میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
برکس کے سالانہ اجلاس میں پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی کی گونج!

برکس کے سالانہ اجلاس میں پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی کی گونج!

ویب ڈیسک
جمعرات, ۷ ستمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

برکس ممالک کے سربراہ اجلاس، جس میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، روسی صدر ولادی میر پیوٹن، برازیلین صدر مائیکل ٹیمر، اور جنوبی ایشیاکے صدر جیکب زوما شریک تھے ،کے مشترکہ اعلامیہ میں دہشت گردی کے خلاف بلاامتیاز سخت ترین کارروائی کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے پاکستان میں بعض دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہاگیاہے کہ ہمیں خطے کی سکیورٹی کی صورتحال اور طالبان، داعش، القاعدہ اور اس سے منسلک گروپوں مشرقی ترکمانستان اسلامک موومنٹ، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان، حقانی نیٹ ورک، لشکر طیبہ، جیش محمد، کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور حزب التحریر کی کارروائیوں پر تشویش ہے’۔برکس گروپ کے سالانہ اجلاس میں افغانستان سے انتشار کے خاتمے کی فوری ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔وفاقی وزیر دفاع خرم دستگیر نے برکس سربراہ اجلاس کے اعلامیے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی کوئی محفوظ پناہ گاہ موجود نہیں۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ پہلے ہی کہہ چکے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی کوئی محفوظ پناہ گاہ موجود نہیں جبکہ 40 فیصد افغانستان دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ ہے۔ اس سے قبل قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے اجلاس میں وزیر دفاع خرم دستگیر نے کہا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کے بعد پاکستان میں غیر ضروری خطرے کی گھنٹیاں بجائی جا رہی ہیں، پاکستان کی تینوں افواج انتہائی مستعدی سے ملکی دفاع پر مامور ہیں اور ’پاکستان محفوظ ہاتھوں میں ہے‘۔ انھوں نے کہاتھا کہ عوام غیر ضروری طور پر خوفزدہ نہ ہوں، عالمی برادری نے آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کے تحت کی گئی کارروائیوں کو تسلیم نہیں کیا، پاکستان نے بڑے بڑے کامیاب انسداد دہشت گردی آپریشنز کیے جو امریکا، عراق اور افغانستان میں نہیںکیے جاسکے۔انھوں نے واضح کیا کہ ہم ہر صورت میں اپنے وطن کا دفاع کریں گے جبکہ سیاسی قیادت موجودہ صورتحال میں جذباتی بیانات نہ دے، پاکستان کے اپنے اور امریکا کے اپنے مفادات ہیں تاہم دہشت گرد تنظیم داعش کے معاملے پر پاکستان اور امریکا ایک پیج پر ہیں۔وزیر دفاع نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی کوئی محفوظ پناہ گاہیں نہیں جبکہ افغانستان میں 407 میں سے صرف 60 اضلاع پر افغان فورسز کا کنٹرول ہے، اس سے اندازا کرنا چاہیے کہ محفوظ پناہ گاہیں پاکستان میں نہیں افغانستان میں موجود ہیں۔
مشترکہ اعلامیہ میں شمالی کوریا کے ایٹمی تجربات کی بھی مذمت کی گئی۔ چین کے وزیر اعظم ژی جن ینگ کی زیر صدارت بیجنگ میں ہونے والے اس اجلاس کا انعقاد بیجنگ کی جانب سے عالمی لیڈر شپ کی تشکیل کے دعوے پر عملدرآمد کے لیے کیا گیا تھا، تاہم یہ اجلاس ایسے وقت میں شروع ہوا ہے جب شمالی کوریا کی جانب سے کیے جانے والے چھٹے جوہری تجربے نے سب کی توجہ حاصل کر رکھی ہے۔ایک روز قبل کیا جانے والا شمالی کوریا کا جوہری تجربہ اس کی پشت پناہی کرنے والے ملک چین کے لیے شرمندگی کا سبب بنا تھا جس کی چینی وزارت خارجہ نے مذمت بھی کی۔ رواں سال مئی کے دوران بھی شمالی کوریا نے میزائل تجربہ کیا تھا، اس وقت بھی یہ تجربہ اس دوران کیا گیا تھا جب چینی صدرعالمی تجارت اور انفرااسٹرکچر کی تعمیر کے فروغ کے لیے ایک بڑے بین الاقوامی اجلاس کی میزبانی کررہے تھے۔تجزیہ کاروں کے مطابق شمالی کوریا کی جانب سے اس طرح کی کارروائیوں کا مقصد چین پر دباؤ بڑھانا بھی ہوسکتا ہے تاکہ واشنگٹن شمالی کوریا کے ساتھ خود بات چیت پر مجبور ہوجائے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو پہلے بھی شمالی کوریا کے خلاف سخت ردعمل کا عندیہ دے چکے تھے، انہوں نے حالیہ تجربے کی مذمت کرتے ہوئے اسے انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے جوابی کارروائی کے امکان کا آپشن کھلا رکھنے کااعلان کیا تھا۔ دوسری جانب روس اور چین سفارتکاری کے ذریعے اس کی حل کی تلاش پر زور دیتے ہیں۔کریملن کے مطابق روسی صدر پیوٹن نے جاپان کے وزیراعظم شنزو ایبے سے فون پر رابطہ کرتے ہوئے شمالی کوریا کے تجربے کی مذمت کی۔تاہم ولادی میر پیوٹن نے اس بات کو دُہرایا کہ مسئلہ ’سیاسی اور سفارتی‘ طریقے سے حل کیا جانا چاہیے۔چینی صدر شی جن پنگ نے برکس اجلاس کا آغاز کرتے ہوئے اپنے خطاب میں اس حوالے سے کسی قسم کا تذکرہ کرنے سے گریز کیا۔تاہم برکس ممالک کے اجلاس کے بعد جاری کیے گئے مشترکہ اعلامیے میں ان تجربات کی مذمت کی گئی ہے ۔
دنیا کی پانچ اہم ابھرتی ہوئی معیشتوں کی تنظیم برکس بھارت، چین، برازیل، روس، جنوبی افریقا نے پہلی مرتبہ اپنے اعلامیے میں پاکستان میں پائی جانے والی شدت پسند تنظیموں لشکرِ طیبہ اور جیشِ محمد کا ذکر کیا ہے۔بیجنگ میں ہونے والی کانفرنس کے اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث، ان کا انتظام کرنے یا حمایت کرنے والوں کو کیفرکردار تک پہنچایا جانا چاہیے۔اس اعلان کوبھارت کی سفارتی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ پانچوں ممالک کے سربراہان نے مشترکہ اعلامیہ میں ایسے تنظیموں کی سخت مذمت کی ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو جاری رکھنے کا اعادہ کیا گیا۔43 صفحات پر مشتمل اعلامیہ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ افغانستان میں فوری طور پر جنگ بندی ہونی چاہیے۔برکس ممالک نے خطے میں بدامنی اور طالبان، دولتِ اسلامیہ، القاعدہ اور اس کے ساتھی گروہوں بشمول مشرقی ترکمانستان اسلامک موومنٹ، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان، حقانی نیٹ ورک، لشکرِ طیبہ، جیشِ محمد، ٹی ٹی پی اور حزب التحریر کی وجہ سے ہونے والے فساد کی مذمت کی گئی۔یہ تنظیم کا نواں اعلیٰ سطحی اجلاس تھا۔ تنظیم نے ہر قسم کی دہشت گردی کی مخالفت کا بھی اعادہ کیا۔ تنظیم نے اس بات کو دہرایا ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ کرنا اولین طور پر ریاست کی ذمہ داری ہے اور بین الاقوامی معاونت کو خود مختاری اور عدم مداخلت کی بنیادوں پر فروغ دینا چاہیے۔ اس اجلاس سے پہلے چینی وزیرِ خارجہ نے کہا تھا کہ ’ہمیں پتہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے انسدادِ دہشت گردی کے حوالے سے خدشات ہیں لیکن ہمارے خیال میں برکس اس پر بحث کرنے کا درست فورم نہیں ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ برکس اجلاسوں میں چین نے پاکستان میں پائے جانے گروہوں کو اعلامیے میں شامل نہیں ہونے دیا تھا۔ حالانکہ گذشتہ اجلاس اوڑی حملے کے ایک ہفتے بعد ہی ہورہا تھا۔
چین کے وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے حوالے سے پاکستان پر انگشت نمائی اور بھارتی وزیر اعظم کے موقف کی تائید پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کا بین ثبوت ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی وزارت خارجہ اور مختلف ممالک میں موجود سفیر دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے لیے پاک فوج کی کامیاب کارروائیوں اور اس حوالے سے فوجی جوانوں اور افسران کی قربانیوں کو اقوام عالم کے سامنے درست انداز میں پیش کرنے میں مکمل طورپر ناکام رہے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں بھارت اپنے جھوٹ اور مکر پر مبنی پروپیگنڈے کو اس طرح پیش کررہاہے کہ پوری دنیا یہاں تک کہ پاکستان کے قریبی دوست ممالک بھی اس کو درست تصورکرنے لگے ہیں ، یہ صورت حال ہماری وزار ت خارجہ اور خاص طورپر وزیر خارجہ کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے ،انھیں اپنی خارجہ پالیسی کی خامیوں کا پتہ چلا کر انھیں دور کرنے پر توجہ دینا ہوگی ورنہ بھارت پاکستان کو اقوام عالم میں تنہا کرنے کی اپنی کوششوں میں کامیاب ہوسکتاہے۔امید کی جاتی ہے کہ وزارت خارجہ اس نازک بلکہ سنگین صورت حال پر سنجیدگی سے غور کرے گی اور اس حوالے سے فوری طورپر قابل عمل حکمت عملی تیار کرنے کی کوشش کی جائے گی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں