میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
افغانستان میں بھارت کا عمل دخل خطے کے امن کے لیے خطرہ

افغانستان میں بھارت کا عمل دخل خطے کے امن کے لیے خطرہ

منتظم
جمعرات, ۷ دسمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

افغان صدر اشرف غنی نے کہا کہ افغان فورسز نے ملک میں داعش کو تباہ کردیا ہے، دہشت گردی بین الاقوامی امن اور سیکیورٹی کے لیے خطرہ ہے ،پاکستان سے براہ راست مذاکرات چاہتے ہیں۔آذربائیجان میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اشرف غنی نے کہا کہ بیرونی تعاون سے داعش کو پہاڑوں تک محدود کردیا ہے۔ نئی امریکی پالیسی کے بعد طالبان گروپ اور ان کی پشت پناہی کرنے والے گروپ عسکری طور پر نہیں جیت سکتے۔اشرف غنی نے کہا کہ کابل، اسلام آبادکے درمیان براہ راست مذاکرات ہونے چاہیں۔کانفرنس میں افغانستان، آذربائیجان، چین، بھارت، ایران، قازستان، کرغز ریپبلک، پاکستان، روس، سعودی عرب، تاجکستان، ترکی، ترکمانستان، متحدہ عرب امارات اور اقوام متحدہ شرکت کررہے ہیں۔ دوسری طرف سوچی روس میں شنگھائی تنظیم کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گا، افغانستان میں امن کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم کی کاوشوں کی حمایت کرتے ہیں۔
روس کے شہر سوچی میں شنگھائی تعاون تنظیم کے 16ویں سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا کہ دہشتگردی کا خاتمہ ایس سی او کے تمام رکن ممالک کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔انہوں نے دہشتگردی کے ممکنہ خطرات پر جامع حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیا۔دہشتگردی نے ایک عالمی ناسور کی شکل اختیار کر لی ہے۔ عالمی سطح پر مربوط رابطوں، تعاون اور اتحاد کے بغیر اس سے نجات ممکن نہیں، مگر کچھ ممالک دہشتگردی اور دہشتگردوں کو اپنے مقاصد اور مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان میں بھارت سرفہرست ہے۔ وہ مقبوضہ کشمیر میں ظلم، جبر اور بربریت کی نئی تاریخ رقم کر رہا ہے۔ بچوں اور خواتین پر پہلے پیلٹ گنیں استعمال کی گئیں جس پر عالمی سطح پر مذمت ہوئی مگر بھارت انسانیت کے خلاف سنگین جرائم سے باز نہیں آیا۔ اب اس نے نہتے کشمیریوں کے خلاف کیمیاوی اسلحہ استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی اور سفارتی مدد کرتاہے۔ بھارت کشمیریوں کو دہشت گرد اور ان کی اخلاقی و سفارتی مدد کرنے پر پاکستان کو دہشت گردوں کا پشت پناہ قرار دیتا اور دنیا بھر میں لغو پراپیگنڈہ کرکے اسے بدنام کرنے اور کشمیریوں کے حقوق غصب کرنے پر کار بند ہے۔ وہ کشمیر میں تحریک آزادی میں تیزی کا ذمہ دار بھی پاکستان کو قرار دے کر بلوچستان میں اس کا بدلہ چکانے کا اعلان کرکے اس پر عمل پیرا بھی ہے۔ وہ نہ صرف بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی کرتا ہے بلکہ افغانستان کے ذریعے پاکستان میں دہشتگردی میں ملوث ہے۔ دہشت گرد کلبھوشن کی سربراہی میں پورا نیٹ ورک پکڑا گیا جو پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے میں ملوث تھا۔ بھارت کی بدنام زمانہ انٹیلی جنس ایجنسی 146146را145145 کی نگرانی میں دہشت گردی کے منابع نہ صرف افغانستان میں ہیں بلکہ بھارت کا اسلام آباد میں سفارتخانہ بھی جاسوسی کا مرکز بنا ہوا تھا جہاں سے درجن بھرسفارتکاروں کو جاسوسی میں ملوث ہونے پر واپس بھجوایا گیا۔
ایک طرف افغانستان خود بری طرح دہشت گردی کا شکار ہے، دوسری طرف اس نے بھارت کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دے رکھی ہے، طرفہ تماشہ یہ کہ پاکستان سے فرار ہو کر افغانستان میں چھپے دہشتگرد پاکستان میں دہشت گردی کی پلاننگ کرتے اور عموماً پاکستان میں داخل ہو کر دہشتگردی کی کارروائیاں کر گزرتے ہیں۔ فوجی ترجمان کے مطابق پشاور میں زرعی تربیتی مرکز پر حملہ کرنیوالے تین دہشتگردوں کے افغانستان سے رابطے تھے۔ بجا کہ افغانستان میں پاکستان سے فرار ہونیوالے دہشتگرد افغان انتظامیہ کے کنٹرول میں نہیں ہیں مگر جس طرح افغان فوج طالبان کے خلاف آپریشن کرتی ہے کیا ایسا کبھی مولوی فضل اللہ اور اس کے ساتھیوں کے خلاف بھی ہوا ہے۔ امریکا نے سرحد کے آر پار دہشتگردوں کی موجودگی کی نشاندہی کی تھی۔ پاکستان نے اپنی طرف کے علاقے ایسے دہشتگردوں سے کلیئر کرا لیے جبکہ افغانستان میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
افغانستان اور پاکستان پڑوسی مسلم ممالک ہیں دونوں کی آبادی کا ایک بڑا حصہ خون کے رشتوں میں بندھا ہے۔ دونوں کے مابین تو مثالی تعلقات ہونے چاہئیں جس کی پاکستان نے ہمیشہ کوشش کی مگر قیام پاکستان کے بعد سے اب تک افغان انتظامیہ کا رویہ مایوس کن رہا ہے۔ اس نے ہمیشہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو ترجیح دی جس کے لیے پاکستان کا وجود ناقابل برداشت ہے۔ اب افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی بات ہے۔ ایسی خواہش کا اظہار پہلے بھی کئی بار کیا جاتا رہا ہے جس کی پاکستان نے ہمیشہ حوصلہ افزائی کی۔ اب بھی براہ راست مذاکرات میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں ا?تی بلکہ مذاکرات ہی غلط فہمیاں اور تعلقات میں کشیدگی دور کرنے کا طریقہ کار ہے۔ اشرف غنی متعدد بار پاکستان آئے۔ ان کے پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت سے کامیاب بات چیت ہوئی۔ کشیدگی میں واضح کمی محسوس کی گئی۔ دو طرفہ معاہدے بھی ہوئے مگر ان کی سیاہی خشک ہونے سے قبل بھارت کے دبائو پر پھر پاکستان پر الزامات کی بھرمار ہونے لگی۔ بھارت کے افغانستان میں عمل دخل کو ختم کیے بغیر پاکستان اور افغانستان کے مابین خوشگوار تعلقات کے دور کا آغاز ہونا ممکن نہیں، البتہ پاکستان اور بھارت کے مابین دشمنی کی بنیاد مسئلہ کشمیر حل ہو جائے تو خطے میں امن کا قیام ممکن ہے لیکن بھارت مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف آنے پر تیار نہیں ہے۔
افغانستان کے امن کے ساتھ نہ صرف پاکستان کا امن وابستہ ہے بلکہ خطے کے امن کا انحصار بھی افغانستان میں قیام امن پر ہے۔ پاکستان سے زیادہ افغانستان میں امن کے قیام میں کسی کو دلچسپی نہیں ہو سکتی۔ نائن الیون کے بعد امریکا نے افغانستان پر یلغار کرکے طالبان حکومت کا خاتمہ کیا اور جمہوری حکومت کا سلسلہ شروع ہوا۔ طالبان اس حکومت اور امریکا کے لیے شروع سے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ امریکا کے ایما پر پاکستان نے طالبان کو مذاکرات پر ا?مادہ کیا مگر افغان انتظامیہ طالبان کے نام ہی سے خائف ہے۔ ان کو اقتدار میں حصہ دار بنانے پر تیار نہیں، جب تک کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کا اطلاق نہیں ہوتا، مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں نہ طالبان ہتھیار ڈالنے پر ا?مادہ ہونگے۔ افغانستان میں انتشار اور خلفشار کے لیے طالبان ہی کم نہ تھے کہ داعش نے بھی افغانستان میں قدم جما لیے ہیں۔اشرف غنی نے بڑے فخریہ انداز میں کہا ہے کہ بیرونی تعاون سے داعش کو پہاڑوں تک محدود کر دیا ہے۔ پہاڑوں پر داعش کیا ہائیکنگ کر رہے ہونگے، کیا ان کا پہاڑوں پر چلے جانا ہی مستقل حل ہے؟۔ یہ بھی آپ نے بیرونی تعاون سے کیا ہے۔ یہ بیرونی تعاون کب تک حاصل رہے گا۔ داعش اور طالبان موقع کی تلاش میں رہتے ہیں اور موقع ملتے ہی بدترین دہشتگردی کا ارتکاب کر گزرتے ہیں۔ ان کے ساتھ جہاںآپریشن کے ذریعے نمٹنے کی ضرورت ہے وہاں آپریشن کیا جائے جہاں مذاکرات ہو سکتے ہیں تو مذاکرات کیے جائیں۔
پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف بے رحمانہ آپریشن ہوا تو بڑی تعداد میں دہشت گرد افغان سرحد عبور کر گئے۔ افغانستان میں بھی ایسے آپریشن ہوتے تھے تو یہ لوگ پاکستان میں درآتے تھے، اب ان کے پاکستان سے ٹھکانے ختم ہو چکے ہیں مگر یہ مہاجرین کے روپ میں پاکستان داخل ہو سکتے ہیں۔27سو کلو میٹر بارڈر کی نگرانی اطراف سے ممکن نہیں۔ افغانستان کی طرف سے پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا واویلا کیا جاتا ہے کہ جہاں سے دہشت گرد افغانستان میں داخل ہو کر کارروائیاں کرتے ہیں۔ پاکستان کو افغانستان سے دہشت گردوں کے در آنے کے شدید تحفظات رہے ہیں۔ دو طرفہ الزامات اور تحفظات کے ازالہ کا بارڈر مینجمنٹ سے بہتر کوئی حل نہیں ہے مگر بھارت کے ایما پر افغانستان بارڈر مینجمنٹ کی شدید مخالفت کرتا ہے۔ اس سے افغان حکومت کے خبث باطن کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
افغانستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے مگر اس کا کردار اب بھارت کی کٹھ پتلی کا بن چکا ہے۔ افغانستان کو بھارت کی کٹھ پتلی کا تاثر دورکرنے کے لیے اس کا اپنے ملک سے عمل دخل ختم کرنا ہوگا جس سے افغانستان میں قیام امن کے امکانات بڑھ جائیں گے اور پاکستان میں امن کی بحالی یقینی ہو جائے گی جس کے افغانستان کے امن پر بھی یقیناً مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں