میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
خواجہ اظہار پر حملہ کی تفتیش، زیر حراست ملزم انصار الشریعہ کا سربراہ نکلا

خواجہ اظہار پر حملہ کی تفتیش، زیر حراست ملزم انصار الشریعہ کا سربراہ نکلا

ویب ڈیسک
جمعرات, ۷ ستمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

کراچی (اسٹاف رپورٹر) ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما خواجہ اظہار الحسن پر حملہ کرنے والی تنظیم انصارالشریعہ کے سربراہ اور ملزمان کے والدین نے دوران تفتیش اہم انکشافات کیے ہیں، انصارالشریعہ کے سربراہ ڈاکٹرعبداللہ ہاشمی نے دوران تفتیش انکشاف کیا ہے انصارالشریعہ نے 2015 کے آخر میں تنظیم کا آغاز کیا، تنظیم کے القاعدہ سے الحاق اور تعاون کے لیے عبداللہ بلوچ سے رابطہ کیا گیا۔ جس پر عبداللہ بلوچ نے اپنی مددآ پ کے تحت کام کرنے کو کہا، عبداللہ بلوچ 2012 تک کراچی میں تھا، تاہم 2012 میں چھاپے کے دوران عبداللہ کے ٹھکانے سے اسلحہ اور بارود ملا تھا جس کے بعد عبداللہ بلوچ افغانستان فرارہوگیا تھا۔ڈاکٹرعبداللہ ہاشمی نے مزید انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ اس کا گروپ اعلیٰ تعلیم یافتہ 10سے 12 لڑکوں پر مشتمل ہے، تمام لڑکے کراچی یونیورسٹی، این ای ڈی اور داؤد یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہیں، یہ لڑکے افغانستان کے علاقے شراوک سے تربیت لے کر آئے ہیں،کراچی میں اپنے آپ کومنوانے کے لیے پولیس کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ خواجہ اظہار پر حملے کے مفرور مرکزی ملزم عبدالکریم عرف سروش کے والد سجاد صدیقی نے تحقیقاتی اداروں کو بتایا کہ سروش کی کئی مہینوں سے حرکات و سکنات مشکوک تھیں اور وہ زیادہ تر گم سم رہتا تھا، رات رات بھر جاگتا اور پوچھنے پر تسلی بخش جواب نہیں دیتا تھا۔ میرا بیٹا ایک سال کے دوران 2 مرتبہ ایک سے 2 ہفتوں کے لیے غائب ہوا، تاہم بعد میں پتا چلا کہ سروش افغانستان گیا تھا، مجھے اس بات کا علم ہو گیا تھا کہ یہ کسی کالعدم تنظیم کے ساتھ کام کررہا ہے۔ مجھے اس بات کا علم تھا کہ یہ پولیس مخالف ہے، 2 سال پہلے ہماری گاڑی گلشن اقبال سے چوری ہوئی تھی اس کے بعد سروش پولیس سے اکثر الجھتا تھا۔ ایک سال قبل پتا چلا کہ سروش نے اسلحہ رکھا ہوا ہے، جب پولیس نے صبح چھاپہ مارا تو میں نے اسے ہتھیار چلانے سے منع کیا اور سرینڈر کرنے کا کہا، لیکن وہ نہیں مانا۔خواجہ اظہار پر حملے میں مارے جانے والے دہشتگرد حسان کے اہلخانہ نے بھی اپنا بیان قلم بند کرادیا، ذرائع کے مطابق ہلاک ملزم حسان کے اہل خانہ نے انکشاف کیا کہ ہلاک ملزم حسان عرف ولید کی عمر27 سال تھی، گلزارہجری کا رہائشی اور الیکٹرونک انجینئر تھا اہلخانہ کے مطابق حسان کے رویے میں پچھلے ایک سال تبدیلی آنا شروع ہوئی تھی، حسان کے کنیز فاطمہ سوسائٹی میں 2 یا 3 دوست رہتے تھے اور وہ انہی کے ساتھ رہتا تھا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ حسان کا چچا پولیس افسرہے جس سے پوچھ گچھ جاری ہے، تحقیقات کے دوران پمفلٹ کی تیاری میں استعمال لیپ ٹاپ بھی برآمد کرلیا گیا ہے، جبکہ تحقیقات کے دوران اس بات کا انکشاف بھی سامنے آیا کہ حب میں لیویز اہلکار کے قتل اور کوئٹہ میں ایف سی کی گاڑی پر حملے کی بھی جھوٹی ذمہ داری قبول کی گئی۔ خواجہ اظہار الحسن پر قاتلانہ حملے کی تفتیش میں نیا موڑآگیا،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے حراست میں لیے گئے ملزم کے متعلق انکشاف ہوا ہے کہ وہ انصارالشریعہ پاکستان کا چیف ہے۔ ملزم این ای ڈی یونیورسٹی کا ملازم ہے اور کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فزکس سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کرچکا ہے، انصارالشریعہ پاکستان کے چیف شہریار عبداللہ ہاشمی سمیت 6ملزمان کو سیکورٹی فورسز نے پیر کے روز کنیز فاطمہ سوسائٹی میں کارروائی کے دوران حراست میں لیا تھا۔ شہریار عبداللہ این ای ڈی یونیورسٹی کے آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کا ملازم تھا اور وہ کمپیوٹر کا ماہر، ہے مزید ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں، جبکہ سیکورٹی ذرائع کے مطابق خواجہ اظہار الحسن پر حملے اور متعدد دہشت گردی کی وارداتوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ملزمان ملوث ہیں، 2ستمبر کو خواجہ اظہار پر حملے کے دوران پولیس کی جوابی فائرنگ سے مارا جانے والا دہشتگرد حسان اسرار بھی انجینئرنگ یونیورسٹی کا لیکچرار اور پی ایچ ڈی ہولڈر تھا۔اس کے علاوہ خواجہ اظہار پر حملے کا مبینہ ماسٹر مائنڈ عبدالکریم سروش صدیقی بھی کراچی یونیورسٹی میں شعبہ اپلائڈ فزکس کا طالبعلم ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں