سابق وزیراعظم نوازشریف کی واپسی کسی ڈیل کانتیجہ نہیں
شیئر کریں
سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دئے گئے سابق وزیرِاعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف نے اپنی وطن واپسی کے حوالے سے افواہوں کی تردید کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ان کی واپسی اسٹیبلشمنٹ سے کسی ڈیل کا نتیجہ نہیںہے۔ اسلام آباد کی احتساب عدالت میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ریفرنسز کے سلسلے میں پیش ہونے سے قبل میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں ٹیکنوکریٹ حکومت کا کوئی امکان نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی ڈیل کا حصہ نہیں بن رہے نہ ہی این آر او کے تحت مقدمے کی سماعت سے فرار حاصل کر رہے ہیں ۔نواز شریف نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ 2007 کی طرح 2017 میں بھی این آر او چاہتے ہیں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ مسلم لیگ ایسی کسی ڈیل کا حصہ بننے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔نواز شریف نے کہا کہ انہیں کوئی ٹیکنو کریٹ کی حکومت بنتے ہوئے نظر نہیں آرہی، اس طرح کی افواہیں گذشتہ 70 برسوں سے سنتے آرہے ہیں۔سابق وزیراعظمنے یہ شکوہ بھی کیا کہ میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ مجھے کیوں پیشیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ میں نے کوئی کرپشن نہیں کی،پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھے صرف اقامہ کی بنیاد پر نااہل قرار دیا گیا، مجھے یہ تک نہیں معلوم کہ ریفرنس میں میرے خلاف کیا مخصوص الزامات لگائے گئے تھے۔احستاب عدالت میں اپنے مقدمے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ سیکڑوں مقدمے احتساب عدالت میں ہیں لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایک’سپر جج‘ ٹرائل کورٹ میں ہونے والی سماعتوں کی نگرانی کررہا ہے تو میرے مقدمے ہی ایسا کیوں ہورہا ہے؟انھوں نے کہا کہ اگر ہمیں اگے بڑھنا ہے تو ہمیں ایسی چیزیں خفیہ نہیں رکھنی چاہیے بلکہ ان کی کھلی سماعت ہونی چاہیے کیونکہ پاکستان نے پہلے ہی معاملات کو خفیہ رکھنے کی بڑی قیمت چکائی ہے تاہم وقت آنے والا ہے جب خفیہ رکھنے کو کچھ نہیں ہوگا اور سب کچھ عوام کو معلوم ہوگا۔شریف خاندان میں اختلاف کے بارے میں خبروں کی تردید کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’شریف خاندان میں اختلاف پیدا کرنے کی کسی کی خواہش تو ضرور ہوسکتی ہے لیکن یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی‘۔نواز شریف نے صحافیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ان کا احتساب نہیں ہورہاہے بلکہ ان کو اور ان کے اہل خانہ کو انتقام کانشانہ بنایاجارہاہے۔
جہاں تک نواز شریف کا یہ کہناہے کہ وہ کسی ڈیل کے تحت واپس نہیں آئے اس پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کیونکہ فی الوقت اسٹبلشمنٹ نہ تو نواز شریف کے ساتھ کسی طرح کی ڈیل کے موڈ میں نظر آتی ہے اور نہ وہ ایسا کرنے کا اختیار رکھتی ہے ، نواز شریف کی وطن واپسی کو عدالتوں کا احترام بھی قرار نہیں دیاجاسکتا بلکہ ان کی پاکستان سے واپسی کا بنیادی سبب اپنی بکھرتی ہوئی پارٹی کو متحد رکھنے کی کوشش کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے ،جہاں تک احتساب کا تعلق ہے تو احتساب ہورہا ہے یا بقول نواز شریف مریم صفدر کے انتقام لیا جار ہا ہے اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا جس کے بارے میں ابھی سے کوئی رائے نہیں دی جا سکتی لیکن ایک بات بڑی واضح ہو گئی ہے کہ پاکستان میں احتساب کے بارے میں پاکستان کی اشرافیہ متفق ہے کہ اشرافیہ کی حد تک احتساب نہیں ہونا چاہیے اس اشرافیہ میں وہ سارے لوگ شامل ہیں جن کے ہاتھ میں اس ملک کی تقدیر کے فیصلے کرنے کی طاقت ہے۔وہ اپنے اس اختیار کا بیدردی اور بے حیائی کے ساتھ اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ ان کے اختیارات کے آگے کوئی بند باندھنے والا نہیں اور نہ ہی کوئی اس بارے میں ان سے پوچھ گچھ کر سکتا ہے ، احتساب کمیشن کا معاملہ اس وقت سامنے آیا ہے جب سابق وزیر اعظم ان کے بچے اور سمدھی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نیب میں اپنے خلاف کرپشن کے الزامات میں پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ اب نیب نے اپنے اختیارات کے دائرہ کار کو وسیع کرتے ہوئے چوہدری صاحبان اور تحریک انصاف کے رہنماؤں کی بھی گرد آلود فائلیں کھولی ہیں ان کو جھاڑ پونچھ کر کے تفتیشی عمل کا آغاز کر دیا ہے تا کہ حساب برابر رہے اور کسی کو یہ الزام لگانے کاموقع نہ ملے کے احتساب کے لیے صرف ان ہی کاانتخاب کیوں کیاگیاہے؟۔
نیب کے نئے چیئر مین نے جب سے ادارے کی سربراہی سنبھالی کی ہے ان کا واسطہ بڑے ملزموں سے پڑ گیا ہے ، لیکن انھوں نے بھی استقامت سے اشرافیہ کے ان بڑے لوگوں پر اس طرح ہاتھ ڈالا ہے کہ ان کی چیخیں نکل گئی ہیں اور حکومتی ایوانوں کے ساتھ اپوزیشن کو بھی پریشانیاں لاحق ہو چکی ہیں اور اب جب سب کو یہ نظر آنا شروع ہو گیاہے کہ کیامعلوم کس وقت کون پکڑا جائے اس لیے اب اس نام نہاد اشرافیہ کو نیب کا قانون ہی کھٹکنے لگا ہے یہ کہا جا رہا ہے کہ اس میں کئی سقم ہیں جن کو پارلیمان کے ذریعے دور کر دیا جائے اور یوں نیب کو بالکل ہی ختم کر دیا جائے اس کی جگہ احتساب کمیشن بنا دیا جائے۔جس کے قوانین از سر نو بنائے جائیں۔اشرافیہ کی جانب سے احتسابی قصے کو اس وقت چھیڑا گیا ہے جب کہ انتخابات قریب ہیں۔ سیاستدان انتخابات کی تیاریوںکو بھلا کر احتساب سے بچت کے طریقے ڈھونڈنے میں لگ گئے ہیں۔ نواز شریف کی نااہلی کے بعد احتسابی عمل کے ذریعے مزید نااہلیاں متوقع ہیں ان متوقع نااہلیوںاور احتسابی شکنجے سے بچنے کے لیے نواز لیگ ایک دفعہ پھر پیپلز پارٹی کے ساتھ نظریہ ضرورت کے تحت مفاہمتکرنا چاہتی ہے تا کہ مشترکہ لائحہ عمل تیار کرکے اس مشکل سے نکلا جا سکے۔ لیکن ایک طرف اس دفعہ پاکستان پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف زرداری نواز شریف کا ساتھ دینے کو آمادہ نظر نہیں آرہے ہیں اور دوسری طرف نیب بھی کچھ زیادہ ہی متحرک نظر آرہی ہے، جس کی وجہ سے ہر روز ایک نیا کیس سامنے آ رہا ہے اور وہ سیاستدان جو اپنے اچھے وقتوں میں نیب کو گھاس نہیں ڈالتے تھے اب اسی نیب کے شکنجے سے بچنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ احتسابی قوانین کو ظالمانہ کہا جا رہا ہے نئے قوانین بنانے کے لیے صف بندی کی جارہی ہے تا کہ ان نئے قوانین کاسہارالے کر نااہل نواز شریف کو ایک دفعہ اس ملک کے سیاہ وسفید کامالک بنانے کی کوششیں کی جا سکیں۔اس طرح یہ کہاجاسکتاہے کہ اپنے مفادات پر ٹھوکر لگتے ہی ساری کرپٹ اشرافیہ اکٹھی ہو نے کی کوشش کر رہی ہے، اس پوری صورتحال سے اگر کوئی محظوظ ہو رہاہے تو وہ اس ملک کے عوام ہیں جو کہ حقیقت میں بلا تفریق احتساب چاہتے ہیں کیونکہ وہ تاریخی طور پر یہ دیکھتے آئے ہیں کہ اس ملک میں صرف کمزور ہی احتساب کے شکنجے میں جکڑا گیا ہے جب کہ امیروں کو اس عمل سے دور ہی رکھا گیا۔ یہی وہ صورت حال جس کی وجہ سے اب عوام خواہ ان کاتعلق کسی بھی سیاسی پارٹی سے ہو بطور قوم اس بات پہ متفق نظر آتے ہیں کہ احتساب کا عمل اشرافیہ سے شروع ہو اور ان ہی پر ختم ہو تاکہ ملک میں اشرافی طبقے کی جانب سے کی گئی لوٹ مار کاسلسلہ ختم ہوسکے ۔ اب عوامی مطالبہ ہی یہ ہے کہ معاشرے کے بااثر افراد کا بھی احتساب ہو کیونکہ جمہوریت میں اگر احتساب نہ ہو تو ایسی جمہوریت ناکام جمہوریت کہلاتی ہے۔ آسان اور سادہ ترین الفاظ میں عوام کا یہ مطالبہ ہے کہ احتساب کے عمل کا کوئی بھی نیا نام رکھ دیں ان کو غرض بے لاگ اور بے رحم احتساب سے ہے لیکن اگر عوام اور اشرافیہ کے لیے الگ الگ قانون ہوں گے تو ایسے احتسابی کھیلوں سے عوام کو کوئی دلچسپی نہیں ہوگی اور اس عمل کو عوام کے کسی بھی طبقے کی پذیرائی حاصل نہیں ہوسکے گی، یہی وجہ ہے کہ عوام کی نظریں سپریم کورٹ اور احتساب عدالتوں پر جمی ہوئی ہیں اور نواز شریف ،مریم صفدر اور ان کے حالی موالیوں کی جانب سے احتساب کے خلاف مچائے جانے والے شوروغوغا کو عوام کوئی اہمیت دینے کوتیار نہیں ہوتا اور عوام کے کسی بھی حلقے کی جانب سے احتساب کے اس عمل کے خلاف کسی طرح کے منفی ردعمل کااظہار نہین کیاگیا ہے، احتساب کے عمل پر نوازشریف ،مریم صفدر اور مسلم لیگی رہنمائوں اور وزرا کی فوج کی جانب سے مچائے جانے والے شور اور اس عمل کو متنازعہ بنانے کی تمامتر کوششوں کے باوجود عوامی سطح پر اسے کوئی پذیرائی نہ مل سکنے کی موجودہ صورت حال سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ عوام کو اب تک احتساب کے اس عمل پر اعتماد ہے اور وہ عوام کی دولت لوٹ کر محلات کھڑے کرنے والے ہر شخص کا بلاامتیاز احتساب چاہتے ہیں۔امید کی جاتی ہے کہ احتساب عدالت اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان عوام کی ان امنگوں کو خون نہیں ہونے دیں گے۔