کراچی کی تاریخ تبدیل، شہر ہڑپائی دور کا نکلا
شیئر کریں
(رپورٹ:مختار احمد)کراچی کی تاریخ و تہذیب تبدیل،شہر ہڑپائی دور کا ہے،حتمی اعلان 16 نومبر کو امریکی ماہر آثار قدیمہ جوناتھن مارک کینائر کی واپسی کے بعد ہوگا۔ انتہائی با خبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وفاق کے زیر اثر کام کرنے والے محکمہ آثار قدیمہ نے 1971-1972 میں ملیر کے علاقے اللہ ڈینو بازار کے قریب تین علاقو ں امیلیانو، حسن ولی اور کچبل میں امریکی ماہر ڈاکٹر جیمز شافر کی سربراہی میں کھدائی کروائی تھی جنہوں نے کھدائی کے 3 سیزن مکمل کرنے کے بعد کہا تھا کہ اس علاقے کے کچھ حصے ہڑپائی دور کے ہیں اور اس سلسلے میں باقاعدہ طور پر انہوں نے بعض آثار اورشواہد بھی پیش کئے تھے ۔جن میں باقاعدہ طور پر ہڑپائی کے دور باتھ روم، خانہ نما کمرے، گلی،اینٹوں کے پلیٹ فارم، پتھر مٹی کی اینٹوں، گھر کی نالیاں، آگ کے گڑھے،بھٹیاںو دیگر نوادرات شامل تھے مگر اسی دور میں ان پانچوں ماہرین پر یہ الزام عائد کیاگیا کہ وہ ملک پاکستان میں جاسوسی کر رہے ہیں جس کی وجہ سے انہیں ملک بدر کردیاگیا جس کے بعد لگ بھگ 51 سال تک اس راز پر پردہ پڑا رہا مگر پھر اچانک محکمہ ثقافت سیاحت و نوادرات نے اس حوالے سے کاوشیں کرتے ہوئے ایک اور امریکی ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر جوناتھن مارک کینائر جوکہ ہڑپہ کی کھدائیوں میں بھی شریک رہے کو پاکستان بلا کر ذمہ داریاں سونپیں جنہوں نے کچھ مقامی ماہرین کی مدد سے 2 سیزن مکمل کر لئے اور انہوں نے بھی اس بات کا انکشاف کیا کہ یہاں جو آثار دریافت ہوئے ہیں وہ ہڑپائی دور یعنی کے ساڑھے 3 ہزار سال قبل مسیح کے ہیں اس حوالے سے انہوں نے بھی کچھ نوادرات کے نمونے پیش کئے ہیں جن کی باقاعدہ طور پر تحقیق کی جا رہی ہے۔امریکی ماہر جوکہ ان دنوں امریکہ میں ہیں 16 نومبر کو پاکستان پہنچ کر دوبارہ سے تیسرے سیز کا آغاز کریں گے جس کے بعد اس بات کا حتمی فیصلہ کیا جائے گا کہ اللہ ڈینو بازارجوکہ ملیر ندی کے قریب ہے سے دریافت ہونے والی کھنڈرات اور نوادرات ہڑپائی دور کے ہیں۔ اس حوالے سے روزنامہ جرات نے جب محکمہ آثار قدیمہ کے ایک ذمہ دار جوکہ اس مشن میں شریک یتھے سے تصدیق کی تو انہوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ بات گوکہ پہلے ہی ثابت ہو چکی تھی کہ یہ علاقہ ہڑپائی دور سے تعلق رکھتا ہے مگر اس بات کا حتمی فیصلہ اب امریکی ماہر آثار قدیمہ کی واپسی کے بعد ہوگا۔اس حوالے سے محکمہ آثار قدیمہ کے ایک ماہر نے بھی اس بات کی تصدیق کی اور بتایا کہ گوکہ یہاں سے آثار 1971اور 1972 میں دریافت ہو چکے تھے یہ علاقہ ایک صنعتی علاقہ تھا مگر کسی حتمی رائے سے پہلے ہی ان ماہرین پر الزامات عائد کر دیئے گئے تھے جس کے بعد تحقیق کا یہ کام 51 سالوں تک بند رہا اور اب جب اس بات کی از سر نو تحقیق شروع ہوئی ہے تو غالب امکان ہے کہ اس کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد شہر کراچی کے بعض علاقوں کی تاریخ و تہذیب مکمل طور پر تبدیل ہوجائے گی اور شہر کے ان علاقوں کو قدیم ترین ہونے کا درجہ حاصل ہوجائے گا۔