میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مہنگائی  نے ارکان اسمبلی کی بھی چیخیں نکال دیں 

مہنگائی نے ارکان اسمبلی کی بھی چیخیں نکال دیں 

جرات ڈیسک
پیر, ۷ اگست ۲۰۲۳

شیئر کریں

ادارہ شماریات کے مطابق سالانہ بنیادوں پر مہنگائی کی مجموعی شرح 29.83 فیصد ریکارڈ ہوئی۔ گزشتہ ہفتے 23 اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھیں۔ ٹماٹر کی قیمت میں 20 روپے فی کلو کا اضافہ ہوا۔ لیکویفائیڈ پیٹرولیم گیس (ایل پی جی) کے11.67 کلو گھریلو سلنڈر کی قیمت میں 255 روپے اضافہ ہوا۔ 200 گرام پسی ہوئی مرچ 25 روپے، لہسن فی کلو 20 روپے مہنگا ہوا۔  پیاز 3 روپے فی کلو، انڈے فی درجن 10 روپے مہنگے ہوئے۔ جبکہ باسمتی ٹوٹا چاول 5 روپے فی کلو مہنگا ہوا، گڑ کی فی کلو قیمت میں 3 روپے اضافہ ہوا۔ اسی طرح ایک ہفتہ میں دال ماش، مسور اور آلو کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا۔ مہنگائی میں روزبروز اضافے کی سنگین صورت حال کا اس طرح اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ اب مہنگائی کی دہائی قومی اسمبلی میں سرکاری یعنی حکومتی بنچوں سے بھی دی جانے لگی ہے،قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومتی اراکین کا مہنگائی پر احتجاج اگرچہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں کہ ہمیشہ اس قسم کے کام اپوزیشن ارکان کرتے ہیں لیکن اب یہ احتجاج حکومتی بنچوں کی جانب سے کیاجارہاہے جس سے معاملے کی سنگینی اور ارکان اسمبلی کے دل میں عوام کا سامنا کرنے کا خوف ظاہرہوتاہے، حقیقت یہ ہے کہ جب سے موجودہ اتحادی حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے وقفے وقفے سے عوام پر مہنگائی کے بم گرارہی ہے،ایک طرف حکومت آئی ایم ایف کے دباؤ پر گیس‘پیٹرول اور بجلی کے نرخوں میں وقتاً فوقتاً اضافہ کرتے ہوئے عوام پر مسلسل مہنگائی مسلط کر رہی ہے اور دوسری طرف بجلی اور گیس کی قیمتوں کی آڑ میں منافع خور تاجراشیائے صرف کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کردیتے ہیں یہی وجہ ہے جس نے عوام تو ایک طرف خود حکومتی ارکان اسمبلی کو بھی احتجاج کرنے پر مجبور کردیا اور سوال اٹھا دیا ہے کہ 50 روپے فی یونٹ بجلی’20 روپے پیٹرول مہنگا کرنے کا جواز کیا ہے۔ عوام خودکشی نہیں کریں گے تو اورکیا کریں گے؟ مہنگائی میں روزبروز اضافے کی وجہ سے صورت حال اس قدر نازک ہوچکیہے کہ عام اراکین اسمبلی کے برعکس خود کابینہ کے اندر سے مہنگائی پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ وزیر مملکت شہادت اعوان نے بھی احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ خودکشی کرنے والا نہ ایمان میں رہتا ہے نہ عوام میں رہتا ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنما ابوبکر نے کہا ہے کہ لوگ مجبوراً خودکشی کرتے ہیں۔ لیگ (ن) کے رکن شیخ فیاض الدین نے کہا ”حکومت کہتی ہے کہ لوگ غربت کی وجہ سے غیر قانونی ہجرت کرتے ہیں اب عوام خودکشی نہیں کریں گے تو اور کیا کریں گے۔ حکومت خودکشی کا قانونی طریقہ بتائے؟ ایم کیو ایم کے رہنما نے کہا کہ غربت میں لوگ خودکشی کرتے ہیں غربت کی وجہ سے جرائم میں اضافہ ہوگا۔ مزدوروں کو بھی 32 ہزار ماہانہ تنخواہ نہیں مل رہی جبکہ 32 ہزار میں بھی گھر نہیں چلتا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ جب سے آئی ایم ایف کے ساتھ بہ دقت تمام ہزاروں منتیں ترلے بلکہ بقول وزیراعظم شہباز شریف ”ناک سے لکیریں رگڑوانے”کے بعد جو معاہدہ ہوا ہے اس کے انتہائی ہولناک نتائج سامنے آرہے ہیں اور روز کسی نہ کسی شعبے میں مہنگائی کرتے ہوئے حکومت عوام کے ساتھ ساتھ اب خواص یعنی ارکان اسمبلی کو بھی چیخنے چلانے پر مجبور کر رہی ہے۔ ملک میں بے روزگاری نے پہلے ہی ڈیرے جما رکھے ہیں اور ایک وقت کی روٹی کا حصول بھی ناممکنات کی سرحدیں چھو رہا ہے۔ اسی صورت حال کے سبب اب سوشل میڈیا پر نت نئے ٹرینڈز چلائے جارہے ہیں، ابھی گزشتہ ہفتے بجلی کے نرخوں میں ہوشربااضافے کے سبب لوگوں کی چیخیں رکنے نہ پائی تھیں کہ گزشتہ روز پیٹرول کے نرخ بڑھاتے ہوئے ان تمام دعوؤں پر بھی پانی کی جگہ پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی گئی کہ روس سے سستا تیل آنے سے پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کر دی جائے گی، اب عوام کی فریاد رکنے ہی میں نہیں آرہی ہے، کم آمدنی والے پریشانی کی کن حدوں کو چھو رہے ہیں اس بارے میں بطور خاص ان سے پوچھا جائے جوکم از کم تنخواہ 32 ہزار مقرر کرنے کے بعد اپنے اس فیصلے پر عملدرآمد کرانے سے کترار ہے ہیں اور نجی سیکٹر میں ان احکامات پر کوئی ان احکامات پرعمل کرنے کو تیار نہیں ہے اورمحنت کشوں کو15-20 ہزار بھی بمشکل ادا کئے جاتے ہیں جبکہ صرف ایک ٹیوب لائٹ اور ایک پنکھا چلانے والوں کو بھی جو بل موصول ہو رہے ہیں ان کی ادائیگی غریبوں کیلئے سوہان روح بنتی جا رہی ہے۔ ایسے میں لوگوں کا گزارہ کیسے ہو؟ اور پھر وہ خودکشی کے بارے میں نہ سوچیں تو دوسرا کونسا راستہ بچتا ہے ان کے پاس۔ اس کے برعکس ملک میں مراعات یافتہ طبقات کو ملنے والی سہولتوں کو دیکھا جائے جن میں مفت بجلی’پیٹرول’گیس’لاکھوں کی تنخواہیں، لگژری گاڑیاں وغیرہ وغیرہ تو کیا یہ اس انصاف اور عدل کی نشانیاں ہیں جن کا حکم ہمارے دین نے دے رکھا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ ان دنوں سوشل میڈیا کی مختلف ایپس فیس بک’ٹوئٹر’یوٹیوب وغیرہ پر عوامی احتجاج کی ایک لہر آئی ہوئی ہے اور لوگ انصاف کے حصول کیلئے آواز اٹھا رہے ہیں۔ اس موقع پر علما کرام سے بھی سوال کئے جا رہے ہیں کہ موجودہ مہنگائی کا مقابلہ نہ کرسکنے کی بنا پر اگر کوئی خودکشی پر مجبور ہوجائے تواس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی۔ ویسے تو خودکشی اسلام میں حرام ہے لیکن اسلام میں اس قسم کی طبقاتی تقسیم بھی کہاں درست قرار دی جاسکتی ہے جس کے تحت ایک خاص اقلیت تو ہر سہولت کا حقدار ٹھہرے اور ملک میں وسائل نہ رہتے ہوئے ڈپٹی کمشنروں کیلئے اربوں روپنے کی نت نئی گاڑیاں خریدنے کی منظور دی جائے اورعوام کی غالب اکثریت محرومیوں کا شکار ہوکر بہ امر مجبوری غیر قانونی سرگرمیاں شروع کرے۔ کنڈا کلچر انہی حالات کا شاخسانہ ہے، جب لوگ بجلی کے بل ادا کرنے کے قابل نہیں رہیں گے تو پھر بجلی چوری پر آمادہ ہوکر قانون کی دھجیاں نہیں اڑائیں گے،بیر روزگاری اور غربت کے ہاتھوں تنگ ہوکر جرائم کی راہ اختیار کرنے کی وجوہات دیکھیں تو اس کے ڈانڈے اسی مہنگائی میں استوار دکھائی دیتی ہیں حکومت ان حالات سے نمٹنے کیلئے کیا اقدامات اٹھارہی ہے اس پر ضرور سوچنا پڑے گا۔ محاورتاً نہیں بلامبالغہ لوگ ہراساں رہنے کے بعد خودکشی کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں جو جتنا غریب اتنا ہی زیادہ پریشان اورہراساں ہوگیاہے۔بجلی کے بلوں پر غریب نہیں متوسط لوگ خصوصاً تنخواہ دار بلبلا گئے ہیں  عوام کو کوئی پوچھنے والا نہیں 15ماہی حکومت0 9رکنی کابینہ کے قطعی غیر جواز حجم اور غیر معمولی مراعات کے ساتھ مست ہے اور ا ب اقتدار کے مزے کچھ دن اڑانے کیلئے انتخابات میں التوا کے راستے تلاش کررہی ہے،جبکہ عوام کا یہ حال ہے کہ ان کو اناج بھی آسانی سے نصیب نہیں رشوت اورکرپشن کا بازار بدستور گرم ہے بلکہ ہر شعبے میں رشوت کے ریٹ بڑھتے جارہے ہیں غیر معیاری آٹے کی جان لیوا تقسیم پر 84ارب کرنے کا دعویٰ کیا گیا جس میں 20ارب کی چوری ہوئی،  20ارب کی چوری کا یہ انکشاف خود حکومت کی صفوں ہی سے سامنے آیا جس کی تحقیقات کا وعدہ کیاگیا لیکن آج تک اس تحقیقات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی کیونکہ غبن کی رقم کا بڑا حصہ مبینہ طورپر وزرا اور ان کے چہیتوں کی جیب میں گیاہے، اتنی بڑی رقم اسکولوں میں بچوں کی فیسوں غریب ترین گھرانوں کو بجلی کے بلوں میں کمی صحت کارڈ ختم کرنے پر غریب مریضوں کی مفت ادویات پر لگی ہوتی تو غریب ترین طبقے کو اچھا خاصا ریلیف مل سکتا تھا جان لیوا آٹا نہ باٹتے تو 20ارب کی چوری ہوتی نہ 22جانیں جاتیں اور بھوک سے کوئی بھی نہ مرتا۔ اللہ کا اتنا فضل تو اب  بھی ہے کہ حکومت جتنی بھی عوام کی جانب بے رحمی کامظاہر کرے اس کے نیک اور سخی بندے اس گمبھیر دور میں بھی اتنے ہیں کہ قحط کی نوبت تو نہیں آتی۔

 


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں