حیثیت سے قطع نظر ناقابل تنسیخ حقوق کو شامل کیا گیا ہے جن کا ہر انسان حقدار ہے اور جرم بے گناہی کی پاداش میں ایف ایم سی کارسویل جیل میں بند ڈاکٹر عافیہ کے انسانی حقوق برے طریقے سے پامال کیے جارہے ہیں۔ امریکہ میں عافیہ کے یکطرفہ عدالتی ٹرائل اور جج رچرڈ برمن کے 86 سال کی ظالمانہ سزاکے فیصلے کو دنیا بھر کے معروف قانون دان مسترد کرچکے ہیں لیکن اسکے باوجود جج برمن نے فیصلے میں کہیں نہیں لکھا کہ عافیہ صدیقی کو جیل میں انسانیت سوز تشدد اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جائے گا؟ اور اسے اپنے بچوں اور اہلخانہ سے رابطہ اور بات چیت کی اجازت نہیں ہو گی۔ حال ہی میں ڈاکٹر عافیہ کیس کے وکیل کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ نے انکشاف کیا ہے کہ اس وقت امریکہ کی جیلوں میں 10250 خواتین قید ہیں جن میں سب سے بری حالت میں دختر پاکستان ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے۔ اگر کسی کو یاد ہو کہ پاکستانیوں کو سرِ عام دن دیہاڑے قتل کرنے والا ریمنڈ ڈیوس جتنی دیر بھی ہماری سرکار کا مہان رہا ،وی آئی پی رہا اور پھر پورے پروٹوکول کے ساتھ اسے واپس اس کے ملک بھجوا دیا گیا۔ آج ہمارے لیڈر اپنے ہی ملک کے لیڈروں پر تھوک پھینکنے میں مصروف ہیں۔ ایک دوسرے کو ننگا کرنے میں پورا زور لگا رہے ہیں لیکن مجال ہے کہ کسی نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لیے آواز بلند کی ہو، جب ہم اپنی بیٹی اور بہن کے لیے آواز نہیں نکال سکتے گونگے بن جاتے ہیں تو دنیا کے نہتے اور مظلوم مسلمانوں کا ہم ساتھ کیا دینگے زیادہ سے زیادہ یہی کہیں گے ناں کہ اقوام متحدہ اور عالمی ادارے کشمیر اور فلسطین میں ظلم کو روکے، کروڑوں انسانوں کو جبر و ستم سے نجات دلائی جائے۔ فلسطین کے عوام جس مشکل کا شکار ہیں ،وہ تاریخی ظلم ہے۔ ریاستی دہشت گردی نے کشمیری اور فلسطینیوں کو محکوم کیا ہوا ہے ۔8دہائیوں سے کشمیری عوام ڈوگرہ اور پھر بھارتی فوج کے جبر کا شکار ہیں جن سے مذہبی، سیاسی اور انسانی حقوق چھین لئے گئے بھارت میں اقلیتوں کی زندگی اجیرن بن چکی ہے اورمودی حکومت ہندو ازم کے نظریئے کو وسیع تر کرتی جا رہی ہے ۔خطے میں ایسی انتہا پسندی پھیل رہی جس سے اربوں انسانوں کو خطرہ ہے۔ عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔اگر دنیا کی تمام محکوم قوموں اور طبقات کو انصاف نہ دیا گیا تو عالمی امن کو ہمیشہ خطرہ رہے گا۔ دنیا بھر میں عوام فلسطین کے معصوم بچوں اور عوام کیلئے آواز اٹھا رہے ہیں مگر طاقت ور اور جارحیت پسند اپنے ظلم سے باز نہیں آتے، الٹا ان مظلوموں پر دن بدن مظالم میں اضافہ ہوتا جارہا ہے فلسطین پر قرارداد کا ویٹو ہونا طاقت کا غلط استعمال ہے جس سے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف مزید نفرت بڑھ رہی ہے ہم یہ ساری باتیں بیانات کی حد تک تو کرسکتے ہیں لیکن عملی طور پر کچھ نہیںکرسکتے کیونکہ اس اکیسویں صدی میں ابھی تک ہم پاکستانی اپنے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ حکمران ومقتدروقوتوں نے اپنی ہی عوام کو ان انسانی ،معاشی ،قانونی حقوق سے یکسر محروم رکھا ہے ہر حکمران نے عوام کو لولی پاپ ،بے عمل وعدوں ،خالی خولی اعلانات پر ٹرخائے رکھا ہے جسکی وجہ سے ہر آنے والا دن گزرے دن سے زیادہ مشکل ہوتا جارہا ہے۔ مہنگائی ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی اور روزگار کسی کو ملتا نہیں اس وقت ملک میں 2کروڑ 50لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں ، 10کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ پاکستان میں غربت نہیںدیکھی وہ بھی غربت کی لکیر سے نیچے تو انہیں چاہیے کہ سندھ ،پنجاب اور بلوچستان کے پسماندہ علاقوں کا دورہ کریں جہاں لوگوں کے پاس رہنے کو گھر نہیں ،کھانے کو روٹی نہیں اور پہننے کو کپڑے نہیں اگر بیمار ہوجائیں تو صحت مند ہونے کو دوائی نہیں جہاں تعلیم اور ترقی کا دور دور تک نشان نہیں اور ان لوگوں کو اس وقت سیاستدان سنہرے خواب دکھا رہے ہیں۔ سندھ پر طویل حکمرانی کرنے والی جماعت کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور پنجاب پر سب سے زیادہ اقتدار میں رہنے والے میاں نواز شریف اس وقت ایک بار پھر عوام کو ترقی وخوشحالی کا لالی پاپ دینے کی کوشش کررہے ہیں ملک میں 2خاندانوں کی سیاست پر اجارہ داری ہے ۔ ان 2خاندانوں نے ملک کے اداروں کو تباہ کیا کرپشن کو عام کیا اور پھر وہ کہتے پھر رہے ہیں کہ مجھے وزیر اعظم بنائو ،مجھے وزیر اعظم بنائو ۔حالانکہ انہی لوگوں کی وجہ سے آج ملک بدحالی کا شکار ہے اور عوام اپنے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں ایک طرف لوگ غربت کی تمام حدیں پار کررہے ہیںتو دوسرے طرف پڑھا لکھا طبقہ مایوس ہو کر ملک کی سرحد پار کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔بالخصوص نوجوان آبادی اسکالرشپس اور روزگار کے مواقع کی تلاش میں بیرون ملک جانے کی کوششیں کر رہی ہے۔ 2023 کی پہلی سہ ماہی کے دوران ساڑھے 4 لاکھ سے زائد پاکستانی مختلف ممالک روانہ ہو چکے ہیں اگر اسی رفتار سے ہم تنزلی کا سفر کرتے رہے تو ایک دن آئے گا کہ جو مرضی آکر ہماری گردن دبوچ کر اپنا غلام بنا لے گا اور ہم اپنی آواز نکالنے سے بھی ڈریں گے ۔

 


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں