لوٹادو وہ بچپن کا ساون۔۔۔
شیئر کریں
دوستو، یہاں ’’لوٹا دو‘‘ کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم ’’لوٹا ‘‘ مانگ رہے ہیں، یا لوٹوں پر کوئی بات کرنا چاہ رہے ہیں۔۔اردوادب کے نامور مزاح نگار کنہیا لعل کپور جی نے بچپن کے حوالے کیا خوب تحریر لکھی ہے، میرا دعویٰ ہے کہ اکثریت کے ساتھ ایسا ہی کچھ ہوتا ہوگا۔۔بچپن میں سب ایک ہی سوال کرتے تھے کہ بڑے ہوکر کیا بنوگے،اور اب کوئی پوچھتا ہے تو صرف اتنا ہی کہتا ہوں، مجھے میرا بچپن لوٹادو۔۔۔ کنہیا جی فرماتے ہیں۔
میں ایک چھوٹا سا لڑکا ہوں۔ ایک بہت بڑے گھر میں رہتا ہوں۔ زندگی کے دن کاٹتا ہوں۔ چونکہ سب سے چھوٹا ہوں اس لیے گھر میں سب میرے بزرگ کہلاتے ہیں۔ یہ سب مجھ سے بے انتہا محبت کرتے ہیں۔ انھیں چاہے اپنی صحت کا خیال نہ رہے ، میری صحت کا خیال ضرور ستاتا ہے۔ دادا جی کو ہی لیجیے۔ یہ مجھے گھر سے باہر نہیں نکلنے دیتے کیونکہ باہر گرمی یا برف پڑ رہی ہے۔ بارش ہو رہی ہے یا درختوں کے پتے جھڑ رہے ہیں۔ کیا معلوم کوئی پتّہ میرے سر پر تڑاخ سے لگے اور میری کھوپڑی پھوٹ جائے۔ ان کے خیال میں گھر اچھا خاصا قید خانہ ہونا چاہیے۔ ان کا بس چلے تو ہر ایک گھر کو جس میں بچے ہوتے ہیں سینٹرل جیل میں تبدیل کرکے رکھ دیں۔ وہ فرماتے ہیں بچوں کو بزرگوں کی خدمت کرنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے وہ ہر وقت مجھ سے چلم بھرواتے یا پاؤں دبواتے رہتے ہیں۔ دادی جی بہت اچھی ہیں۔ پوپلا منہ ، چہرے پر بے شمار جھریاں اور خیالات بے حد پرانے۔ ہر وقت مجھے بھوتوں جنوں اور چڑیلوں کی باتیں سنا سنا کر ڈراتی رہتی ہیں۔ ’’ دیکھ بیٹا اگلی گلی میں جو پیپل ہے اس کے نیچے مت کھیلنا۔ اس کے اوپر ایک بھوت رہتا ہے۔ آج سے پچاس سال پہلے جب میری شادی نہیں ہوئی تھی میں اپنی ایک سہیلی کے ساتھ اس پیپل کے نیچے کھیل رہی تھی کہ یک لخت میری سہیلی بے ہوش ہوگئی۔ اس طرح وہ سات دفعہ ہوش میں آئی اور سات دفعہ بے ہوش ہوئی۔ جب اسے ہوش آیا تو اس نے چیخ کر کہا ’’بھوت‘‘ ! اور وہ پھر بے ہوش ہوگئی۔ اسے گھر پہنچایا گیا جہاں وہ سات دن کے بعد مرگئی اور وہاں ، پرانی سرائے کے پاس جو کنواں ہے اس کے نزدیک مت پھٹکنا۔ اس میں ایک چڑیل رہتی ہے۔ وہ بچوں کا کلیجہ نکال کر کھا جاتی ہے۔ اس چڑیل کی یہی خوراک ہے۔ ‘‘اماں جی کو ہر وقت یہ خدشہ لگا رہتا ہے کہ مجھے کچھ ہوگیا تو کیا ہوگا؟ وہ مجھے تالاب میں تیرنے کے لیے اس لیے نہیں جانے دیتیں کہ اگر میں ڈوب گیا تو ؟ پٹاخوں اور پھلجھڑیوں سے اس لیے نہیں کھیلنے دیتیں کہ اگر کپڑوں میں آگ لگ گئی تو ؟ پچھلے دنوں میں کرکٹ کھیلنا چاہتا تھا۔ اماں جی کو پتا لگ گیا۔ کہنے لگیں ، کرکٹ مت کھیلنا۔ بڑا خطرناک کھیل ہے۔ اگر گیند آنکھ پر لگ گئی تو ؟ بڑے بھائی صاحب کا خیال ہے جو چیز بڑوں کے لیے بے ضررہے چھوٹوں کے لیے سخت مضر ہے۔ خود چوبیس گھنٹے پان کھاتے ہیں لیکن اگر کبھی مجھے پان کھاتا دیکھ لیں فوراً ناک بھوں چڑھائیں گے۔ پان نہیں کھانا چاہیے۔ بہت گندی عادت ہے۔ سنیما دیکھنے کے بہت شوقین ہیں لیکن اگر میں اصرار کروں تو کہیں گے ، چھوٹوں کو فلمیں نہیں دیکھنا چاہیے۔ اخلاق پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ بڑی بہن کو گانے بجانے کا شوق ہے۔ جب انھیں کوئی کام لینا ہو تو بڑی میٹھی بن جاتی ہیں۔ کام نہ ہو تو کاٹنے کو دوڑتی ہیں۔ خاص کر جب ان کی سہیلیاں آتی ہیں اور وہ طرح طرح کی فضول باتیں بناتی ہیں ، اس وقت میں انھیں زہر لگنے لگتا ہوں۔ لے دے کر سارے گھر میں ایک غمگسار ہے اور وہ ہے میرا کتّا ’’ موتی ‘‘۔ بڑا شریف جانور ہے۔ وہ نہ تو بھوتوں اور چڑیلوں کے قصّے سنا کر مجھے خو ف زدہ کرنے کی کوشش کرتا ، نہ مجھے نالائق کہہ کر میری حوصلہ شکنی کرتا ہے اور نہ اسے جاسوسی ناول پڑھنے کا شوق ہے ۔ بس ذرا موج میں آئے تو تھوڑا سا بھونک لیتا ہے۔ جب اپنے بزرگوں سے تنگ آجاتا ہوں تو اسے لے کر جنگل میں نکل جاتا ہوں۔ وہاں ہم دونوں تتلیوں کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ دادا جی اور دادی جی سے دور۔ اماں اباجی سے دور۔ بھائی اور بہن کی دسترس سے دور اور کبھی کبھی کسی درخت کی چھاؤں میں موتی کے ساتھ سستاتے ہوئے میں سوچنے لگتا ہوں ، کاش! میرے بزرگ سمجھ سکتے کہ میں بھی انسان ہوں۔ یا کاش ، وہ اتنی جلدی نہ بھول جاتے کہ وہ کبھی میری طرح ایک چھوٹا سا لڑکا ہوا کرتے تھے۔
ہمارے پیارے دوست بتاتے ہیں کہ ۔۔اُن دنوں دادا ابو جب کبھی دور کسی عزیز کے ہاں جاتے اور وہیں پر رات کے قیام کا ارادہ کرتے تب چاچو لوگ کرائے پر وی سی آر لاتے اور رات بھر انڈین فلمیں دیکھتے رہتے۔۔ہمیں دادا ابو عینک والا جن اور پنک پینتھر والے کارٹونز تک نہیں دیکھنے دیتے تھے ان کا خیال تھا کہ۔۔بچے خراب ہوجائیں گے۔۔چاچو لوگ کے ساتھ فلمیں انجوائے کرنا بھی محض ایک خواب ہی تھا۔ مگر پھر بھی رات کو دروازے کی جھری سے آنکھ لگا کر فلم کے کچھ مناظر دیکھ ہی لیتے۔اور اگلے دن سکول جا کر بالوں کا پف بنا کر اجے دیوگن بننے کی ایکٹنگ کرتے اور کبھی اس پر پھونک مار کر ریمبو ریمبو جان ریمبو بن کر دکھاتے۔ایک دن کیا دیکھا فلم میں امریش پوری ایک لڑکی کی عزت لوٹ رہا ہے۔۔اب یہ تو معلوم نہیں تھا کہ عزت لوٹنا درحقیقت ہوتا کیا ہے مگر اندر کا کیڑا پریکٹیکل کو بیتاب تھا۔۔چنانچہ اسکول میں جیسے ہی تفریح کا وقت ہوا اپنے دوستوں کو بتایا کہ آج میںزبیرکی عزت لوٹنے والا ہوں۔یہ بات زبیرتک پہنچ گئی وہ بھی ڈرنے لگا،مگر بیچارہ کہاں تک بھاگتا،گراؤنڈ میں جا لیا بیچارے کو۔ایک بار ایک کھٹمل کو مار کر اسے ماچس کی تیلیاں جوڑ کر ان پر رکھا اور چِتا جلا ڈالی۔۔(یہ الگ بات ہے اوپر سے چاچو نے آکر کھٹمل کے جلنے سے پہلے ہی میری درگت بنادی)۔ خیر کچھ عرصہ بعد پرائمری کا دور ختم ہوا مڈل اسکول کے دنوں میں گھر کے انٹینا پر دھندلا سا دوردرشن یا اس قسم کے کسی نام کا انڈین چینل چلنے لگا جس پر شکتی مان نامی ڈرامہ لگا کرتا تھا،پھر کچھ عرصہ شکتی مان بن کر گزارہ،اس کے بعد عمروعیار کی کہانیوں کا چسکا پڑ گیا۔آٹھویں جماعت میں چچا جان کو عمران سیریز پڑھتے دیکھا تو ایک دن خود اٹھا کر چوری چھپے پڑھنے لگا۔چاچو کو پتہ چل گیا لیکن حیرت انگیز طور پر اس بار چاچو نے پڑھنے سے منع نہیں کیا۔ایک لمبے عرصے تک عمران سیریز پڑھتا رہا اور پھر دیگر ناولز پڑھنا شروع کردیے۔اس کے بعد انٹرنیٹ کا دور شروع ہوگیا۔آج کل چھوٹا بھیم اور ڈورے مون جیسے کارٹون جب کسی بچے کو دیکھتے ہوئے پاتا ہوں تو وہی سارے کرتوت یاد آنے لگتے ہیں۔ضروری نہیں کہ ہر بچہ کارٹون یا فلمیں دیکھ کر میرے جیسے کرتوت ہی دکھاتا ہو۔لیکن اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں اس کا ان کے ذہنوں پر بہت اثر پڑتا ہے۔آج کے دور میں نا تو بچوں کی کہانیاں اور عمران سیریز جیسے اصلاحی ناولز لکھنے والا کوئی اچھا لکھاری میسر ہے اور نا ہی ناولوں اور کہانیوں کو ویسی فوقیت حاصل ہے۔آج کے بچے چھوٹا بھیم دیکھ کر سارے ہندی ترانے یاد کرتے ہیں ڈورے مون دیکھ کر رومانس سیکھتے ہیں ۔افسوس ان کی اصلاح کے سارے دروازے ہم بند کر چکے ہوں گے۔اب سمجھ میں آتا ہے کہ دادا ابو ٹی وی سے کیوں باز رکھتے تھے۔بچے خراب ہوجائیں گے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔زندگی ایک سفر ہے سہانا، یہاں کب کون رنگ بدلے کس نے جانا؟؟ خوش رہیں ،خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔