عالمی امن اورنسل پرست اسرائیل
شیئر کریں
سمیع اللہ ملک
اسرائیل نے بھی نسل پرستی کواسی طوراپنایاہے جس طورجنوبی افریقامیں سفیدفام اقلیت نیسوویٹومیں اپنایاتھا۔سوویٹوکے انجام بدکے بعد اسرائیل میں بھی نسل پرستی پرمبنی نظام ایک دن فناہو گا۔21مارچ1960کی بات ہے،یکساں حقوق کیلئے آوازبلندکرنے اوراحتجاج کرنے والے سیاہ فام باشندوں پرجرمنی افریقاکی نسل پرست انتظامیہ کے تعینات کردہ پولیس اہلکاروں اورفوجیوں نے گولیاں برسائیں۔ یہ واقعہ شرپے ولے کاہے۔16جون1976کویہی سب کچھ سیاہ فاموں کی بستی سوویٹومیں ہوا۔24مئی2018کویہ سب کچھ غزہ میں اسرائیلی اہلکاروں کے ہاتھوں ہوااوران کا نشانہ بنے فلسطینی ،اورآج ایک مرتبہ پھرچشم فلک دیکھ رہاہے کہ غزہ میں تاریخ کی بدترین خونریزی اسرائیل کے ہاتھوں ہورہی ہے اوربظاہردنیامیں جمہوریت اورانسانی حقو کے چیمپئن کس طرح اسرائیل کی پشت پرکھڑے اس ظلم وستم میں شریک ہیں۔
اسرائیل نے پہلے تووہی اطواراپنائے ہیں،جوجنوبی افریقاکی نسل پرست انتظامیہ نے اپنائے تھے مگراب تواس نے ہلاکو اورچنگیزخان کو بھی مات کردیاہے۔ایک طرف توفلسطینیوں کامکمل بائیکاٹ کیاگیا،انہیں کام کرنے اورڈھنگ سے کمانے کے حق سے محروم کر دیا گیا۔دوسری طرف ان کے علاقوں میں سرمایہ کاری نہیں ہونے دی گئی۔ تجارتی اورصنعتی اعتبار سے فلسطینی انتہائی ناگفتہ بہ حالت میں ہیں۔ ان کیلئے باعزت طریقے سے اپنے اوراہل خانہ کیلئے تین وقت کی روٹی کااہتمام کرنابھی انتہائی دشوارہوچکاہے۔ساتھ ہی ساتھ طرح طرح کی پابندیاں بھی عائدہیں۔یہ بنیادی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے کیونکہ غزہ اور دیگرفلسطینی علاقوں میں پابندیوں کے ہاتھوں صحتِ
عامہ کابحران پیداہوچکاہے ادویات اورضروری طبی سامان کی قلت نے ہزاروں فلسطینیوں کوموت کی راہ دکھادی ہے اس وقت ہزروں زندگیاں داؤپرلگی ہوئی ہیں۔ اسرائیل نے جوسلوک فلسطینیوں سے روا رکھاہے اس کی دنیابھرمیں مذمت کی جارہی ہے۔ایسے میں یہ بات بہت عجیب دکھائی دیتی ہے کہ کوئی اسرائیلی پالیسیوں کوغلط قرارنہ دے اوران کی حمایت کرے۔ رچرڈگولڈاسٹون کا یہی معاملہ ہے۔ جنوبی افریقاکے ڈیسمنڈ ٹوٹونے کہاتھاکہ جوکچھ جنوبی افریقامیں ہواکرتاتھا،وہی کچھ اسرائیل کررہاہے۔رچرڈگولڈاسٹون جنوبی افریقا کے سفید فام یہودی ہونے کی وجہ سے ہمیشہ یہی کہتارہاکہ اسرائیل کچھ غلط نہیں کررہابلکہ اس کے اقدامات کوکسی اوررنگ میں پیش کیا جا رہا ہے۔ جنوبی افریقامیں جونسل پرستی اپنائی گئی تھی اس کی بنیاددوباتوں پرتھی۔اول یہ کہ سیاہ فام آبادی کوبرابرکے شہری نہ سمجھا جائے یعنی انہیں چند بنیادی حقوق سے محروم رکھاجائے اور دوسرے یہ کہ انہیں ووٹ کاحق کسی بھی حال میں نہ دیاجائے۔ووٹ کاحق ملنے کامفہوم اس کے سوا کیا ہے کہ انسان اپنے لیے اپنی مرضی سے نمائندہ منتخب کرے اوراپنی مرضی کی حکومت تشکیل دینے میں کلیدی کردااداکرے۔ یہی سبب تھاکہ جنوبی افریقامیں سیاہ فام باشندوں کوالگ تھلگ رکھاجاتاتھا۔انہیں حکومتی امورسے متعلق کچھ کہنے کی اجازت نہ تھی ۔ وہ معاشی معاملات میں کچھ بھی کہنے کے حقدارنہ تھے۔سیاسی معاملات میں توانہیں اف بھی کرنے کی اجازت نہ تھی۔ایسے ماحول میں پروان چڑھنے والی نسلیں فطری طورپرکمزور ہوتی ہیں۔ان میں اعتماد نہیں ہوتا۔
تاریخ کاریکارڈبتاتاہے کہ نسل پرستی کاآغازامریکا،کینیڈا،آسٹریلیااورنیوزی لینڈمیں ہوا۔سفیدفام یورپی باشندے جب ان ممالک میںپہنچے توتعدادمیں بہت کم تھے۔لازم تھا کہ مقامی آبادیوں کوکسی نہ کسی طورمنقسم اورالگ تھلگ رکھاجائے۔افریقامیں بھی یورپ کے
لوگوں نے یہی کیا۔وہاں آبادہونے والے یورپی باشندوں نے سیاہ فام باشندوں کو گرفتارکرکے غلام بنایااورپھربیگارکیلئے یورپ اور امریکا بھیج دیا۔اس صورت میں یورپی آبادگاروں کیلئے افریقی سرزمین پرباقی ماندہ لوگوں کوکنٹرول کرنابہت آسان ہوگیا۔مئی 1948 میں جنوبی افریقامیں سفید فام یورپی اقلیت کوسیاہ فام اکثریت اورمئی1948میں فلسطین میں سفید فام یورپی نسل کے یہودیوں کوفلسطینی اکثریت کا سامناکرناپڑا۔
جنوبی افریقامیں سفیدفام اقلیت کے سامنے انتہائی امتیازی سلوک پرمبنی پالیسی اپنانے کے سواچارہ نہ تھا۔اس نے سیاہ فام اکثریت کو تمام بنیادی حقوق سے یکسرمحروم کردیا۔ووٹ کاسٹ کرنے کی بھی اجازت نہ تھی۔دوسری طرف اسرائیل میں معاملہ یہ تھاکہ نسل پرستی کو ڈھکے چھپے اندازسے اپنایاگیا۔سات لاکھ عرب باشندوں کوان کی سرزمین سے بے دخل کرنے کے بعدوہ علاقہ اسرائیل کاحصہ بنا لیا گیا۔ اقوام متحدہ کے طے کردہ تمام اصولوں کویکسربالائے طاق رکھتے ہوئے اسرائیلی حکومت نے ان عرب باشندوں کوواپسی کاحق دینے سے بھی محض اس دلیل کی بنیادپرانکارکردیاکہ یہ نسلی یہودی نہیں،اس لیے ان علاقوں پران کا کوئی حق نہیں۔اکثریت یقینی بنانے کے اس طریق کار کو دنیابھرمیں شدیدتنقیدکا نشانہ بنایاجاتارہاہے،بھرپورمذمت کی جاتی رہی ہے ۔جن علاقوں میں عرب55فیصدتھے وہاں اسرائیلی اقدام کے بعدیہودی80فیصدہوگئے۔
آج غزہ میں انتہائی ناگفتہ بہ حالت میں زندگی بسرکرنے والے فلسطینی دراصل وہی عرب باشندے اوران کی اولادیں ہیں جنہیں اسرائیلیوںنے1948میں اپنی سرزمین سے بے دخل کردیاتھا۔جب یہ فلسطینی غزہ اور1949سے1967تک کے اسرائیل کی سرحد پر جمع ہوکراپنی آبائی زمین کی طرف مارچ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تونسل پرستانہ نظام کوچیلنج کرتے ہیں۔بنیادی حقوق سے متعلق بین الاقوامی قانون(بشمول قبرص،آرمینیا اورآذربائیجان سے متعلق یورپین کورٹ آف ہیومن رائٹس کے فیصلے)کسی بھی نسلی آبادی کو اس کی آبائی سرزمین سے نزدیک ترین علاقوں کوواپس جانے کاحق دیتاہے۔بیشتراسرائیلی اس بات کے خلاف ہیں کہ فلسطینیوں کوان کی زمینوں پر واپسی کاحق دیاجائے کیونکہ ایساکرنے سے ان کی اکثریت قائم ہوجائے گی۔اب سوال یہ ہے کہ اگریہ غلط ہے توپھر1948میں مصنوعی طریقے سے معرض وجودمیں لائی جانے والی یہودی اکثریت کو برقرار رکھناکیوں درست ہے؟
اسرائیل نے1967میں جنوبی افریقا کی نسل پرست پالیسی اپناتے ہوئے غرب اردن،مشرقی بیت المقدس اورغزہ پرقبضہ کرنے کے بعداسرائیل نے وہاں کے شہریوں کوشہریت کے حق سے بھی محروم کردیا۔واضح رہے کہ جنوبی افریقامیں سفیدفام اکثریت کاامتیازی نظام 46سال برقراررہاتھاجبکہ اسرائیل میں اپنایاجانے والاامتیازی نظام نصف صدی پوری کرچکا ہے۔اسرائیل کی حکومت اب تک اس پورے معاملے کوعارضی قراردیتی آئی ہے۔غرب اردن میں نئی بستیاں بساکرپانچ لاکھ سے زائد یہودیوں کوآبادکیاجاچکاہے۔غزہ میں رہنے والے اگرچہ اسرائیل کے ماتحت ہیں مگرانہیں اسرائیل کی شہریت دی گئی ہے،نہ ووٹ ڈالنے کاحق دیاگیاہے۔اسرائیل کی حدودمیں اب بھی ایسے لاکھوں عرب باشندے ہیں جنہیں شہریت ملی ہوئی ہے اورووٹ ڈالنے کاحق بھی دیاگیاہے۔ ایسے میں اسرائیل پرنسل پرستی کاالزام کیوں کر عائد کیاجاسکتاہے؟بات کچھ یوں ہے کہ1948میں عرب باشندوں کوان کے علاقوں سے نکالنے کے بعداسرائیلی حدودمیں جوعرب رہ گئے تھے انہیں شہریت دیے بغیرچارہ نہ تھااوریوں بھی بہت بڑے پیمانے پرناانصافیاں کرنے کے بعدچندایک منصفانہ اقدامات سے تلافی ممکن نہیں۔
جنوبی افریقا کی نسل پرست حکومت پرجب غیرمعمولی بین الاقوامی دباؤپڑاتب اس نے طے کیا کہ سیاہ فام باشندوں کو10چھوٹے چھوٹے خودمختارعلاقوں میں بسادیاجائے اور باقی ماندہ زمین یعنی بڑاٹکڑاسفید فام اقلیت کے تصرف میں رکھاجائے۔اقوام عالم نے یہ تجویز فوراًمستردکردی کیونکہ اس میں کہیں بھی انصاف نہیں تھا۔اسرائیل نے بھی کچھ ایساہی طریق کاراختیارکرنے کی کوشش کی تھی۔وہ چاہتا تھا کہ فلسطینیوں کوالگ تھلگ علاقوں میں بساکرتھوڑی بہت خودمختاری دے دی جائے تاکہ دنیاکودکھایا جاسکے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کو ریاست کے قیام کاحق دے دیاہے۔حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی حکومت فلسطینیوں اوردیگر عرب باشندوں کوزیادہ سے زیادہ منقسم رکھناچاہتی ہے تاکہ وہ کبھی ایک ہوکر اسرائیل کے خلاف کچھ نہ کرسکیں۔
اسرائیل نے سات عشروں کے دوران فلسطینیوں اوردیگرعرب باشندوں کوکچل کررکھنے کی جس پالیسی پرعمل جاری رکھاہے اسے بالکل درست قرار دینے والوں کی اسرائیل میں بھی کمی نہیں۔وزیرتعلیم نفٹالی بینیٹ کہتاہے کہ اسرائیل نے جس طورمشرقی بیت المقدس،گولان کی پہاڑیوں اورغزہ پرقبضہ کیاتھا بالکل اسی طرح پورے غرب اردن پربھی قبضہ کرلے ۔ اس تجویزپرعمل کی صورت میں اسرائیل کی نسل پرستانہ پالیسی زیادہ شفاف ہو کردنیا کے سامنے آئے گی۔یورپ نے صدیوں تک یہودیوں پرجومظالم ڈھائے تھے اوردوسری جنگ عظیم کے دوران جس طوریہودیوں کوقتل کیاگیا اس نے یورپ کی سفید فام اقوام میں شدید احساسِ جرم پیدا کیااوراس احساسِ جرم سے چھٹکاراپانے کیلئے انہوں نے طریقہ یہ سوچا کہ یہودیوں کوایسی جگہ بسایاجائے جہاں مستقبل میں یہودی ریاست یورپ کے مفادات کیلئے ایسے ایجنٹ کے طورپرکام کرے جو عربوں کوان کے زیرنگیں رکھنے کے کام آسکے۔یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کوفلسطینیوں کوتختہ مشق بنانے کی کھلی چھٹی دی گئی۔جوکچھ یورپی اقوام نے یہودیوں سے کیا،وہی سب کچھ فلسطینیوں سے ہونے دیاجارہاہے۔سات عشروں سے فلسطینی اور عرب باشندے شدید امتیازی سلوک،تشدداورقتل وغارت کاسامناکررہے ہیں۔اسرائیل کوفلسطینیوں سے کھل کرناانصافی کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل نے زیادہ نسل پرستی کامظاہرہ کیاہے اوروہ بھی زیادہ طویل مدت تک جوابھی تک جاری ہے۔
اسرائیل کے خلاف رائے عامہ ہموارہوتی جارہی ہے۔امریکی اوربرطانوی جامعات میں پڑھنے والے یہودی طلبہ بھی اب اس بات کو سمجھتے ہیں کہ فلسطینیوں سے سات عشروں سے زائدتک ناانصافیاں روارکھی گئی ہیں۔اسرائیل کی نسل پرستانہ پالیسیاں اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔اسرائیل پربڑھتاہوادباؤبالآخر فلسطینیوں کیلئے کسی ریاست کے حق کولیے بغیرچین سے نہ بیٹھے گا۔امریکا، یورپ اوردیگر خطوں میں اسرائیل کے خلاف فضاتیارہوتی جارہی ہے اوربالخصوص حالیہ غزہ پراسرائیل کے بے رحمانہ اور وحشیانہ حملوں کے بعد مغربی ممالک میں اسرائیل کے خلاف مظاہروں میں دنیابھرکی اقوام بشمول یہودی افراد کی شمولیت اس بات کی مظہرہے کہ اگراسرائیل کی نسل پرستی کی پالیسیوں کونہ روکاگیاتواس کے اتحادیوں کی سلامتی کیلئے بھی کئی مشکلات پیداہوسکتی ہیں اوردنیاپھرایک نہ رکنے والی ایک ایسی جنگ میں داخل ہوسکتی ہے جس کے نتیجے میں ساری دنیاتاریک ہوسکتی ہے۔
اس وقت اقوام متحدہ میں دوریاستوں کے قیام کی قراردادوں کوآخرکیوں پسِ پشت ڈال کردنیاکے امن کوتباہ کیاجارہاہے۔اسرائیل کی حمایت میں امریکااوراس کے اتحادیوں کو آخرکاراپنے عوام کے دباؤپرسرجھکاناپڑے گا۔ذرادل پرہاتھ رکھ کرسوچیں کہ اگرایسی ہی اقوام متحدہ کی قراردادیں کسی مسلم ممالک کے بارے میں ہوتیں توکیاامریکااوراس کے اتحادی اس قدرانتظارکرتے؟یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ اسرائیل کے پشتیبان امریکااوراس کے اتحادیوں نے پچھلے پانچ عشروں میں دنیامیں37ممالک پرجارحیت سے قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن کسی ایک ملک سے بھی عزت کے ساتھ واپس نہیں لوٹابلکہ جس قدرذلت ورسوائی اسے ویتنام اورافغانستان میں اٹھانی پڑی ہے، اس کے بعدیقین ہوچلاتھا کہ ااب امریکااپنی ان وحشیانہ پالیسیوں پرغورکرکے آئندہ دنیاکو امن کاگہوارہ بنانے میں تعاون کرے گا لیکن جاری پالیسیاں اس بات کی چغلی کھارہی ہیں کہ شائدان طاقتوں کیلئے کوئی ایسا بندوبست ہونے جارہاہے کہ جس کے بعدماسوائے پچھتاوے کے اورکچھ ہاتھ نہ آئے گا۔
ادھرسوشل میڈیاپلیٹ فارم ایکس پرایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے اسرائیل کے غزہ کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات پر متنبہ کرتے ہوئے کہاہے کہ اسرائیل نے اب حدسے تجاوزکرلیاہے جوکسی کوبھی اس کے خلاف کارروائی پرمجبورکرسکتاہے۔ واشنگٹن ہم سے کچھ بھی قدم نہ اٹھانے کوکہتاہے لیکن ساتھ ہی وہ اسرائیل کی وسیع حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ان کے مطابق امریکانے مزاحمتی اتحادکوپیغامات بھیجے لیکن ان کا جواب انہیں واضح طورپرمیدان جنگ میں مل گیاہے۔مزاحمتی اتحاد سے مراد پورے مشرق وسطیٰ میں ایران کی حمایت یافتہ فورسز کانیٹ ورک ہے جس کا حماس ایک حصہ ہے۔واضح رہے کہ امریکی حکام ایران کو خبردارکرتے رہے ہیں کہ وہ اسرائیل اور حماس جنگ سے دور رہے کیونکہ وہ وسیع ترعلاقائی تنازع کوروکنے کا خواہاں ہے جبکہ وہ پہلے ہی دن اپنی امریکی بحری بیڑے سمیت اسرائیل کی تائیدمیں پہنچ چکاہے اوربرطانوی انڈین نژادہندووزیر اعظم تواسلحہ کے بھرے ہوئے جہازکے ساتھ اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کیلئے اپنی حاضری لگوا چکا ہے۔ اسرائیل نے خوداس جنگ کووسعت دینے کیلئے شام اورلبنان پرفضائی حملوں سے اپنے ناپاک ارداوں کااظہارکردیاہے اوریہی وجہ ہے کہ لبنان میں ایران کا حمایت یافتہ حزب اللہ گروپ حالیہ ہفتوں میں اسرائیل کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ جاری ہے۔تیسری عالمی جنگ کے خدشات یقین میں بدلتے نظرآرہے ہیں !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔