سفر یاد۔۔۔ چھٹی قسط
شیئر کریں
شاہد اے خان
کراچی کا صدر، لاہور کی انارکلی یا مزنگ اور پنڈی کا راجا بازار، تینوں کو ایک جگہ ملا لیں اور اس میں ڈھیر سارے بنگالی، فلپائنی اور کیرالہ والے جمع کریں تو جو کچھ آپ کے سامنے آئے گا وہ ریاض کا بطحہ بازار ہوگا۔ بس ہمارے بازاروں میں خواتین خریداروں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جبکہ بطحہ میں خال خال ہی خواتین نظر آتی ہیں اوروہ بھی کسی مرد کے ساتھ اور مکمل سیاہ برقعے میں ملبوس۔ گرم مصالحوں سے لیکر چائنا میڈ الیکٹرانک اشیا ءتک بطحہ کے بازا رمیں ہر چیز ملتی ہے۔ وہ چیزیں جو آپ کو اور کہیں دستیاب نہ ہوں وہ بھی یہاں مل جاتی ہیں، علاقے کے پرانے باسی بتاتے ہیں کہ یہاں پان بھی بکتا ہے اور نسوار بھی مل جاتی ہے بس آپ کو کسی جاننے والے کے ساتھ جانا پڑے گا کیونکہ اس قسم کی اشیاءکی فروخت چوری چھپے ہوتی ہے۔ یہ انتہائی مصروف اور گہما گہمی سے بھرپور علاقہ ہے جہاں پرانے بازار کے ساتھ ساتھ جدید اور بڑی عمارتوں اور شاپنگ سینٹروں کا جنگل اگا ہوا ہے۔ لگے ہاتھوں بطحہ کے معنی بھی بتاتے چلیں،عربی میں بطحہ کے معنی خاک کے ہیں، قرائن سے پتہ چلتا ہے کسی زمانے میں یہاں خاک اڑتی ہوگی اسی لیے اس علاقے کا نام بطحہ پڑگیا۔ پچاس کی دہائی تک اس مضافاتی علاقے میں چند دکانیں ہوا کرتی تھیں پھر مملکت اور دارالحکومت ریاض کی تیز رفتار ترقی کے ساتھ بطحہ کا بازار بھی وسیع و عریض ہوتا گیا۔ بطحہ میں اصلی میلہ جمعے کو لگتا ہے۔ جمعے کی نماز کے بعد شہر بھر اور مضافات سے مختلف کمپنیوں کی بسیں اپنے کارکنان کو بھر کے بطحہ چھوڑ دیتی ہیں۔ ان بسوں کی تعداد سیکڑوں میں ہوتی ہے، اس طرح لوگ کتنے ہوتے ہوں گے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ پھر مختلف علاقوں کے رہنے والے بھی جمعے کو بطحہ میں اپنے مخصوص مقامات پر جمع ہوتے ہیں جہاں گپ شپ ہوتی ہے اور چائے بھی پی لی جاتی ہے۔ بہت سارے لوگوں کو صرف جمعے کا دن ملتا ہے جس میں وہ اپنے کیمپ سے نکل پاتے ہیں ایسے میں بطحہ کا چکر ان کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا۔ سردی ہو یا گرمی جمعے کو بطحہ میں اس قدر لوگ ہوتے ہیں کہ حقیقت میں کھوے سے کھوا چھِلتا ہے۔ ایک اور خاص بات یہ کہ بطحہ بازار میں مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی تیز آواز ہر جگہ سنائی دیتی ہے، یہ آواز ہزاروں لوگوں کے بولنے سے پیدا ہوتی ہے۔ ہم نے پاکستان کے کسی بازار کسی علاقے میں اس قسم کی آواز کا مشاہدہ نہیں کیا۔ یہ آواز صرف بطحہ کے علاوہ اگر کہیں سنائی دی تو وہ شارجہ کا علاقہ رولا تھا۔ رولا میں بھی جمعے کو ہزاروں لوگ جمع ہوتے ہیں اور ان کے بولنے سے مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی تیز آواز پیدا ہوتی ہے۔ شروع شروع میں اس تیز آواز کے رہتے نئے بندے کے لیے بات کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن آہستہ آہستہ لوگ اس بھنبھناہٹ کی آواز کے عاد ی ہو جاتے ہیں۔
بطحہ کے بازار میں چوری چھپے اور بھی بہت کچھ بکتا تھا اور اس بلیک مارکیٹنگ میں بنگالی باشندے چھائے ہوئے تھے، ایک وقت تھا کہ پولیس کو بھی اس علاقے میں داخل ہونے میں دشواری پیش آتی تھی۔ عرصہ دراز سے ریاض میں رہنے والوں کے مطابق ایک وقت تھا کہ بطحہ میں بنگالی جرائم پیشہ افراد خوف و دہشت کی علامت سمجھے جاتے تھے، شریف تو دور کی بات عام بدمعاش بھی وہاں نہ جاتا تھا حتیٰ کہ ”شُرطے “یعنی پولیس والے بھی وہاں جانے سے کتراتے تھے، چنانچہ پولیس کی جانب سے ایک بڑا آپریشن کیا گیا ، علاقے کو سیل کرکے بکتر بند گاڑیاں اندر گئیں اور پھر جو آپریشن ہوا۔الاماں الحفیظ۔ پھر تو یوں ہوا کہ جس پر شبہ ہوتاکہ بنگالی ہے اسکو گاڑی میں ڈالا جاتا ، اقامہ دیکھا جاتا ، کئی کئی ہزار بنگالیوں کو ڈیپورٹ کیا گیا ، ویزابند کردیا گیا، آخر کار بنگلا دیشی وزیراعظم کو درخواست کرنا پڑی جس پر صرف اتنی چھوٹ ملی کہ بنگالیو ں کی ڈی پورٹیشن روک دی گئی لیکن ویزے پھر بھی بند ہی رہے۔ یہ واقعہ بہت مشہور ہے، جو ریاض میں رہتا ہے یا رہا ہے اس نے ضرور سنا ہوگا، بہرکیف ہم نے ایسا ہی سنا ہے۔ لیں جی بطحہ کا تعارف تو کافی طویل ہو گیا، ہمارے گروپ نے کئی گھنٹے بطحہ کے بازار میں گزارے ، گرمی کے باوجود نئی اور دلچسپ جگہ ہونے کی وجہ سے ہم لوگ بور نہیں ہوئے، بطحہ کے ایک پاکستانی ہوٹل میں رات کا کھانا کھایا اور اپنے ہوٹل اپارٹمنٹ میں واپس آگئے، یہاں دو نئے مہمان بھی موجود تھے، دونوں کا تعلق مصر سے تھا اور وہ بھی ہماری ہی کمپنی کے ملازم تھے۔۔۔ جاری ہے