الیکشن کمیشن کا لیول پلیئنگ فیلڈ فراہمی کا غلط دعویٰ اور ڈھٹائی
شیئر کریں
پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ متنازع بن جانے والے بارہویں انتخابات کے متعلق الیکشن کمیشن نے انتہائی ڈھٹائی، بے شرمی اور ہٹ دھرمی کا رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ پاکستان کے اس اہم ترین آئینی ادارے نے جس طرح جانب داری کا عریاں مظاہرہ کیا ہے، اس سے اندازا لگانا مشکل نہیں کہ کوئی ایک شخص اگر جواب دہی سے آزاد ہو تو وہ کسی اہم ترین منصب پر بیٹھ کر پورے ملک کو انتہائی غیر مستحکم کرنے کی شرمناک حرکتوں کا کیسے مرتکب ہو سکتا ہے؟ ا س لیے جہاں ہر سطح پر احتساب اور جوابدہی کا ایک مستحکم نظام بلاامتیاز حرکت میں لانے کی ضرورت ہے وہاں شکوک کے سائے میں گھرے عام انتخابات کے حوالے سے شکایتوں کا فوری ازالہ بھی ازبس ضروری ہو گیا ہے۔ مگر اس کا کیا کیا جائے کہ الیکشن کمیشن یہ ماننے کو ہی تیار نہیں کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے عام انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ نہ فراہم کرنے کے پاکستان تحریک انصاف کے الزامات مسترد کردیے ہیں۔ انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ کے معاملے پر پاکستان تحریک انصاف کی الیکشن کمیشن آف پاکستان کے خلاف توہین عدالت کیس میں ای سی پی نے سپریم کورٹ میں اپنا جواب جمع کروادیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے اپنے جواب میں تحریک انصاف کے لیول پلیئنگ فیلڈ نہ فراہم کرنے کے الزامات مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ تحریک انصاف کی درخواست کو جرمانے کے ساتھ مسترد کیا جائے۔سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر تحریک انصاف کے رہنماؤں سے ملاقات کی گئی، ملاقات میں تحریک انصاف کو بلا تفریق لیول پلئنگ فیلڈ فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی۔جواب میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے چاروں صوبوں کے آئی جیز کو ہدایات بھی جاری کی گئیں۔واضح رہے کہ 3 جنوری کو انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ کے معاملے پر پی ٹی آئی کی الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے تھے کہ الیکشن کمیشن شفاف انتخابات یقینی بنائے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی تھی، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ میں شامل ہیں۔سپریم کورٹ کی جانب سے یہ ہدایات دراصل26/ دسمبر کو آئندہ انتخابات کے حوالے سے لیول پلیئنگ فیلڈ کے احکامات پر عملدرآمد نہ ہونے پر پاکستان تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی۔پی ٹی آئی کی درخواست میں الزام لگایا گیا تھا کہ عدالتی احکامات کے باوجود پی ٹی آئی امیدواروں کو کاغذات نامزدگی جمع کرانے سے روکا گیا، صوبائی الیکشن کمشنر کے متعدد خطوط لکھے لیکن کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔درخواست میں پی ٹی آئی نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ 22 /دسمبر کے احکامات پر عملدرآمد یقینی بنائے، پی ٹی آئی امیدواروں اور رہنماؤں کو گرفتاریوں اور ہراساں کرنے سے روکا جائے۔درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالتی حکم عدولی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، پی ٹی آئی امیدواروں کو ریلیوں اور جلسوں کی اجازت دی جائے۔پی ٹی آئی نے توہین عدالت کی درخواست پر فوری سماعت کرنے کی بھی استدعا کی، درخواست میں چاروں چیف سیکریٹریز، آئی جیز کے علاوہ سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری الیکشن کمیشن کو بھی فریق بنایا گیا تھا۔سپریم کورٹ نے 22 / دسمبر کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی لیول پلیئنگ فیلڈ سے متعلق درخواست کو نمٹاتے ہوئے الیکشن کمیشن کو تمام شکایات پر فوری ایکشن لے کر انہیں حل کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔مقدمے کی سماعت قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل بینچ نے کی تھی۔ان عدالتی احکامات کے بعد تحریک انصاف کا وفد الیکشن کمیشن پہنچا تھا جہاں ای سی پی نے اسے لیول پلیئنگ فیلڈ سے متعلق تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا تھا کہ انتخابی عمل میں رکاوٹ بننے والے ڈی آر اوز، آر اوز اور پولیس افسران کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
الیکشن کمیشن کے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب پر حتمی حکم تو عدالت ہی لگا سکتی ہے۔ مگر سامنے کے حقائق الیکشن کمیشن کے مذکورہ جواب کا منہ چڑا رہے ہیں۔ اس حوالے سے خود صوبائی الیکشن کمشنر پنجاب کا 24/ دسمبرکو چیف سیکریٹری اور انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس کو لکھا گیا خط ہی کافی ثبوت ہے جس میں صوبائی الیکشن کمشنر نے ریٹرننگ افسران کے دفاتر میں آنے والی شکایتوں کو شکایتوں کا ایک سیلاب قرار دیتے ہوئے فوری کارروائی کا کہا تھا۔ صوبائی الیکشن کمشنر نے آئی جی اور چیف سیکرٹری پنجاب کو فوری طور پر مداخلت کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ پی ٹی آئی امیدواروں سے کاغذات نامزدگی چھیننے کے واقعات میڈیا میں رپورٹ ہو رہے ہیں۔خط میں کہا گیا تھا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق آر او دفاتر سے پی ٹی آئی امیدواروں سے کاغذات نامزدگی چھینے جارہے ہیں، الیکشن کمیشن نے واقعات کے تدارک کیلئے متعلقہ حکام کو خطوط لکھے لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔خط کے متن کے مطابق ریٹرننگ افسران بھی موجودہ صورتحال پر قابو پانے میں ناکام نظرآرہے ہیں۔صوبائی الیکشن کمشنر پنجاب نے ان واقعات سے سیکریٹری الیکشن کمیشن کو بھی آگاہ کیا تھا۔ جن کے متعلق اب یہ اطلاعات گردش میں ہیں کہ وہ اپنے منصب سے استعفیٰ دے چکے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب کی نفی تو خود اپیلٹ ٹریبونلز میں ہونے والی شنوائیوں سے بھی ہو رہی ہیں۔ جہاں تحدید و توازن کا نظام قدرے اطمینان دلاتے ہوئے کام کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ اگر چہ ابھی اس پر کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی مگر بیشتر امیدواروں کے مسترد کاغذات اپیلٹ ٹریبونلز میں بحال کر دیے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے بیشتر مضبوط ترین امیدواروں کو ابتدائی جانچ پڑتال کے مرحلے میں ہی انتخابی اکھاڑے سے نکال باہر کیا تھا۔ پھر یہ شکایتیں عام ہوئیں کہ آر اوز اپنے فیصلوں کی نقلیں فراہم نہیں کر رہے ہیں تاکہ تحریک انصاف کے امیداوروں کے اپیلیں جمع کرانے کے عمل میں رکاؤٹیں پیدا کی جا سکیں۔ بہرحال تحریک انصا ف کے امیدواروں نے لڑتے جھگڑتے، گرتے پڑتے کسی نہ کسی طرح اپیلٹ ٹریبونلز میں اپنی عرضیاں داخل کرا دیں جہاں سے رینٹرننگ افسران کی جانب سے مسترد ہونے والے اکثر کاغذات نامزدگی بحال ہونے کی اطلاعات آ رہی ہیں۔یہ بات بجائے خود الیکشن کمیشن کے اُس پیٹرن کو ظاہر کرتی ہے کہ تحریک انصاف کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے پیچھے کمزور استدلال اور ناکافی وجوہات کو سہارا لیا گیا ہے۔ ایسا کیوں ہوا؟ جواب واضح ہے کہ الیکشن کمیشن یہ کچھ منظم طور پر متعصب ہوئے بغیراورایک منظم ہدایت و منصوبہ کے
ساتھ ہی کر سکتی ہے۔ اس ضمن میں اپیلوں کی سماعت کرنے والے ایک جج کے ریمارکس بھی الیکشن کمیشن کے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب کو بے آبرو کرنے والے ہیں۔ جسٹس ارباب محمد طاہر نے تحریک انصاف کے امیدواروں کی اپیلوں کی سماعت میں یہ ریمارکس دیے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے آر اوز نے زیادہ تر مقدمات میں چھوٹے موٹے مسائل پر کاغذات مسترد کیے جنہیں پانچ سے دس منٹس کے اندر حل کیا جا سکتا تھا۔ اگرچہ اب بھی تحریک انصاف کے بڑے امیدواروں کے مستردکاغذات کی توجیہات انتہائی ناقابل فہم اور غیر منطقی محسوس ہوتی ہیں۔ پھر بھی ایک غیر متوازن ہی سہی مگر کچھ انتخابی ٹریبونلز کے کچھ فیصلوں نے یہ احساس باقی رہنے دیا ہے کہ کہیں نہ کہیں نظام کے اندر زندگی کے کچھ آثار موجود ہیں اور امیدوں کے خلاف ہی سہی مگر کچھ امید کی جاسکتی ہے۔ انتخابی ٹریبونلز کے آنے والے فیصلے بجائے خود الیکشن کمیشن کے موقف کی نفی کرتے ہیں اور متاثرین کے الیکشن کمیشن کے خلاف پائے جانے والے خدشات کو درست ثابت کرتے ہیں۔ یہی موقع ہے کی الیکشن کمیشن کی سرزنش کرتے ہوئے اُسے متعصبانہ رویہ ترک کرکے ایک شفاف انتخابات کی بنیادہ ذمہ داریوں کا احساس دلایا جائے۔ پاکستان کے تمام اداروں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ملک کے بارہویں انتخابات میں ان جانبدارنہ رویوں کا براہ راست اثر عوام کے نظام پر مستقل عدم اعتماد کے ساتھ ردِ عمل کی بڑھتی لہروں پر پڑے گا۔
٭٭٭