میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
انڈیا سے اکھنڈ بھارت۔۔۔ مودی کی نئی شرارت

انڈیا سے اکھنڈ بھارت۔۔۔ مودی کی نئی شرارت

جرات ڈیسک
جمعرات, ۷ ستمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

اے ایچ جعفری
٭مودی سرکار نے جی ٹوئنٹی کانفرنس کے موقع پر بھارت کا آفیشیل نام انڈیا کے بجائے پریسیڈنٹ آف بھارت لکھ کر یہ جتانے کی کوشش کی کہ اب انڈیا، انڈیا نہیں بلکہ بھارت ہے
٭اکھنڈ بھارت کے قیام کیلئے مودی سرکار خاموشی سے نئے ہندو آئین پر کام کررہی ہے، اکھنڈ بھارت ایک ایسا دیش جہاں مسلمانوں، عیسائیوں، جین مت، سکھوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا
٭ ریپبلک آف انڈیا کو ریپبلک آف بھارت میں بدلنے کا خاموش منصوبہ، آئین میں ترمیم کے لیے پارلیمنٹ کے 18 /ستمبر سے 22 /ستمبر تک ہونے والے سیشن میں قرارداد پیش کی جاسکتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مساجد پر قبضے اور درگاہوں کی مسماری، مسلمانوں کو گھر واپسی کے نام پر ہندو بنانے کی مہم، گائے ذبیحہ پر پابندی اور love-jihad پروپیگنڈے کے بعد اب مودی سرکار کا نیا پینترا کھل کر سامنے آگیا ہے۔ مودی جی نے اکھنڈ بھارت ایجنڈے پر خاموشی کے ساتھ عملدرآمد شروع کردیا ہے۔ جی ٹوئنٹی کانفرنس کے موقع پر مودی سرکار نے بھارت کا آفیشیل نام بدل ڈالا ہے اور انڈیا کے بجائے پریسیڈنٹ آف بھارت لکھا کر دنیا کو بتانے اور مسلمانوں کو جتانے کی کوشش کی کہ اب انڈیا، انڈیا نہیں بلکہ بھارت ہے اور اکھنڈ بھارت کے ایجنڈے پر کام کیا جارہا ہے۔اکھنڈ بھارت کے قیام کیلئے مودی سرکار خاموشی کے ساتھ نئے ہندو آئین پر کام کررہی ہے۔ اکھنڈ بھارت کے راستے پر گامزن ایک ایسا دیش جہاں مسلمانوں، عیسائیوں یا جین مت سمیت سکھوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا اور جو بھی یہاں رہے گا وہ ہندو بن کر رہے گا یا برہمن ہندوؤں کا غلام۔

ٹائمز ناؤ کا ایک رپورٹ میں ماننا ہے کہ بھارتی صدر کی طرف سے کسی آفیشیل دعوت نامے پر پہلی مرتبہ پریسیڈنٹ آف بھارت کے استعمال سے ان خدشات کی حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ مودی حکومت ہندوتوا کے ایجنڈے کی تکمیل میں مشغول ہے اور اگلے برس 2024 کے ماہ اپریل یا مئی میں منعقد ہونیوالے عام چناؤ میں بھارتیہ جنتا پارٹی اکھنڈ بھارت کا پتہ کھیلنا چاہتی ہے جس کیلئے مسلم اور عیسائی سماج کو سخت مخالفت اور پر تشدد کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بھارت میں ہونے والے جی ٹوینٹی کانفرنس اجلاس میں اہم ملکوں کی عدم شرکت کا شور ابھی تھما نہیں تھا کہ دوسری جانب بھارتی صدر دروپدی مرمو نے ملک کے نام کے حوالے سے ایک نیا شوشا چھوڑ دیا ہے جس کی وجہ سے انہیں اپوزیشن کی طرف سے سخت تنقید سہنی پڑ رہی ہے۔ نو ستمبر کو بھارت میں ہونے والے G20 سربراہی اجلاس کی تاریخ قریب آنے کے ساتھ صدارتی دفتر نے شرکا کو ایک سرکاری عشائیہ میں شرکت کے لیے سرکاری دعوت نامے ارسال کیے ہیں ان میں انڈیا کے بجائے لفظ بھارت استعمال کیا گیا ہے جو مودی سرکار اور حکومتی پارٹی بی جے پی کا اکھنڈ بھارت کامنصوبہ محسوس ہورہا ہے۔ ان صدارتی دعوت ناموں سے پتہ چلتا ہے کہ اسے معمول کے صدر ہند کے بجائے بھارتی صدر کے طور پر پڑھا لکھا جائے۔ سوشل میڈیائی پلیٹ فارم پر کانگریس کے سکریٹری جنرل جے رام رمیش نے وزیر اعظم نریندر مودی پر تاریخ کو مسخ اور ہندوستان کو تقسیم کرنے کا سنگین الزام عائد کیا۔

عام آدمی پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاست دان راگھو چڈھا نے بھی اس پر شدید رد عمل دیا اور سوال اٹھایا کہ آخر بھارتیہ جنتا پارٹی کیسے ہمارے دیش کو تقسیم کر سکتی ہے؟ مسٹر چڈھا نے کہا کہ ملک کسی ایک سیاسی جماعت کا نہیں ہے، قومی شناخت بی جے پی کی ذاتی ملکیت نہیں ہے جسے اس کی خواہش کے مطابق تبدیل کردیا جائے۔ یاد رہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے بر سر اقتدار آنے کے بعد کئی شہروں، ایوان صدر، باغات، سمیت عمارتوں اور شاہراہوں کے نام بدل ڈالے ہیں اور ان میں انڈیا کے بجائے بھارت لکھوانا ان کی متعصبانہ حکمت عملی ہے۔ یاد رہے کہ کئی برس قبل بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی ہم نوا پارٹیوں اور ہندو گروہوں کی جانب سے دیش کا نام بدل کر بھارت کرنے کی کوشش کی جاچکی ہے لیکن سپریم کورٹ اس کوشش کو ناکام بنا چکی ہے۔ کئی سینئر بھارتی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے کئی شہروں کا نام تبدیل کرنے کے بعد اب ملک کا نام ہی تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے قرارداد پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی۔آئین میں بھارت کا نام ریپبلک آف انڈیا ہے جسے ریپبلک آف بھارت رکھا جائے گا لیکن اس کے لیے آئین میں ترمیم کرنا ہوگی۔جس کے لیے ممکنہ طور پر پارلیمنٹ کے 18 /ستمبر سے 22 /ستمبر تک ہونے والے سیشن میں قرارداد پیش کیا جانا طے کرلیا گیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ بھارتی وزیر اعظم مودی اور ان کی ہندو سخت گیر جماعت بی جے پی مسلمانوں کے خلاف فساد، قتل عام اور تشدد کے کئی راؤنڈز کھیل چکی ہے اور اب بھارتیہ جنتا پارٹی ملکی آئین کو بدلنے اور ہندوستان یا انڈیا کو اکھنڈ بھارت بنانے کیلئے درون خانہ کام کررہی ہے۔یاد رہے کہ پارلیمنٹ کے گزشتہ سیشن کے اختتام پر بی جے پی راجیہ سبھا کے ممبر نریش بنسل نے بھی آئین سے انڈیا کو لفظ بھارت سے تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ بنسل ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ جنرل الیکشن سے قبل انڈیا کو بھارت بنا دیا جائے گا اور بھارت کا بطور ہندو اسٹیٹ ایک ہندو آئین بنایا جائے گا۔

دہلی میں مقیم بھارتی صحافیوں نے جرأت کو بتایا ہے کہ مودی حکومت کی جانب سے اکھنڈ بھارت کی شرارت کو حقیقت بنانے کیلئے فنکاروں، دانشوروں، قلم کاروں، صحافیوں سمیت استادوں اور ہندو طبقہ کا بالخصوص ذہن بدلا جارہا ہے۔میڈیائی گفتگو میں کانگریس پارٹی رہنما ششی تھرور نے کہا ہے کہ اگرچہ ہندوستان کو بھارت کہنے میں کوئی آئینی اعتراض نہیں ہے کیوں کہ یہ ملک کے دو سرکاری ناموں میں سے ایک ہے، لیکن مجھے امید ہے کہ حکومت اتنی احمق نہیں ہو گی کہ انڈیا نام کو مکمل تیاگ دیا جائے کیوں کہ اس نام کی برانڈ ویلیو صدیوں سے قائم ہے۔ 2016 میں انڈین سپریم کورٹ پہلے ہی اسی قسم کی ایک پٹیشن کو رد کر چکی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ انڈیا کا نام بھارت سے بدل دیا جائے۔اس وقت کے چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر نے اس موقع پر پیٹیشنر کو مخاطب کر کے کہا تھا، ’بھارت یا انڈیا؟ آپ اسے بھارت کہنا چاہتے ہیں، تو بے شک کہیں۔ کوئی اسے انڈیا کہتا ہے تو اسے انڈیا کہنے دیں۔اخبار ’انڈیا ٹوڈے‘ کے مطابق اگر انڈین حکومت ملک کے نام کو بدلنا چاہتی ہے تو اس مقصد کے لیے اسے آئین کی اوپر بیان کردہ شق نمبر 1 کو تبدیل کرنا ہو گا۔ آئین کی شق 268 کے تحت اس مقصد کے لیے اسے دوتہائی اکثریت درکار ہو گی اور اس کام کیلئے بھارتیہ جنتا پارٹی مسلسل ریشہ دوانیوں میں مشغول ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں