میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
چھوٹے کاروبار ریڑھ کی ہڈی!

چھوٹے کاروبار ریڑھ کی ہڈی!

جرات ڈیسک
بدھ, ۸ جنوری ۲۰۲۵

شیئر کریں

وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز ایک بریفنگ کے دوران کہا کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، حکومت ان کاروباروں کی سہولت کے لیے اقدامات کررہی ہے انھوں نے کہا کہ پاکستانی صنعتوں کو گلوبل سپلائی چین کا حصہ بنانے کیلیے اقدامات کی ضرورت ہے، ایس ایم ایز کی ترقی کے حوالے سے وفاق اور تمام صوبوں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اس امر میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار خاص طورپر صنعتیں ،یاکارخانے جنھیں گھریلو صنعتیں بھی کہاجاتا ہے کسی ملک کی معیشت ہی نہیں بلکہ ترقی کیلئے بھی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں،جاپان، کوریا، تائیوان ،چین اور پھر ویتنام کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ،ان تمام ملکوں نے دنیا کے عظیم صنعتی ملک ہونے کا اعزاز گھریلو یعنی چھوٹی صنعتوں کی ترقی کے ذریعے ہی حاصل کیاہے،ان گھریلو صنعتوں کی وجہ سے یہ تمام ممالک دنیا کے ایسے صنعتی ملک بن چکے ہیں جن کی جانب سے سپلائی میں کمی آتے ہی پوری ترقی یافتہ دنیا کی معیشت بیٹھنے لگتی ہے ،ہمارے ملک میں بھی 50 کی دہائی میں گھریلو صنعتوں کی حوصلہ افزائی کی پالیسی اختیار کی گئی تھی جس کے نتیجے میں ہمارے ملک میں بھی صنعتی دور کا آغاز ہوگیا تھا،ملک میں صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری پر راغب کرنے کیلئے حکومت نے پی آئی ڈی سی کے نام سے ایک ادارہ قائم کیاتھا جس کا کام ہی یہ تھا کہ وہ نئی صنعتوں کی منصوبہ بندی کرتا تھا ،سرکاری وسائل سے صنعت لگائی جاتی تھی اور پھر اسے منافع بخش بنیادوں پر چلانے کے بعددلچسپی رکھنے والے سرمایہ کاروں کے حوالے کردیا جاتا تھا ،اسی پالیسی کے پیش نظر ملک کے بدترین آمر ایوب خان کے دور کو صنعتی ترقی کے اعتبار سے پاکستان کا سنہرا دور کہاجاتاہے اور آج بھی اس دور کو یاد کیاجاتاہے۔لیکن ایوب خاں کے بعد صنعتوں کو قومی ملکیت میں لینے کی پالیسی نے تمام ترقی پر پانی پھیر دیا اور ان صنعتی علاقوں میں جہاں مزدور شفٹ شروع ہونے کے انتظار میں فٹ پاتھوں پر سوجاتے تھے ویرانی چھاگئی اور بیروزگاری نے ہر گھر میں بسیرا کرلیا، صنعتی ترقی کی پالیسی ختم کئے جانے اور صنعتوں کو قومیائے جانے کے عمل کی وجہ سے منافع میں چلتی ہوئی صنعتوں اور کاروباری اداروں کی سربراہی پارٹی سے وفاداری کی بنیاد پر ناتجربہ کار لوگوں کے سپرد کردی گئی ،ان ناتجربہ کار لوگوں کو دیکھ کر ابن الوقت قسم لوگوں کی لاٹری لگ گئی اور انھوں نے کرپشن کا وہ بازار گرم کیا کہ ایوب خان کے دور میں چلتی ہوئی اور خوب منافع کمانے والی ان کمپنیوں اور صنعتوں کا کوئی خریدار نہیں ملتا تھا۔ سرکاری اداروں میں من پسند لوگوں کی بھرتی کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے جس کا نتیجہ پاکستان اسٹیل اور پی آئی اے کی صورت میں ہمارے سامنے ہے ۔اب وزیراعظم چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتوں اور کاروباری اداروں کو ترقی دینے کی باتیں کررہے ہیں لیکن کیا انھیں نہیں معلوم کہ ملک میں گیس کی نایابی اور بجلی کی گرانی کی وجہ سے کوئی بھی صنعت منافع بخش بنیادوں پر چلانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے ، کیا وزیرا عظم کو کسی نے یہ نہیں بتایا کہ ملک میں برآمدات کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی ٹیکسٹائل کی صنعت کی زبوں حالی اور ٹیکسٹائل کی برآمدات میں خاطرخواہ اضافہ نہ ہونے کی وجہ کیا ہے۔وزیراعظم کو صرف یہ بتایاجارہاہے کہ ملک تیزی سے ترقی کے زینے چڑھ رہاہے اور ثبوت کے طورپر اسٹاک ایکسچینج کی اڑان کو پیش کردیاہے ،اس بنیاد پر آج ملک کی ترقی کی باتیں کرنے والے سیاستدان اور تاجر دونوں بہت خوش نظر آ رہے ہیں، ہر جگہ اپنی واہ واہ کرتے ہوئے اور ترقی کے ثبوت پیش کرتے ہیں لیکن ترقی کے یہ ثبوت پیش کرتے ہوئے اگر وہ کبھی غریبوں کی حالت پر بھی نظر ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ غریب کس طرح زندگی گزار رہے ہیں۔اگر ملک کی ترقی اثاثوں میں اضافے اور تاجروں کے مزید امیر ہونے سے ہوتی ہے اور دنیا بھر سے قرض لے کر معیشت کا مستقبل سنور سکتا تو یہ سب کچھ پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک ہوتا آ رہا ہے عرصہ دراز سے وہی ماہرین معاشیات کام کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں جو کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے وابستہ یا حمایت یافتہ رہے یا بیرون ممالک سے امپورٹ کیے جاتے رہے۔ ان نام نہاد معاشی ماہرین پر کبھی تنقید نہیں ہوئی اور نہ ہی ان کی مجرمانہ رویوں کی وجہ سے معیشت کا جو قتل ہوتا ہے، اس پر کوئی جواب طلبی کی جاتی ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ معاشی ماہرین ایسے قوانین بناتے ہیں جن سے ان کی پارٹی یا ان کے دوستوں کو فائدہ پہنچے۔ آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اداروں کو بیچنے کی بات کرتے ہیں مگر اداروں کو درست کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ حکومتی ادارے عوام کے مسائل حل کرنے اور ان کی زندگیوں کو آسان بنانے کے لیے بنائے جاتے ہیں تاکہ حکومت انہی اداروں سے پیسہ کما کر ان پیسوں سے امور چلائے۔افسوس کہ یہ ادارے صرف چند مخصوص طبقات کو سہولتیں فراہم کرنے تک محدود کردئے جاتے ہیں اور جب یہ ادارے تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں تو انہیں اونے پونے داموں بیچ دیا جاتا ہے۔ آج ٹیکس کا جو بوجھ عوام پر ڈالا گیا ہے، اس کی وجہ بننے والے سرکاری اداروں کو ختم کیا جا رہا ہے ،وجہ یہ ہے کہ کرپشن اور اقربا پروری کی وجہ سے ریاست کے زیر انتظام چلنے والا کوئی ادارہ پیسہ کما کر اپنا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہا، جس کا اثر عام آدمی کی زندگی پر پڑ رہا ہے۔پوری دنیا میں ریاستیں عوام سے لیے گئے ٹیکس اور دیگر ذرائع سے کمائے جانے والے پیسوں سے چلتی ہیں، لیکن پاکستان میں ہمیشہ الٹی گنگا بہتی ہے۔ پاکستان کے بڑے بڑے ادارے خود کما کر اپنا بوجھ اٹھانے کے بجائے سفید ہاتھی بن کر معیشت کو کچلنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ریاستی امور کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے ناکارہ اداروں کا بوجھ عوام کو مہنگائی اور بیروزگاری کی صورت میں اٹھانا پڑتا ہے۔ مہنگائی کا جن آج تک اس لیے قابو میں نہیں آ سکا کیونکہ ہمارے تاجر حضرات پاکستان کا تمام خام مال ایکسپورٹ کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ امیر سے امیر تر ہو جائیں ۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں وافر مقدار میں پیدا ہونے والی بعض اشیا یہاں تک بعض اوقات آلو،پیازاور ٹماٹر تک عام پاکستانیوں کے استعمال کے لیے دستیاب نہیں رہتے۔دنیا بھر میں عوام جب اشیااستعمال کرتے ہیں اور کوئی چیز اضافی ہو تو اس کو بیرون ملک بھیج دیا جاتا ہے، لیکن پاکستان میں نظام ہمیشہ سے الٹا رہا ہے۔ ہم گندم اور چینی اضافی پیدا کرنے کے دعوے کرتے ہیں اور پھر وہی گندم اور چینی بیرون ملک سستے داموں بیچ دیتے ہیں، اور چند دن بعد وہی گندم اور چینی کم پڑنے پر بیرون ممالک سے مہنگے داموں خرید کر معیشت کی قبر میں مزید کیل ٹھونک دیتے ہیں۔
ہماری حکومتوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ آنے والا مستقبل صرف اسی صورت بہتر ہوگا جب پاکستان کے عوام کی ترقی ہوگی۔ ہماری حکومتیں ہمیشہ ان اعداد و شمار کو دیکھ کر خوشی ہوتی رہیں جن کی بنیاد پر معاشی ترقی کے دعوے کیے جاتے ہیں۔ معیشت کی اصل ترقی وہ ہے جس میں انسان کی طرز زندگی بہتر ہو، ہمارے تعلیمی ادارے، سرکاری اسپتال، اور لوگوں کے گھر تینوں کا حال یکساں ہے یہاں یہ نہیں سوچا جاتا کہ پاکستانی عوام کے لیے ہر وہ چیز مہنگی ہو جاتی ہے جو ایکسپورٹ کی جاتی ہے کیونکہ پاکستانیوں کے اپنے استعمال کے لیے وہ اشیا دستیاب نہیں رہتیں۔پاکستان میں 80 فیصد غریب آدمی آج بھی عزت دار طریقے سے زندگی گزارنے کے لیے جدوجہد کرتا ہے، مگر پھر بھی دو وقت کی روٹی بمشکل اسے مل پاتی ہے۔
ایسا معلوم ہوتاہے کہ ہمارے حکمرانوں کے دماغ اور سوچ اس قابل نہیں ہے کہ وہ ہمارے مسائل کو سمجھیں،اور ان کو سلجھانے کی بات کریں۔ لگتا یہ ہے کہ ہماری قیادت ہمیں درپیش مسائل اور مشکلات سے بہت چھوٹی رہ گئی ہے۔یہ صرف دن گزارنے والی اور وقت ٹپانے والی لیڈر شپ ہے جس کا کو ئی نظریہ ہے نہ ہی کوئی ویڑن ہے۔اور نہ ہی اس قیادت سے مستقبل میں کسی بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم اس وقت دنیا کے لیے ایک مسخرہ بن چکے ہیں،دنیا ہمارے در پے ہے اور ہم ایک دوسرے کے درپے ہیں بلکہ ایک دوسرے کی جان کے دشمن بنے ہو ئے ہیں۔ہمارے ہاں کوئی پیغام نہیں ہے کوئی سوچ نہیں ہے کوئی ربط نہیں ہے،مسائل کو سلجھانے کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے،مذہبی انتہا پسندی ہمارے ہاں رچ بس گئی ہے اورہمارا بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ہم نے تمام معاملات کو مذہب کی نظر سے دیکھنا شروع کر دیا ہے اگر ہم دنیا کی قیادت کرنا چاہتے ہیں جو کہ ہمارے برزگوں کا ہمارے لیے خوا ب تھا تو ہمیں ترقی پسند سوچ کی طرف بڑھنا ہو گا ہم دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر نہیں چلیں گے سیاسی دشمنیوں بھلاکر ہاتھ میں ہاتھ ڈال کرچلنے پر تیار نہیں ہوں گے ،ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس نہیں کریں گے تو ترقی کبھی بھی ممکن نہیں ہو سکے گی۔جمہوریت کا جوحال ہمارے ہاں ہے وہ سب کے سامنے ہی ہے،جس انداز میں الیکشن ہو ئے ہیں اور اب جس انداز میں اسمبلی چلائی جارہی ہے وہ ایک مذاق بنا ہوا ہے۔ہمیں اپنے معاملات درست کرنے کی ضرورت ہے۔موجودہ صورتحال میں سے ہی بہتری کی گنجائش نکالنے کی ضرورت ہے۔ایک شخص کے اوپر 180,180مقدمات قائم کرنا کسی سلطنت کی کاروائی تو ہو سکتی ہے لیکن کسی جمہوری ملک میں ایسا نہیں ہو سکتا ہے اور نہ ہی ہونا چاہیے۔ایسے اقدامات کرکے پہلے سے ہی اقتصادی بحران کا شکار ملک کو مزید مشکلات کا شکار کیا جا رہا ہے کیونکہ ایسے اقدامات کے باعث انسانی حقوق کی صورتحال پر سوال اٹھ رہے ہیں اور معاشی نقصان کا بھی اندیشہ ہے عمران خان اور ان کے ساتھیوں پر اتنے مقدمات کا قیام زیادتی ہے اور مضحکہ خیز پیش رفت ہے۔ہمارا پڑوسی ملک اور ہم اکھٹے ہی آزاد ہو ئے تھے آج وہ کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیں اور دوسری جانب ہم بہت ہی پیچھے رہ گئے ہیں۔نہ تو ان کی بیورو کریسی میں کوئی الت ہے اور نہ ہی ان کے سیاست دانوں میں کوئی زیادہ فرق ہے لیکن جو کھیل ہم نے رچایا ہوا ہے اس کھیل نے تو ہماری تباہی ہی پھیر دی ہے۔کوئی بھی ملک چھوٹایا بڑا نہیں ہوا کرتا ہے کسی بھی ملک کی عزت اس کی آبادی یا اس کے رقبے سے نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کی معیشت اور اس کے کردار سے ہو تی ہے،اس کے نظام سے ہوتی ہے۔چھوٹے چھوٹے ممالک بھی دنیا پر چھائے ہو ئے ہوتے ہیں اور رقبے یا آبادی میں بڑے ملک بھی دنیا کی نظرمیں حقیر ہو جاتے ہیں۔ہم تو وہ لوگ ہیں جو کہ انٹر نیٹ کو اپنے لوگوں تک درست طور پر نہیں پہنچاسکے ہیں،سنگاپور ایک چھوٹا سا ملک ہے،لیکن یہ دنیا کا بہترین ملک ہے،ہم کیو ں اس جیسا ملک نہیں بن سکے؟ یہ سوال اہم ہے ہمارے اکابرین کو اس کا جواب سوچنا چاہیے۔ہمارا شمار کئی لحاذ سے ایک بڑے ملک کے طور پر کیا جاتاہے۔ہماری سوچ بھی بڑی تھی ہمارے خواب بھی بڑے تھے لیکن ہم ایک بڑا ملک بن نہیں سکے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے لیڈر چھوٹے ہو تے چلے گئے۔اور جتنے لیڈر چھوٹے ہو تے چلے گئے اتنے ہی مسائل بڑھتے چلے گئے۔اب ان لیڈران کے ساتھ مسائل کا حل مشکل ہی نظر آتا ہے لیکن اللہ کرے کہ کوئی معجزہ ہو جائے اور ہم ان مسائل سے نکل کر ایک قوم بن سکیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں