آپ مجھے پھانسی دینا چاہیں تو دے دیں، شوکت صدیقی
شیئر کریں
سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہاہے کہ آپ مجھے پھانسی دینا چاہیں تو د ے دیں جس پر عدالت عظمیٰ نے برہمی کا اظہار کیا ہے ۔پیر کو سپریم کورٹ میں جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی اپیل پر سماعت کی۔جسٹس سردار طارق مسعود نے شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان سے کہا کہ کیا یہ آپ کی طرف سے تسلیم شدہ حقائق ہیں کہ آپ سے جنرلز ملے؟ جب جرنیل آپ سے ملے تو آپ نے ان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیوں نہیں کیا۔جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ ایک اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی تو پھر توہین عدالت کا نوٹس بنتا تھا، آپ نے کسی چیف جسٹس کو اطلاع بھی نہیں دی، یہ بتا دیں کیا یہ آپ کا مس کنڈکٹ نہیں تھا۔وکیل حامد خان نے کہا کہ میرے مؤکل کو صرف اس لیے نکالا نہیں جاسکتا کہ میرے مؤکل نے جرنیل کو نوٹس نہیں کیا لیکن چیف جسٹس کو خط لکھا تھا۔انہوں نے کہا کہ اس پر سپریم کورٹ کو توہین عدالت نوٹس دینا چاہیے تھا کہ ایک جج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ28 جون 2018 کو جرنیل آپ سے ملے آپ نے 31 جولائی کو چیف جسٹس کو خط لکھا، ایک ماہ تک انتظار کیوں کیا۔اس موقع پر سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی خود روسٹرم پر آئے اور کہا کہ آپ اس وقت کی صورت حال دیکھیں کہ اداروں کے سربراہان میری گردن کے پیچھے تھے، میں توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتا تو کیا ہوتا، اس وقت کے ادارے (سپریم کورٹ) کے سربراہ جسٹس ثاقب نثار میری گردن کے پیچھے تھے۔سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ اس کے بعد آپ مجھے پھانسی دیں گے تو دے دیں، 23 سال بطور وکیل، 7 سال بطور جج اور 3 سال بطور سائل ہو گئے ہیں، میں اس نظام کو بہت اچھے سے سمجھتا ہوں۔سپریم کورٹ کے بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے شوکت عزیز صدیقی پر اظہار برہمی کیا اور ان کے وکیل سے مخاطب ہو کر کہا کہ حامد خان صاحب آپ نے دانستہ خاموشی اختیار کی ہے، جب آپ کے مؤکل نے اس عدالت کی تضحیک کی تو آپ خاموش رہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جس طرح آپ کے موکل پھٹ پڑے یہ ہر لحاظ سے غیر معیاری ہے، آپ نے شوکت عزیز صدیقی کی خاموش رہ کر حوصلہ افزائی کی،آپ نے خاموش رہ کر شوکت عزیز صدیقی کی حوصلہ افزائی کی۔